امریکہ نے افغانستان میں موجودہ اپنی افواج کا پچاس فیصد
واپس بلانے کا فیصلہ اور اعلان کر لیا ہے اور بھارت کے ایوانوں میں کھلبلی
مچ گئی ہے۔ تشویش کی ایک لہر ہے جو اس کے الیکٹرانک ،پرنٹ اور سوشل میڈیا
پر نظر آرہی ہے۔ کہیں پریشانی ہے تو کہیں طفل تسلیاں بھی نظرآرہی ہیں جو
ایک دوسرے کو دی جا رہی ہیں۔ بظاہر اس فیصلے کا بھارت سے کوئی تعلق نظر
نہیں آرہا لیکن تعلق ہے اور یوں ہے کہ بھارت نے افغانستان میں جو بازو
پھیلائے تھے اسے امریکی موجودگی سے بہت سہارا تھا۔ بھارت اور افغانستان کی
نہ تو جغرافیائی سرحد ملتی ہے، نہ مذہبی اور نہ نظریاتی لیکن یہ ضرور ہے کہ
وہاں تقسیم برِّصغیرسے لے کر اب تک ایک نہ ایک گروہ ایسا موجود رہتا ہے جو
اس کے ساتھ گٹھ جوڑ کئے رکھتا ہے اور جب کبھی یہ گروہ یااس کا کوئی رکن
حکومت میں آجائے تو اس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں اور وہ علاقے کاچودھر ی
بننے کا اپنا خواب پوراکرنے میں لگ جاتا ہے اور اپنی راہ کی سب سے بڑی
رکاوٹ پاکستان کے خلاف اُسے پاؤں رکھنے کو زمین مل جاتی ہے ۔ اب کی بار بھی
ایسا ہی ہوا جب 2001 میں طالبان کی حکومت ختم ہوئی اور پھر بھارت ساختہ
حامد کرزئی وزیر اعظم بنا توگویا بھارت کی لاٹری نکل آئی اور اس نے
افغانستان میں مختلف منصوبے شروع کردیے اور جہاں اپنے ہزاروں بے روزگاروں
کو روزگار فراہم کیا وہاں افغانستان کی داخلی و خارجی معاملات میں مکمل طور
پر دخیل ہوگیا اس کا اثر و سوخ ہر جگہ نظر انے لگا۔ اس نے اپنے انجنیئرز
،ڈاکٹرز اور مختلف پیشہ وروں کو افغانستان میں مختلف منصوبوں پر لگایا۔ اس
نے تعلیم کے اہم ترین شعبے کو بھی اپنے شکنجے میں لے لیا، طلباء کو وظائف
کے ذریعے بھارت بھی بھیجاگیااور افغانستان کے اندر بھی اس نے اس شعبے پر
کام کیااور یوں وہاں کی نوجوان نسل کو اپنے قابو میں کیااور سکولز سے لیکر
یونیورسٹیاں تک بنائیں اور ظاہر ہے کہ یہ ادارے افغانوں کی محبت میں نہیں
بنائے گئے بلکہ اس سے اصل مقصد حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جس میں
اس نے افغان نوجوانوں کی ذہنیت تبدیل کرنے بلکہ بھارت نواز بنانے پربھر پور
کام کیا اور یہ سب کرنے کے لئے اُسے بھارتی تعلیم یافتہ حامد کرزئی جیسا
مُہرہ فوراً میّسر آبھی گیا اس طرح افغانستان میں اُس کے پاؤں جمتے گئے اور
پھر ایک ایسی فضا بنادی گئی جیسے بھارت ہی افغانستان کا سب سے بڑا خیرخواہ
ہو۔ افغانستان نہ بھارت کاپڑوسی ہے نہ ہم مذہب، ہاں یہاں صرف ایک طبقہ اس
کا ہمنوا وہم خیال ہے جو جب بھی حکومت میں ہو افغانستان اور پاکستان کے
تعلقات کو منصوبہ بندی کے تحت بگاڑ دیا جاتا ہے اور یہی بھارت کی افغانستان
میں موجودگی کا مقصد و منشاء ہو تا ہے لیکن وہ افغانیوں کو یہ بتاتا ہے کہ
وہ ان کا دوست ہے اگر ایساہوتا تو آج جب کہ امریکہ نے افغانستان سے اپنی
فوجیں نکالنے کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تو بھارت کو اس ملک کی مکمل
آزادی کی خوشی ہوتی مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ اس کو نظر آنے لگا ہے کہ اس کا
افغانستان میں قیام اب مشکل ہوگا کیونکہ افغانیوں کی بھاری اکثریت بھارت کی
نیت کو جانتے ہوئے اس کے خلاف ہے اور بھارت جانتا ہے کہ افغانستان سے
امریکی افواج کے جانے کے بعدطالبان کے حکومت میں آنے کے قوی امکانات ہیں
اور اس کے دفاعی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ بھارت کے لئے یہ
انتہائی حوصلہ شکن صورت حال ہوگی جبکہ دوسری طرف پاکستان کو اسکا فائدہ
ہوگا کیونکہ ایک تو وہ امریکہ کے اس اقدام کا حامی ہے اوراس میں اس کی مدد
کرے گااور دوسری طرف اس کے افغان طالبان کی حکومت سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔
انہیں یہ بھی خطرہ ہے کہ طالبان کے آنے سے نہ صرف خطے میں دیگر
تبدیلیاںآئیں گی بلکہ کشمیر کی تحریک آزادی کو بھی اس سے تقویت ملے گی جس
سے بھارت میں الگ ایک بے چینی پائی جا رہی ہے۔ اسکی بے چینی کی ایک وجہ یہ
بھی ہے کہ اس نے پاکستان میں جس دہشت گردی کا بازار گرم کئے رکھا ہے اس کے
لئے بھی اُسے پاؤں رکھنے کو جگہ نہیں ملے گی اور نہ ہی اسکے کارندوں کو
محفوظ پناہ گاہیں میسر آسکیں گی لہٰذا بھارت کی پریشانی بجا ہے۔ بھارت کے
تھنک ٹینک اپنی حکومت کو یہ تسلی بھی دے رہے ہیں کہ افغانستان میں کچھ بھی
مستقل نہیں بلکہ یہاں ہر تبدیلی نئے مواقع فراہم کرتی ہے اور امریکی فوجوں
کا انخلاء صرف ایک قسط کا اختتام ہے اور یہ کہ بھارت کچھ ہی عرصے میں
دوبارہ افغانستان میں سرمایہ کاری کر سکے گا اور اس کے سیاسی ، سفارتی،
معاشی اور سکیورٹی کے معاملات میں دوبارہ شامل ہو جائے گا لیکن سچ یہ ہے اس
شمولیت کے لئے وہ ضرور کسی نہ کسی سازش کا حصہ بنے گا تاکہ ایک بار پھر
اُسے اپنی تجارت کے لئے ایک کھلا میدان مل سکے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ
کیا بھارت بغیر کسی حفاظتی حصار کے افغانستان میں کام کر سکے گا اس نے
نظریہ ضرورت کے تحت افغان طالبان کے بارے میں بھی اپنے رویے میں تبدیلی
ظاہر کرنے کی کوشش بھی کی اگر چہ یہ تبدیلی یقیناًحقیقی نہیں تاہم بھارت یہ
تائثر دینے کی کوشش کر رہاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عام افغانی بھارت کے
رویے کو بھول جائے گا کہ بھارت اُس کے ملک کا مالک کیونکر بنا رہا کیوں ان
کے معاملات میں مداخلت کرتا رہا، ان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لئے کیوں
استعمال کیا جاتارہا۔ بھارت اپنے مقاصد کے لئے اس کے وسائل و ذرائع کو اپنے
کام میں لاتا رہااور دنیا کو یہ تاثر دیتا رہا کہ وہ افغانستان کی تعمیر
میں اس کی مدد کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ وہ خود کوافغانستان میں ایک
مقبول دوست ملک ظاہر کرتا رہا اور پاکستان کے خلاف نہ صرف دنیا میں
پروپیگنڈا کرتا رہا بلکہ افغانستان میں بھی اس کے خلاف زہر پھیلاتا رہا اور
یو ں دو برادر پڑوسی مسلمان ملکوں کے درمیان تعلقات خراب کیے جاتے رہے تاہم
اب جبکہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلارہا ہے تو بھارت کو اپنی
حیثیت کا احساس ہو رہا ہے اور اُسے نوشتہء دیوارنظر آرہا ہے کہ اب
افغانستان میں نہ صرف یہ کہ اس کی اہمیت نہیں رہے گی بلکہ اپنی حفاظت کی
ذمہ داری بھی خود لینا پڑے گی جس کا بندوبست اس کے لیے انتہائی مشکل ہو گا
اور یہی فکر ہے جو بھارت کے حکمرانوں اور عوام میں پائی جا رہی ہے ، سوشل
میڈیا پر تو اس کا اظہار کھلے عام کیا جا رہا ہے اور ایک بحث چھڑی ہوئی ہے
جس میں عام آدمی سے لے کر ریٹائرڈ جرنیل تک شامل ہیں بہر حال بھارت کو اب
تیل اور تیل کی دھار دونوں پر توجہ دینا ہو گی۔ |