نسوانی جذبات کی شاعرہ کے نام۔۔۔۔!

کْو بہ کْو پھیل گئی بات شناسائی کی
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی
کیسے کہہ دوں کہ مْجھے چھوڑ دیا اْس نے
با ت تو سچ ہے مگر بات ہے رْسوائی کی
وہ کہیں بھی گیا، لَوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی مرے ہرجائی کی
اْس نے جلتی ہْوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
رْوح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اْٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

میرا آج کا کالم خوشبو کی شاعرہ، لطیف جذبات کو لفظوں کا پیرہن دینے والی پروین شاکر کے نام ہے جن کو ادب کی دنیا میں وہ مقام حاصل رہا جس کیلئے ہر شاعر برسوں محنت کر تا ہے۔خوبصورت لجے کی مالک پر وین شاکر نے اپنی شاعری کی خوشبو سے ہر ایک کے دل میں گھر کیا ۔ادبی دنیا کی نایاب شاعرہ پروین شاکر ؔ کی قابلیت اور ابتدائی زندگی پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں ۔

پروین شاکر 24نومبر 1952کو کراچی میں پیدا ہوئیں، ابتدائی تعلیم کراچی سے ہی حا صل کی پھر اس کے بعد انگلش لٹریچر اور زبانی دانی میں گریجوایشن کیا ، انگریزی ادب میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری لی، ہاورڈ یونی ورسٹی سے ماسٹرز ڈگری حاصل کی ،اور پھر پی ایچ ڈی کیا۔

پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں انھوں نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔ سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986 ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔پروین شاکر کا پہلا شعری مجموعہ خوشبو شائع ہوا،اُس وقت اُنکی عمر صرف24 سال تھی ، اس عمر کے نسوانی جذبات کی جھلک اس مجموعے میں جابجا نظر آتی ہے۔
آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
رات بھر جاگی ہوئی جیسے دْلہن کی خوشبو
پیرہن میرا مگر اْس کے بدن کی خوشبو
اْس کی ترتیب ہے ا ک شکن کی خوشبو
قامت شعر کی زیبائی کا عالم مت پْوچھ
مہربان جب سے ہے اْس سرد بدن کی خوشبو
ذکر شاید کسی خْورشید بدن کا بھی کرے
کْو بہ کْو پھیلی ہْوئی میرے گہن کی خوشبو
عارضِ گْل کو چھْوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو

پروین شاکرؔ نے اپنی یادگارشاعری میں محبت، حسن اورعورت کوموضوع سخن بنایا،وہ خواتین سمیت شعری ذوق کے حامل افراد کی ہر دلعزیز شاعرہ تھیں،پروین شاکر کا بیشتر کلام فنون لاہور میں ہی شائع ہوا ،ان کے شعری مجموعے خوشبو ( 1976ء )، صد برگ (1980ء )،خود کلامی (1990ء)، انکار (1990ء ) اور ماہ تمام (1994ء) پاکستان کے بعد بھارت میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔ اس لیے ان کا کلام پاک بھارت میں بھی آسانی سے دستیاب ہے۔ان مجموعوں میں محبت اور صنف نازک کے جذبات کے ساتھ ساتھ ورکنگ ویمن کی مشکلات ، گھریلو مسائل کے سبب پیش آنے والے تجربات اور مختلف سماجی مسائل بھی اجاگر کیے ۔پروین شاکر کی شاعری میں کربناک موڑ اس وقت آیا جب ان کے شوہر نصیر علی سے ان کی علیحدگی ہوئی اور جب انہوں نے اس موضوع پر اظہار خیال کیا تو ان کے بیان میں بہت تلخی تھی وہ تلخی اُن کے کہیں اشعار میں واضح نظر آتی ہے ۔ علیحدگی کے بعد پروین شاکر اس طرح کے مختلف اشعار بھی کہنے لگی ۔
کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا
کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
کون چاہے گا تمہیں میری طرح
اب کسی سے نہ محبت کرنا
طلاق دے تو رہے ہو مجھے غرور و قہر کیساتھ
میرا شباب بھی لوٹا دو میرے مہر کیساتھ

ہمارے ہاں عورت کو بہت حساس سمجھا جاتا ہے مگر پروین شاکر جیسی شاعرہ کو پڑھ کر یہی لگتا ہے کہ وہ مضبوط اعصاب کی عورت تھی۔انہوں نے نہ صرف اپنے گھریلو مسائل کا مقابلہ کیا بلکہ دوسری عورتوں کو بھی ہمت دی کہ وہ بھی معاشرے میں اپنی جگہ بنائیں ۔اگر دیکھا جائے تو ہر عورت میں کوئی نہ کوئی عادت ضرور ہوتی ہے یوں تو پروین شاکر کی بہت سی عادتیں تھی انکی ایک عادت جس کا ذکر اکثر کتابوں میں بھی رہا وہ یہ کہ وہ کسی بھی محفل میں اپنے جوتے اتار دیا کرتیں اور ننگے پیر پھرا کرتیں ،واپسی پر اکثر ہی جوتے گم ہو جایا کرتے اور انہیں ننگے پاؤں گھر آنا پڑتا،وہ گاڑی بھی جوتا اتار کر چلایا کرتیں،ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں جوتوں کی دکان کے سامنے گاڑی روکے زورزور سے ہارن بجا رہی تھیں ، شاپ سے سیلزمین باہر آیا تو پتا چلا کہ پروین شاکر ننگے پاؤں ہیں انہیں جوتا چاہیے،اصل میں وہ کسی تقریب میں اپنا جوتا کھو بیٹھی تھیں اور اب جہاں جانا تھا وہاں بغیر جوتے کے جا نہیں سکتی تھیں۔ان کے سفر میں جوتے کبھی آڑے نہیں آئے۔ کوئی چیز ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔

ان کی شاندارتخلیقات پرانھیں پرائیڈ آ ف پرفارمنس، آدم جی ایوارڈ ، عمدہ شاعری پر صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سمیت کئی اعزازت ملے۔ بل آخر خوشبو کا سفر زیست 42سال کی عمر تک رہا اور ہر دل عزیز شاعرہ پروین شاکر 26 دسمبر 1994ء پیر کے روز آفس جاتے ہوئے اسلام آباد میں ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کومل لہجے والی ہی شاعرہ خالق حقیقی سے جا ملیں۔26دسمبرانہیں اسلام آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ان کے کتبے پر یہ شعر درج ہے ان کے کتبے کا ایک شعر اپ کی نذر ؂
مر بھی جاں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے ،مرے ہونے کی گواہی دیں گے

MA Doshi
About the Author: MA Doshi Read More Articles by MA Doshi: 20 Articles with 19328 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.