کاٸنات میں صرف دو زندہ ہستیاں ایسی ہیں جو کبھی مایوس
نہیں ہوتی۔ایک اللہ اور ایک *ماں*. اللہ کا حکم بھی ہے مایوس نہ ہونے کا۔
اللہ کی دھرتی پر اللہ کے ہر حکم کی ٹنوں کے حساب سے نافرمانی ہوتی ہے۔پھر
بھی اللہ کو کبھی مایوسی نہیں ہوسکتی،اگر اللہ کو سیکنڈ کے لاکھواں حصہ بھی
مایوسی ہوتی، تو کاٸنات کا سارا سسٹم تہس نہس ہوجاتا۔أنا فانا دنیا ختم
ہوجاتی۔مایوسی نہ ہونے کی یہی ایک دلیل کافی ہے کہ خدا کی زمین کےاوپر
انسانیت پر ہر قسم کے مظالم روا رکھے جاتے مگر اللہ کی رحمتیں اور نوزاشیں
مسلسل جاری ہیں۔
رہی بات انسانوں کی، تو *ماں* وہ واحد ذی روح ہستی ہے جو اپنے اولاد کے
حوالے سے کھبی مایوس نہیں ہوسکتی۔اگر بیٹا گم ہوکر برس ہا برس بیت بھی جاٸے
مگر *ماں* کو ہر أہٹ پر بیٹا أتا دکھاٸی دے گا۔۔ *ماں* کو ہر فون اور مسیج
گم شدہ بیٹے کا ہی لگے گا۔انتہاٸی نافرمان اولاد کے لیے بھی واحد *ماں* ہی
ہوتی ہے جو اس کے سدھرنے پر یقین رکھتی۔اور دعا بھی کرتی۔ *ماں* کو یقین
ہوکہ گھر پر کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں مگر اپنے بچوں سے یہی کہے گی کہ کل
صبح آپکو سب کچھ مل جاٸے گا۔یا کہے گی سو جاو بیٹا! جب کھانا پکے گا تو
جگاونگی حالانکہ دیگ میں پانی ابل رہا ہوگا۔ *ماں* تپتے صحرا میں بھی اولاد
کے لیے پانی کی امید میں رہتی۔تب تو زمزم جاری ہوتے۔بہت سی *ماٸیں* تحریر
کے اس مختصر ٹکڑے کو پڑھیں گی۔ دل پر ہاتھ رکھ کر مجھے بتاٸے گا کہ کیا ایک
*ماں* کسی بھی صورت اپنی اولاد کے حوالے سے مایوس ہوسکتی ہے؟۔ *ماں*
انتہاٸی نافرمان اولاد کے لیے بھی راحت کی دعا کرتی اور یہی سوچتی کا اس کا
نافرمان بچہ جگ جگ جیے۔اللہ نے بھی اپنی چاہت اور رحمت و محبت کی گارنٹی
اور مثال دی تو *ماں* سے ہی تشبیہ دی۔ *ماں* وہ واحد انسان ہے جو اپنے
اولاد کے لیے پہلے چوڑیاں بیچتی پھر عزت بھی بیچ کر اولاد کو سکھ پہنچاتی۔
ایک *ماں* ہی ہوتی ہے جو غربت کی چکی میں زندگی بھر پس رہی ہوتی مگر اپنی
اولاد کے لیے *شیش محل* کا خواب دیکھتی ہے۔ *ماں* تو اس سرزمین کے لیے بھی
دامن بھر کر اور جھولی پھیلا کر دعا دے رہی ہوتی ہے جہاں اسکا بگڑا اور
نافرمان بچہ رہتا ہو۔دکھ اور کرب کے لمحات میں بھی *ماں* ہی ہوتی ہے جو
ڈھارس بندھاتی اور حوصلہ دیتی۔میرے گھر میں جب مایوسیاں چھانے لگتی ہیں تو
میری علیل *ماں* ہنستی ہے۔تب میں ہنستا ہوں اور خود کو طاقتور محسوس
کرتا۔میں اپنی تاٸی سے اپنے کزنوں کی لاپراٸی کی شکایت کرتا ہوں تو وہ
ہمیشہ یہی کہتی ہے کہ *اللہ دے گا* کیونکہ وہ *ماں* ہے اور *ماں* اس کے سوا
کچھ سوچ بھی نہیں سکتی اپنے اولاد کے لیے۔ میں ان *ماٶں* کو بھی جانتاہوں
جو اپنے بیمار بچوں کی صحت کے لیے قبروں اور بیابانوں میں وظیفے کرتی ہیں
اور تعویذ دفناتی ہیں۔ اور ان *ویل ایجوکیٹڈ ماٶں* کو بھی دیکھا ہے جو اپنے
لاغر اور نان سینس بچے کے لیے جعلی عاملوں کا سہارا لیتی ہیں۔اور ان پڑھ
پیروں کے پاس جاتی ہیں۔یوں بھی وہ اپنے بچے کا سینس بحال کرانا چاہتی۔ اور
ہاں *ماٸیں* ہی تو ہوتی ہیں جو مصر ہوجاٸیں تو قدرت سے بھی فیصلے تبدیل
کروادیتی۔انسان کے علاوہ دیگر جانداروں میں،سانپ کے سوا اللہ کی لاکھوں
کروڈوں جاندار مخلوقات میں کوٸی *ماں* اپنے بچے کا برا نہیں سوچ سکتی ایک
خاص مدت تک۔اس مخصوص مدت تک ان غیر ذوالعقول *ماٶں* سے بھی اپنے بچوں کو جی
بھر کر محبتیں ملتی۔
*کاش!*
ہم میں سے ہر کوٸی انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے *ماں* کی طرح سوچتا۔اور
ہم *ماں* کی طرح انسان سے محبت کرتے۔اگر أج سے ہم نے مردوں کے بجاٸے *ماٶں*
کی طرح سوچنا اور ایکٹ کرنا شروع کیا تو دنیا جنت کا ٹکڑا بن سکتی اور
مایوسیاں ختم ہوسکتی۔ *ماں* کے سوا ساری دنیا مایوسی پھیلاتی ہے تو
احباب کیا کہتے ہیں؟
|