بدمست اورخودکوبرترسمجھنے والے صہیونی فوجیوں نے ایک
مرتبہ پھر فلسطینیوں پرحملہ کرکے سات مزیدبے گناہ شہیدکردیئے۔اب یہ مظالم
روز مرہ کے واقعات ہوچکے ہیں جبکہ فلسطینیوں کوجن ممالک سے تعاون کی توقع
ہے وہ رفتہ رفتہ اسرائیل کی جھولی میں گرتے جارہے ہیں ۔سعودی عرب کے
اسرائیل کے ساتھ تعلقات اب ڈھکے چھپے نہیں رہے اور سعودی عرب پچھلے کئی
برسوں سے اسرائیل کے بارے میں نہ صرف اپنے مؤقف میں بھی تبدیلی لاچکاہے
بلکہ سعودی اعلیٰ حکمرانوں کی اسرائیل یاترابھی خفیہ نہیں رہی لیکن اب تو
پاکستان کے بارے میں بھی عالمی میڈیا پرکھل کریہ پروپیگنڈہ کیاجارہاہے کہ
پاکستان جواسرائیل کے قریب جانے کوبھی حرام سمجھتاتھااب نئے پاکستان بنانے
کادعویٰ کرنے والوں کے مؤقف میں ایسی واضح تبدیلی دیکھنے کوملی ہے کہ اس
جماعت کی ایک خاتون قومی اسمبلی کی ممبر نے باقاعدہ طورپرنہ صرف اسرائیل کی
وکالت کی ہے بلکہ اسرائیل کوتسلیم کرنے اور اس سے تعلقات استوارکرنے کے
فوائدپر بھرپورتقریرکرڈالی اورتاہم تبدیلی کانعرہ لگانے والوں نے اپنی
تبدیلی کا آغازکردیاہے اورتبدیلی لانے کانعرہ لگانے والاوزیراعظم عمران خان
کاابھی تک اپنے اس خاتون ممبرکے قومی اسمبلی کے بیان پرواضح جواب نہ آنے
پرصورتحال گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔
11نومبرکواسرائیل نے نہتے فلسطینیوں پرحملہ کرکے جب مزیدبے گناہ موت کے
گھاٹ اتارے،اسرائیل اورحماس کے رہنماء اس بربریت کا مظاہرہ کررہے
تھے۔اسرائیل اس قسم کے آپریشنز کو خفیہ آپریشن کانام دیتاہے۔یہ خفیہ آپریشن
نہ صرف اسرائیل اورحماس بلکہ اقوام متحدہ اور مصر کیلئے بھی باعث ہزیمت ہے
جوفریقین کے درمیان عارضی جنگ بندی کے ضامن ہیں۔اس حملے کی وجہ سے
قطرجوفلسطین میں امن کی بحالی کیلئے خطیرامدادفراہم کررہاہے،کی ساکھ کوبھی
شدیدنقصان پہنچاہے۔پہلی نظرمیں ان حملوں کواسرائیل اورمشرقِ وسطیٰ اورمشرقِ
وسطیٰ کی ریاستوں کے درمیان بڑھتے تعلقات کودھچکہ لگ سکتاہے البتہ جولوگ
اسرائیل کیلئے اعتباراور جس کے بارے میں پیش گوئی کرناناممکن ہے، کو جانتے
ہیں ، ان پریہ بات ثابت ہے کہ چیتااپنے علاقے سے کبھی دستبردارنہیں ہوتا۔
حالیہ کئی ہفتوں سے اسرائیل کی انتظامیہ حالات کومعمول پرلانے کیلئے
فلسطینیوں پرصلیبی جنگ مسلط کئے ہوئے ہے۔نیتن یاہو25/اکتوبرکواومان کے پہلے
دورے پرپہنچے جبکہ اومان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہی نہیں ہیں۔اس دوران
بحرین اوراسرائیل نے بھی تعلقات کی بحالی کیلئے خفیہ مذاکرات کئے ہیں ۔25/اکتوبر
ہی کوقطرکے حکام نے عرب پروٹوکول کے برخلاف دوحہ میں عالمی جمناسٹک چیمپئن
کے موقع پراسرائیل کاپرچم لہرانے کی اجازت دی۔28/اکتوبرکواسرائیل کی سخت
گیروزیربرائے کلچراورکھیل نے ابو ظہبی میں جوڈوتورنامنٹ میں شرکت کی تھی جس
میں اسرائیل کاقومی ترانہ بھی بجایاگیاتھا،اس کے دوتوزبعداسرائیل کے
وزیراطلاعات ایوب کارانے دبئی میں خطاب کیاتھا۔ اسرائیل اورعرب ریاستوںمیں
تعلقات بہتربنانے کی کوشش کوئی نئی بات نہیں ،بہت سے ریاستوں کویقین ہے کہ
امریکاکامنظقرنظربننے کیلئے راستہ اسرائیل سے ہوکرجاتاہے۔ ان سب میں خاص
طورپرپہلی 1990 ء میں قطرکی طرف سے دوحہ میں اسرائیل کاتجارتی آفس کھولنے
کی اجازت دیکرکی گئی توپھر سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس باراسرائیل اورعرب
ریاستوں میں تعلقات کی تیزی سے بہترکرنے کی کوششوں کے پیچھے کیارازہے؟
اب تک تویہی محسوس ہوتاہے کہ اس باراسرائیل سے تعلقات کی بحالی میں امریکی
دباؤ ہے۔ٹرمپ نے نہ صرف اسرائیل کے تعلقات کے بارےمیں سمجھوتہ نہ کرنے
کاعندیہ دیاہے بلکہ عرب ریاستوں کی طرف سے ایران کے خلاف متحدہ محاذبنانے
کی وجہ سے برائے نام مزاحمت بھی دم توڑ چکی ہے۔عرب ریاستوں نے اسرائیل سے
تعلقات بہتر بنانے کامطالبہ تسلیم کرلیاتو سعودی عرب اوراس کی اتحادی
ریاستوں کی طرف سے جون 2017ء میں قطرکے محاصرے کے فیصلے کے بعدگلف تعاون
کونسل کی رہی سہی حیثیت بھی ختم ہوکررہ گئی ۔ایک بات یہ بھی ہے کہ اسرائیل
عربوں کے تعلقات میں بہتری کی ایک ہی قیمت ہوگی اوروہ ہوگی فلسطین!اسرائیل
کی جانب سے تعلقات کی بحالی کی کوششوں کا مطلب عرب امن کوششوں کیلئے 2002ء
میں عرب الیگ کے اجلاس میں سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات کی بحالی
فلسطینی علاقوں میں بشمول مشرقی یروشلم سے اسرائیل کے انخلاء اورمہاجرین کی
مکمل آبادکاری کی تجاویزدی تھیں۔
ان کوزائل کرنے کیلئے اسرائیل کواپنی حکمت عملی میں کچھ کامیابیاں توپہلے
ہی حاصل ہوچکی ہیں کیونکہ اسرائیل سعودی عرب کی تعلقات میں بہتری تک فلسطین
کے مقبوضہ علاقوں کو چھوڑنے کامطالبہ کرنے پرقائل ہوچکاہے،سعودی عرب کے ڈی
فیکتوحکمران محمدبن سلمان کو ٹرمپ مقبوضہ علاقوں کی تجاوزی پرخاموشی
اختیارکرنے کاکہہ چکے ہیں جوان کے خیال میں فلسطین کے حالات نارمل کرنے میں
سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہی حقیقت ہے کہ اومان ہی واحد ملک تھاجوسعودی عرب کے
خلاف جانے کاحوصلہ رکھتاآیاہے مگراب اومان بھی اسرائیل سے تعلقات میں بہتری
کی کوششوں کیلئے ڈرائیونگ سیٹ پربیٹھاہے جس کامطلب یہ ہے کہ اس حوالے سے
فلسطین کی قیادت کولاعلم نہیں رکھاتھا۔ حیران کن امرتویہ ہے کہ اومان ہی
امریکااور اسرائیل کے دباؤ میں غیرمشروط تعلقات کی بحالی تسلیم
کرچکاہے۔اومان اسرائیل کیلئے تعلقات کی بحالی سے کچھ زیادہ کرنے کا ارادہ
رکھتاہے تبھی تو انہوں نے مسقط میں نیتن یاہوکی میزبانی کی ،یہی حقیقت ہے
کہ اومان کے وزیرخارجہ یوسف بن علوی نیتن یاہوکی آمدسے ٹھیک ایک روزبعد
فلسطین اتھارٹی کے صدرمحمود عباس سے ملنے رملہ گئے تھے، جس کامطلب ہے کہ
اسرائیل کے وزیراعظم کوفلسطین کی قیمت پرخوش آمدیدنہیں کہاگیا۔ممکن ہے
اومان، اسرائیل اورفلسطین کے درمیان رابطہ کاری کاذریعہ بننے سے پہلے
فریقین بالخصوص اسرائیل کے سخت گیراورناقابل اعتمادحلقوں کوجانچناچاہتاہو۔
اومان اورعرب ریاستوں کواسرائیل سے تعلقات معمول پرلانے سے پہلے کچھ باتیں
ذہن نشین کر لینی چاہئیں ۔پہلی بات توعرب ریاستوں کویہ معلوم ہونی چاہئے کہ
نیتن یاہوان ممالک کی یاترکرکے کیاحاصل کرناچاہتے ہیں؟ اسرائیل عالمی
برادری میں اپنی سفارتی حیثیت تسلیم کرواناچاہتا ہےاور عرب ریاستوں کے دورے
اس حوالے سے نہائت سودمندثابت ہوسکتے ہیں۔1991ء کی میڈرڈ کانفرنس کے
بعداسرائیل نے اپنابین الاقوامی نیٹ ورک تیزی سے پھیلایاہے اورایشیاکے کئی
ممالک اسرائیل کوتسلیم کرچکے ہیں۔ حالیہ ان کوششوں کے ذریعے سے بہت سے
افریقی ملک بھی اسرائیل کوتسلیم کرلیں گے۔دوسری بات یہ ہے کہ نیتن
یاہومسٹررابن نہیں ہے۔اس نے مسقط میں بچھائے گئے سرخ قالین پرچلنے کے ٹھیک
ایک روزبعدغزہ پرحملہ کرکے اومان کے منہ پرزناٹے دارطمانچہ رسید
کیااور11نومبرکے حملے بعد اسرائیل مغربی پٹی میں بیس ہزارنئے گھر تعمیر
کرنے جارہاہے۔2018ء کے بعداسرائیلی فوج 200سے زائدفلسطینیوں کوشہیدکرچکی
ہے۔عرب ریاستوں کے اتحادکیلئے اشارے ہیں کہ اسرائیل کے وزیراعظم کے دورے
کوغلط نہ سمجھاجائے۔ عرب ریاستوں کویہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسرائیل
سے غیرمشروط تعلقات سےدائیں بازوکے سخت گیرحلقوں کے حوصلے مزیدبڑھیں گے۔
تیسری اوراہم بات یہ ہے کہ ایک مقبول رہنماء ہونے کی وجہ سے نیتن یاہوکواس
حقیقت کااچھی طرح ادراک ہے کہ سوشل میڈیااورعالمی ذرائع ابلاغ میں ان کی
امن کوششوں کو بہت زیادہ سراہا جارہاہے اوراس کے علاوہ عرب ریاستوں کویہ
بات بھی سمجھناچاہئے کہ خافشجی کے قتل کے بعد مغربی ممالک میں آنے والے ردّ
ِ عمل کوتھنڈاکرنے کیلئے وزارتی مشنز کے دوروں میں اسرائیل کوغیرمشروط
طورپرتسلیم کرنے کااقدام ممکن ہے کہ مغرب اورامریکاکوخوش کرنے کے کام آئے
مگرعرب ریاستیں یہ سوداعرب خطے کے گلی کوچوں میں کسی صورت نہیں بیچ سکیں گے۔
|