امریکی تکبر کا نتیجہ......تابوتوں کی یلغار

دنیاکی ایک جوہری اورسپرپاورسوویت یونین نے گرم پانیوں کی رسائی کیلئے جب اپنے ہمسایے افغانستان پرراتوں رات حملہ کرکے یہ سمجھ لیاتھاکہ چند گھنٹوں کے بعدوہ اپنے اگلی منزل کی طرف قدم بڑھائے گاتودنیانے دیکھ لیاکہ افغانوں نے اس سپرپاورکواپنی توڑے داربندوقوں سے روک کراس کے غرور کوخاک میں اس طرح ملایاکہ اپنے لازوال قربانیوں سے نہ صرف سوویت یونین کے اردوں کوخاک میں ملادیابلکہ سوویت یونین سے اسے روس کے مقام پرلاکھڑاکیااوراس کے بطن سے چھ اورمسلم ریاستوں کوبھی آزادی مل گئی لیکن دنیاکی دوسری سپرپاورامریکاجو اس جنگ کے آغازمیں سوویت یونین کی جارحیت پرگومگوکی کیفیت میں مبتلاتھالیکن افغانوں کے اس سرفرشانہ کردارکے بعداس نے اپنے مفادات کیلئے پاکستان کواستعمال کرتے ہوئے افغانوں کی اس جنگ میں ان کی محض اس لئے مددکی کہ سوویت یونین جوکہ پچھلی کئی دہائیوں سے اس کامضبوط اور طاقتور مدمقابل تھا،افغانوں کے ہاتھوں اس بدترین شکست کے بعدوہ دنیاکی واحدسپرپاوربن گیااورطاقت کے اس نشے نے اسے بدمست کردیااوراس نے ورلڈ آرڈرکو متعارف کرواتے ہوئے ساری دنیاکواپنے تابع اوراپنی مرضی کے مطابق چلانے کاسلسلہ شروع کر دیا۔

بدمست امریکاجوفغان جنگ میں سوویت کی شکست کے فوری بعدافغانستان اور پاکستان کوجنگ کی بدترین معاشی اوردیگرمشکلات میں اکیلاچھوڑکر واپس چلاگیااوراپنے ان تمام عہدوپیمان کو یکسربھول کرآنکھیں پھیرکرخطے میں اپنی برتری قائم رکھنے کیلئے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کوتھانیدار بنانے کیلئے عملی اقدامات شروع کردیئے ۔ ان حالات میں پاکستان اورافغانستان جہاں اپنی تباہ شدہ معیشت کواپنی انتھک محنت سے اپنے قدموں پر کھڑاکرنے کی کوششوں میں مصروف تھے اورجہاں اس کوشش میں تھے کہ پچھلی ایک دہائی میں افغان جہادمیں شامل دنیابھر سے آئے ہوئے مجاہدین کے مستقبل کابھی کوئی فیصلہ کیاجائے جوسارے افغانستان اورپاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں مقیم تھے کہ انہی دنوں میں بدمست امریکانے سانحہ نائن الیون پر احمقانہ ردّ ِعمل دکھایااورپوری دنیاپراپنی دھاک بٹھانے کیلئے انسداددہشتگردی کابہانہ بناتے ہوئے ایسی جنگ چھیڑدی جس کاخمیازہ نہ صرف وہ آج تک بھگت رہاہے بلکہ اس نے اپنے مفادات اور بدترین شکست سے بچنے کیلئے بھارت کے توسط سے افغانستان اورپاکستان میں دہشتگردانہ کاروائیاں شروع کردیں جوابھی تک جاری ہیں۔ امریکاکے اس اھمقانہ فیصلے کی پاداش میں جہاں لاکھوں افغان اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں وہاں تیس لاکھ سے زائدافغان بے گھرہوکرپاکستان کی سرزمین پرپنا ہ لینے پرمجبور کر دیاگیاوہاں پاکستان بھی اب تک چالیس ہزارسے زائداپنے فوجی جوانوں اورشہریوں کی قربانی اورسوبلین سے زائدکامالی نقصان کے بوجھ تلے اپنی سسکتی معیشت کودرست کرنے کیلئے جان جوکھوں میں مبتلاہوگیاہے۔

بالآخر پاکستان افواج نے ضرب العضب اورردّالفسادآپریشنزشروع کرکے اپنے ملک سے ان تمام امریکی اوربھارتی ایجنٹوں کاصفایاکرنے کیلئے ایک مرتبہ پھراپنی لازوال جانی قربانیوں سے پھرپورکاروائیوں میں مصروف ہے اورپاکستان کے تمام علاقوں کوان دہشتگردوں کے ٹھکانوں سے پاک کر چکاہے تاہم امریکاجس نے اس خطے میں جوجنگ چھیڑی اورامن عالم کوجہنم بنانے کی جوجسارت کی تھی اوراب جب افغانستان کوتہس نہس کرنے کے مذموم عزائم سے لیس امریکی استعمارشکست سے دوچارہو کراپنے تمام ارادوں میں منہ کی کھاکر بھی یہ حقیقت مان کرنہیں دے رہاکہ وہ مردِ کوہستانی کے مقابلے میں ہیچ ثابت ہوچکاہے۔پوری دنیاجان چکی ہے اورامریکابھی جان چکاکہ افغانستان میں اس نام نہاداکلوتی سپرپاورکے غبارے سے ہوانکل چکی ہے مگرجان بوجھ کرانجان بننے کاسوانگ رچارہاہے۔جب سانحہ الیون پیش آیاجس میں لگ بھگ تین ہزارافراد لقمۂ اجل بنے تواس وقت کے قصرسفیرکے فرعون بش نے افغانستان پر پوری قوت اورپوری نفرت کے ساتھ چڑھائی کافیصلہ کیا۔اس بہیمانہ جارحیت کوامریکی سربراہ نے صلیبی جنگ کانام دیا۔اس وقت جبرائیل کانڈے کنڈے گارٹن میں زیرتعلیم تھا،وہ کالج سے فارغ ہواتوافغانستان کی جنگ ہنوز جاری تھی۔

جبرائیل کانڈے خصوصی جذبات جوانی کے تحت محاذجنگ پرجانے میں ترغیب اورپرکشش محسوس کرنے لگااوربھرتی کے مرکزجاپہنچا۔ضروری تربیت کے بعداسے 16دوستوں کے ساتھ افغانستان بھیج دیاگیا ۔اس دوران اس کاباپ سی این این پرافغانستان کی خبریں سنتااورسوچتاکہ آخر طالبان کے خودکش حملوں،شہری اورپولیس وفوج کی ہلاکتوں اورسیاسی عدم استحکام کے اس ملک میں اس کاخوبرونوجوان بیٹاوہاں کیاکررہاہے جوباپ کی مرضی کے خلاف مہم جوئی کے جذبے کے ساتھ افغانستان چلاگیاتھااوراس دوران بش اوراوباما اپنی صدارت کی دومیعادیں گزار چکے تھے مگریہ منحوس جنگ ٹرمپ کے دورمیں بھی جاری وساری ہے اورہمیں اپنے جوان بیٹوں کی کٹی پھٹی لاشوں کوتابوتوں میں چھپاکرساری عمر کیلئے غم اورصدموں میں مبتلاکیاجا رہاہے اورجنگ جاری کرنے والے تمام افرادکی اولادیں یہاں امریکامیں عیش وعشرت کی زندگیاں گزاررہے ہیں بلکہ انہیں امریکاکی قیادت کیلئے تیارکیاجارہاہے ۔

اس برس مئی میں جبرائیل کانڈے بھی امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ میں کام آگیا۔اس کے والدین نے امریکامیں جب اپنے اکلوتے جوان بیٹے کاامریکی پرچم میں تابوت وصول کیاتو افغانستان سے آنے والا2264واں تابوت تھا۔جب کانڈے کے دوست اس کے باپ کے سامنے اس کی موت کا انتقام لینے کیلئے واپس افغانستان جانے کاعزم ظاہرکرتے توکانڈے کے باپ کے نزدیک یہ کوئی معقول بات نہیں تھی۔یہ ویساہی احمقانہ فیصلہ ہے جواس کے بیٹے سمیت دیگرنوجوانوں نے افغانستان کی جنگ میں شرکت کیلئے کیاتھا۔یہ نوجوان نائن الیون کے وقت اسکول جاتے تھے ۔وہ بڑے ہوئے اورامریکی فوج میں بھرتی کے بعدانہیں افغان جنگ کے بھڑکتے الاؤ میں جھونک دیا گیا۔آج ان کے والدین نیویارک ،شکاگو،ہیوسٹن اوردیگرشہروں میں اپنے بچوں کی لاشیں وصول کرتے ہوئے سوچتے ہیں۔ آخرکس مقصدکیلئے انہوں نے اپنے جگرگوشوں کوافغان جنگ کے جہنم زارمیں بھیجناگواراکیا؟

جبرائیل کانڈے کی لاش وصولی کے روزواشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی ایپروپری ایشنزکمیٹی کے ناراض ارکان سیکرٹری دفاع جان میٹس سے اس سوال کاجواب مانگ رہے تھے کہ کیا بے مقصد اورطویل ترین جنگ افغانستان ختم ہوگی یااسی طرح امریکی اپنے جگرگوشوں کوافغان جنگ کا رزق بناتے رہیں گے۔میٹس کے پاس اپنے ساتھیوں کے اس سوال کوکوئی جواب نہیں تھا۔ '' واشنگٹن ایگزامیر''کے ایڈیٹرخودبھی افغان جنگ میں حصہ لے چکاتھا،اس نے بڑے برملااندازمیں ٹرمپ سے یہ پوچھاہے کہ'' اسے یہ بتاناپڑے گاکہ یہ جنگ کس انجام کوپہنچ رہی ہے۔ مجھے اپنے فوجی کیرئیر پرہرگزپشیمانی نہیں مگرایک فوجی کوپتہ ہوتاہے کہ وہ کس لئے لڑرہاہے۔حکومت ہمیں بتاتی کیوں نہیں کہ وہ کون سی کامیابیاں اورمقاصدہیں جوہم نے 17برس میں حاصل کئے؟ ہمارے ہنستے مسکراتے سرخ وسفیدنوجوان چہرے کب تک افغانستان جاتے اورلاشوں کی صورتوں میں تابوتوں میں واپس آتے رہیں گے اوراپنے والدین کے مستقبل کے تمام خوابوں کوپری طرح چکناچورکرتے رہیں گے "۔

اخبارکے مدیراعتراف کرتے ہیں کہ اگرامریکاافغانستان سے مکمل طورپرنکل آیاتوافغانی حکومت کاچندگھنٹوں میں دھڑن تختہ ہوجائے گااورطالبان انتہائی آسانی کے ساتھ دوبارہ ملک کانطامِ حکومت سنبھال لیں گے لیکن کیااس خوف سے امریکااگلے سوسال تک افغانستان میں اپنے نوجوانوں کی قربانی دیتارہے گا۔یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ جنگ خواہ کتنی ہی طویل کیوں نہ ہوجائے امریکا افغانستان میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکے گا ۔اس وقت طالبان افغانستاان کے 70فیصدعلاقے پرقابض ہیں ۔ امریکی مدیرمزید کہتاہے کہ میرے دوست اب بھی انہیں پہاڑوں میں مورچہ بند ہیں جہاں میں انہیں چھوڑآیاتھا لیکن کوئی مجھے بتائے کہ ہلمندمیں کوئی طالبان کمانڈر یااہم لیڈرمارا جاتاہے توادھرورجینیا میں میری سلامتی سے اس کا کیاتعلق ہے یاامریکی عوام کواس کاکیافائدہ پہنچتاہے۔

برنیٹ ٹیلرامریکی ریاست اوتاہ شہرنارتھ گوڈن کامیئر تھا ۔وہ اوتاو گارڈمیں بھرتی ہو کرطالبان کے خلاف لڑنے کیلئے افغانستان چلاآیا۔ گزشتہ جنوری میں اپنی فیس بک پرٹیلرنے لکھا: قیادت حقیقت(فوجی)سروس سے آشکار ہوتی ہے۔وہ ایک سال کیلئے افغانستان میں لڑنے کیلئے آیاتھاکہ 3نومبر 2018ء کوکابل میں ایک افغان کمانڈونے میجربرینٹ ٹیلرکوگولیوں سے چھلنی کرکے ہلاک کردیاجس پرنارتھ گوڈن کے شہریوں نے اپنے میئرکاخوب ماتم کیااورٹرمپ سے بے مقصدافغان جنگ سے جلدازجلد جان چھڑانے کامطالبہ کیا۔

امریکاکے جائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ نے بھی بالآخراعتراف کرلیاکہ:امریکانے فغانستان جنگ میں مسلسل14سال تک اپنے تمام جنگی وسائل استعمال کرکے دیکھ لیالیکن اس جنگ کے بعدطالبان کویہ فرق پڑاکہ وہ پہلے دن سے کہیں زیادہ مضبوط نظر آرہے ہیں اورماسوائے ایک چھوٹے علاقے کے باقی سارے افغانستان پران کی مضبوط گرفت اوروہاں کے عوام صرف طالبان حکومت کے احکام کے پابندہیں ۔اللہ کی قدرت ہے کہ سپرپاورکے زعم میں مبتلاامریکاجوطالبان کا صفایاکرنے دعوے کے ساتھ حملہ آورہواتھااب بارباران سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہاہے۔

دوتین ہفتے پہلے ماسکومیں مذاکرات کاایک دورہواجس میں پاکستان،کابل حکومت،امریکا،ایران اورطالبان کے نمائندے شریک ہوئے ۔وہاں طالبان نمائندے نے امریکی فوجی انخلاء کی شرط پر اصرارکیا،اب قطرمیں طالبان اورامریکی نمائندے زلمے خلیل زادکے درمیان تین روز مذاکرات ہوئے ہیں۔طالبان نے اگلے برس صدارتی انتخاب ملتوی کرنے اورغیرجانبدارعبوری حکومت تشکیل دینے پرزوردیا۔عبوری حکومت کیلئے تاجک اسلامی اسکالرعبدالستارسیرت کانام پیش کیا گیا۔زلمے خلیل زادتمام امورچھ ماہ کے اندرحل کرناچاہتے تھے تاہم طالبان نے اس مدت کوبہت مختصرقراردیا۔زلمے کلیل زادنے فوری جنگ بندی کی تجویزدی جوطالبان نے مستردکردی۔ان مذاکرات میں قیدیوں کوآزادکرنے،طالبان آفس کھولنے اورطالبان پرسفری پابندی کے معاملے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔یادرہے امریکی رضامندی قطرمیں طالبان کاسفارتی دفترپچھلے چند سال سے کام ہورہاہے۔

وریں اثناء افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن(یوناما)نے اس برس نیٹوکے فضائی حملوں میں بڑھتی ہوئی شہری ہلاکتوں پرتشویش ظاہرکی۔ امدادی مشن کی رپورٹ کے مطابق 22ستمبر2018ء کوبندآب ضلع تغاب(صوبہ کیپسا)میں فضائی حملے میں ایک استادکاگھراڑا دیاگیاجس میں چاربچوں سمیت اورعورتوں سمیت 8شہری ہلاک اورکئی زخمی ہوئے ۔تمام شہداء ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اوران میں دادا،دادی اور دوسے لیکربارہ سال تک کی عمروں کے بچے شامل تھے۔چھ زخمیوں میں سے پانچ عورتیں یا بچے تھے۔رپورٹ کے مطابق اس سال کے پہلے چھ ماہ میں افغانستان میں 1690سے زیادہ شہری ہلاک اور343سے زائدزخمی ہوئے،ان میں سے 149ہلاکتیں اور204 زخمی فضائی حملوں کانتیجہ تھے۔وردک صوبائی کونسل کے رکن حاجی احمدجعفری کے بقول 25 ستمبرکوضلع جغاتومیں فضائی بمباری سے عورتوں اوربچوں سمیت بارہ شہری ہلاک ہوئے ۔ انہی دنوں صوبہ فاریاب میںبارودی سرنگ پھٹنے سے آٹھ بچے ہلاک اورچھ شدیدزخمی ہوئے۔

طالبان کی جہادی یلغاروں کے مقابلے میں امریکابے بس ہوچکامگراس کامغرورصدرٹرمپ امریکی ناکامیوں پرپاکستان کوموردِالزام ٹھہراتاہے۔اپنے تازہ بھاشن میں ٹرمپ نے کہاکہ پاکستان نے اسامہ کوپناہ دی اورامریکاسے سالانہ تین اعشاریہ ایک ارب ڈالرمددلیکر بھی کچھ بھی نہیں کیا،ساری دنیا جان چکی ہے کہ ٹرمپ جھوٹ اچھالنے کی مشین ہے اوربغیرکسی تحقیق کے ایسے الزامات اچھالنے کی لت میں مبتلاہے،نفسیاتی مریض ہے اوراحمقانہ حدتک لاابالی اوراوچھے پن کامظاہرہ کرتارہتاہے۔امریکانے پاکستان کو کولیشن فنڈمیں جوکچھ دیااسے امدادکانام نہیں دیا جا سکتا۔یہ پہلے سے طے شدہ پاکستانی بندرگاہیں،فضائی اڈے اورشاہراہیں استعمال کرنے کا کرایہ تھا،اس پر مستزاد دہشتگردی کاعذاب ہے جو امریکا سے پاکستان کے تعاون اورپاکستان کے اندرامریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں ہمیں بھگتناپڑرہاہے۔امریکابہادرکوپاکستان میں انتہائی نامعقول تنقیدکی بجائے اس بات کی فکرکرنی چاہئے کہ وہ جنگ ہارچکاہے جواس کے تکبر کا نتیجہ بھی ہے ۔ان امریکی فوجیوں کے تابوتوں کے مسلسل امریکا پہنچنے پرردّ ِعمل کاتقاضہ ہے کہ اب وہ بلاتاخیراپنی شرمناک شکست اورہزیمت کااعتراف کرکے افغانستان سے نکل جائے کہ اس کی عافیت اسی میں ہے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 316086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.