افغانستان میں امن کی بحالی اور بھارتی کردار

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

امن مذاکرات کے بعد امریکی فوج کے جزوی انخلاء کے اعلان کے باوجود افغانستان میں صورتحال کافی مخدوش ہے ۔ایک ہی دن میں طالبان کی جانب سے سیکورٹی چیک پوسٹوں پر حملوں میں بیس سے زائد ملیشیا اہلکاروں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں ۔اگرچہ سرکاری ترجمان کی جانب سے طالبان کے جانی نقصان کا بھی دعویٰ کیا ہے تاہم آذاد ذرائع نے اس بات کی تصدیق نہیں کی۔ رواں ماہ میں طالبان کی جانب سے یہ دوسری بڑی اور خوفناک کارروائی ہے ۔ نئے سال کے آغاز میں ہی طالبان نے شمالی صوبے میں سیکورٹی چیک پوسٹوں پر حملہ کر کے بیس پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسری بڑی خبر طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے سلسلہ میں ہے ۔ افغان طالبان نے امریکہ کی جانب سے مذاکرات کے چوتھے دور میں مقام کی تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے ۔ جوں جوں مذاکرات کامیابی کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں طالبان پر یہ دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ کابل حکومت کو بھی امن بات چیت میں شامل کریں تاہم اس کے باوجود طالبان اپنے اس موقف سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہے کہ کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن پر طالبان کا سب سے ذیادہ اعتماد ہے ۔نائن الیون سے پہلے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے پہلے تین ممالک میں پاکستان کے بعد دوسرا نمبر سعودی عرب کا تھا۔ ذرائع کا یہ کہنا ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والے امن مذاکرات کے چوتھے دور میں مقام کی تبدیلی کا مطالبہ اس لیے کیا جارہا ہے کیونکہ سعودی عرب کی جانب سے بھی کابل انتظامیہ سے براہ راست مذاکرات کے لیے طالبان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاہم طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات ابھی اس مقام تک نہیں پہنچے کہ سعودی عرب میں امن مذاکرات کے لیے بیٹھا جائے ۔امن مذاکرات میں پیش رفت کے باوجود امریکی صدر کو اس وقت بھارتی میڈیا میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اس تنقید کی وجہ امریکی صدر کا وہ بیان تھا جس میں انہوں نے بھارت کی جانب سے کابل میں لائبریری کے قیام کا مذاق اڑایا تھا ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں بھارتی وزیر اعظم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مسلسل انہیں کابل میں لائبریری کے قیام کا بتاتے رہے تاکہ ہم اس پر تحسین کریں اور ان کا شکریہ ادا کریں ۔ تاہم مجھے نہیں معلوم کہ جنگ زدہ افغانستان میں لائبریری کو استعمال کون کرتا ہوگا ۔ یہ بیان دراصل افغانستان میں بھارتی سرمایہ کاری اور اس کے پوشیدہ عزائم کو بے نقاب کر رہا تھا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان پر بھارتی میڈیا بری طرح تلملا رہا ہے ۔ بھارت افغانستان تعلقات شاہ ظاہر دور سے ہی کافی مستحکم رہے ہیں ۔ افغانستان میں سویت یونین افواج کے داخلے کے بعد افغانستان میں ایک بڑی جنگ کا آغاز ہو گیا جس کے دوران بھارت کا اثرورسوخ بھی ختم ہو گیا ۔ روسی افواج کے انخلاء کے بعد بھی بھارت اپنے تعلقات کو مستحکم نہ کر سکا ۔ طالبان دور میں کابل انتظامیہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات کشیدہ رہے اور طالبان کا مکمل جھکاؤ پاکستان کی طرف رہا ۔نائن الیون کے بعد شمالی اتحاد کی حکومت کے دوران بھارت کو دوبارہ سے اپنا اثرورسوخ جمانے کا موقع فراہم کیا گیا ۔ شمالی اتحادکا طالبان مخالف ہونے کی وجہ سے جھکاؤ دہلی کی طرف تھا جبکہ امریکہ بھی بھارت کو افغانستان میں اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا تھا ۔ بش، اوباما دور میں بھی بھارت کو جان بوجھ کر افغانستان میں سرمایہ کاری کا موقع فراہم کیا گیا ۔ واشنگٹن بھارت کے ذریعے جنوبی ایشیا میں اپنا ایک ایسا اتحادی تیار کر رہا تھا جو نہ صرف پاکستان کے لیے مسائل پیدا کرتا رہے بلکہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کو بھی کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ اس دوران بھارت نے افغانستان میں کرزئی حکومت کے ساتھ تعلقات مستحکم کر کے وہاں نہ صرف انفرا سٹرکچر سے لے کر دفاعی میدان میں اپنے وسائل کھپا دیے بلکہ پاکستان کے ساتھ موجود سرحدی علاقوں میں اپنے قونصل خانوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف ایک نئی پراکسی وار کا آغاز کر دیا ۔ امریکہ کی افغانستان میں جنگ کے اثرات پاکستان کے سرحدی علاقوں تک پہنچے تو بھارت نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور ان علاقوں میں علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کو مختلف وسائل کے ساتھ ساتھ عسکری تربیت بھی فراہم کرنا شروع کر دی ۔ بدقسمتی سے افغان خفیہ ایجنسی نے بھارت خفیہ ایجنسی را کو بھرپور معاونت فراہم کی ۔دونوں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے پاکستان میں بدامنی کی ایک ایسی لہر پیدا ہوئی جس نے ایک لاکھ سے زائد جانوں کو نگل لیا۔ سفارتی محاذ پر پاکستان نے بھارت کے خلاف ہر فورم پر آواز اٹھانے کی کوشش کی لیکن افغانستان کے نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ۔ بھارتی دہشت گرد اور جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایران کی سرحد بھی اس مقصد کے لیے استعمال کی جارہی ہے تاہم کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کو اپنا مقدمہ پیش کرنے میں سہولت حاصل رہی ۔ کابل میں بھارت کی موجودگی ہمیشہ پاکستان کے لیے سردرد بنی رہی خاص طور پر شمالی اتحاد کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد تو صورتحال میں کافی شدت پیدا ہو گئی تھی ۔بھارت کے منفی کردار کے باجود پاکستان نے کابل انتظامیہ کے پاکستان سے گلے شکوے دور کرنے اور تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں جاری رکھیں۔ سترہ سالوں کے دوران امریکہ جنگ کی سب سے بری قیمت پاکستان نے چکائی ہے جبکہ جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کے لیے پکی پکائی کھیر بھارت کو کھلانے کی کوشش جاری رکھی ۔یہی وجہ ہے کہ امریکی انخلاء کی جب بھی بات ہوتی تو بھارت سب سے ذیادہ واویلا کرتا ۔بھارت اب تک افغانستان میں دوبلین ڈالر سے ذیادہ سرمایہ کاری کر چکا ہے ۔ تاہم اس کے باوجود بھارت افغان جنگ میں کسی قسم کی شرکت سے گریز کرتا رہا ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبہ کے بعد امریکہ و بھارت اتحادنے ایک بار پھر شدت کے ساتھ اس منصوبے کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کو آپریشنل کرنے کے مرحلہ سے لے کر بلوچستان و سندھ میں دہشت گردی کے واقعات تک ہر طرح کے ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں۔بھارت اس بات کا اعادہ کئی دفعہ کر چکا ہے کہ پاک چائنہ اقتصادی راہداری کے منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا اور اس کو روکنے کے لیے افغانستان سے بہتر اور کوئی سرزمین نہیں ہے ۔

سترہ سال بعد امریکہ نے بالآخر تسلیم کر لیا ہے کہ افغانستان میں آکر اس نے غلطی کی اور روس سے اس نے سبق نہیں سیکھا ۔گزشتہ دنوں ڈونلڈ ٹرمپ نے روس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ روس اس جنگ سے پہلے سویت یونین تھا َ۔ افغان گ نے روس کو دیوالیہ کر دیا تو امریکہ چھ ہزار کلومیٹر دور کی جنگ لڑ کر دیوالیہ نہیں بن سکتا ۔ امریکہ کا یہ اعلان اور طالبان کو ایک حقیقی قوت تسلیم کرنا بھارت کے لیے پریشانی کا سبب بن رہا ہے ۔ امریکی انخلاء سے بھارت ایک دفعہ پھر جنوبی ایشیا میں ایک بڑے ملک کی حمایت سے محروم ہو کر تنہا ہو سکتا ہے ۔دوسری طرف امریکہ نے جہاں طالبان کو تسلیم کیا وہاں یہ بات بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو رہا ہے کہ بھارت کاافغانستان میں کردار اس حد تک موثر ثابت نہیں ہو سکاجس کی وہ توقع کرتا رہا ہے ۔ طالبان کا پھر سے برسراقتدار آنا اور امریکی فوجیوں کے انخلاء نے بھارتی سرمایہ کاری کے لیے خطے کی گھنٹی بجا دی ہے ۔یہ بات تو واضح ہے کہ افغانستان میں جس طرح طالبان کے بغیر امن کے قیام کو خواب شرمندہ تعبیر ہونا ناممکن ہے اسی طرح خطہ میں قیام امن کے لیے بھارت کو بھی اپنا رویہ تبدیل کرنا پڑے گا ۔بھارت کا منفی رویہ اور افغانستان میں سرمایہ کاری کی بنیاد پر مداخلت خطہ میں امن کی کوششوں کو ثبوتاز کر سکتی ہے ۔

Asif Khursheed
About the Author: Asif Khursheed Read More Articles by Asif Khursheed: 97 Articles with 74367 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.