گزشتہ روزآزاد کشمیر اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم راجہ
فاروق حیدر خان کی پیش کردہ ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور کی گئی جس میں
حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ گلگت بلتستان کو اپنے نمائندے منتخب
کرنے،با اختیار مقننہ و حکومت اور عدالتی نظام دیا جائے۔قرار داد میںگلگت
بلتستان کے لئے آزاد کشمیر کی طرز پر ایک حکومتی،انتظامی،پارلیمانی اور
عدالتی سیٹ اپ قائم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔گلگت بلتستان کے عوام کوکی
حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔آزاد کشمیر کی تمام پارلیمانی
سیاسی جماعتوںبشمول حکمران مسلم لیگ(ن)،پیپلز پارٹی، مسلم کانفرنس،تحریک
انصاف،جماعت اسلامی نے وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کے ساتھ گلگت
بلتستان کے معاملے پر ایک موقف اختیار کرنے سے اتفاق کیا جس کا اظہار آزاد
کشمیر اسمبلی کی اس قرار داد میں متفقہ طور پر حکومت پاکستان سے ایک مطالبے
کی صورت کیا گیا۔
کشمیر کی تقریبا 14ماہ کی جنگ کے دوران آزاد کشمیر میں تمام ریاست کی
نمائندہ حکومت قائم رہی تاہم کشمیر میں سلامتی کونسل کی معاونت سے انڈیا
اور پاکستان کشمیر میں رائے شماری کے وعدے کے ساتھ جنگ بندی پر رضامند
ہوئے۔جنگ بندی کے سمجھوتے پر دستخط سے پہلے ہی حکومت پاکستان اور آزاد
حکومت ریاست جموں و کشمیر کے درمیان معاہدہ کراچی کے ذریعے آزاد حکومت کا
تحریک آزادی کشمیر کی نمائندہ حکومت کا کردار ختم کر تے ہوئے اسے محض لوکل
انتظامیہ میں تبدیل کر دیا گیا۔آزاد کشمیر حکومت سے گلگت بلتستان کا اختیار
حکومت پاکستان کو منتقل کیا گیا اور آزاد کشمیر کی واحد سیاسی جماعت مسلم
کانفرنس کاتحریک آزادی کشمیر کے حوالے سیاسی کردار تسلیم کیا گیا۔یہ بات
دلچسپ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ سے آزاد کشمیر میں چیف سیکرٹری کی تعیناتی کے
وفاقی حکومت کے نوٹیفیکیشن میں معاہدہ کراچی کا تذکرہ بھی شامل کیا جا رہا
ہے۔آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ یہ معاہدہ حکومت پاکستان کی طرف سے وزارت امور
کشمیر نے کیا ۔آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد
ابراہیم خان اور اس وقت آزاد کشمیر و پاکستان میں سب سے قد آور سیاسی رہنما
چودھری غلام عباس نے مسلم کانفرنس کی طرف سے اس معاہدے پر دستخط کئے۔چودھری
غلام عباس نے معاہدے پر اپنے دستخط کے ساتھ یہ لکھتے ہوئے کہ '' میرا اتفاق
صرف مسلم کانفرنس کے امور کے حوالے سے ہے''، اس معاہدے اور آزاد کشمیر
حکومت سے متعلق اپنی ناراضگی کا اظہار ریکارڈ کرایا۔اس کے بعد آزاد کشمیر
میں حکومت کے تمام امور وزارت امور کشمیر کی صوابدید بن کر رہ گئے۔مسلم
کانفرنس کے رہنمائوں کو ایک دوسرے کے خلاف لڑایا گیا ،آزاد کشمیر میں سیاسی
دھڑے بندیوں کو فروغ دیا اور انہیں مقامی امور و مفادات میں الجھاتے ہوئے
مقامی سطح تک محدود کر دیا گیا۔
حکومت پاکستان کی طرف سے عطا کردہ1974ء کے آئین میں آزاد کشمیر اسمبلی اور
پارلیمنٹ کے ساتھ وفاقی سطح پر آزاد جموں و کشمیر کونسل تشکیل دی گئی اور
اس کی یہی روایت رہی کہ وفاقی وزارت امور کشمیر کے وزیر اور سیکرٹری ہی
کشمیر کونسل کے بھی نگران رہے۔اس کونسل کے ذریعے آزاد کشمیر اسمبلی اور
حکومت کا کردار محدود سے محدود اور مالیاتی و انتظامی امور سے متعلق بھی
کونسل کی مرضی کے تابع ہو کر رہ گیا جس سے کونسل کے کردار سے متعلق خرابیوں
اور شکایات سنگین نوعیت اختیار کرتی گئیں۔پاکستان کی سابق حکومت کے دور میں
وفاق کی منظوری سے آزاد کشمیر اسمبلی اور حکومت نے1974ء کے آئین کی13ویں
ترمیم کی جس سے کشمیر کونسل کا وجود تحلیل کرتے ہوئے اس کے اختیارات آزاد
کشمیر اسمبلی اور حکومت کو منتقل کر دیئے گئے۔13ویں ترمیم کو روکنے کی بھر
پور کوششوںمیں ناکامی کے بعد بھی سازشوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔آزاد کشمیر
کے ہی چند حلقوں کو استعمال کرتے ہوئے 13ویں ترمیم میں نقائص کے ''
اندیشے'' ظاہر کرنے کی مہم چلائی گئی۔یہ ایک دلچسپ مصدقہ اطلاع ہے کہ 13ویں
ترمیم کے بعد کونسل کے خاتمے کے بعد کونسل کے امور آزاد کشمیر حکومت کو
منتقل کرنے کے حوالے سے چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کے دفتر میں ہونے والی ایک
اہم میٹنگ کی کاروائی وزارت امور کشمیر کے ایک اعلی افسر خفیہ طور پر ٹیلی
فون کے ذریعے اسلام آباد میں بیٹھ کر سنتے اور سنواتے رہے۔
پاکستان میں قائم نئی ''پی ٹی آئی '' حکومت کے وزیر امور کشمیر و گلگت
بلتستان نے گزشتہ دنوں چند ایسے بیانات دیئے جس سے ان کی کشمیر ،آزاد کشمیر
کے امور سے لاعلمی ظاہر ہوتی ہے۔اس متعلق بعض حلقوں کی طر ف سے یہ بھی کہا
جا رہا ہے کہ وفاقی وزیر امور کشمیر کو آزاد کشمیر کے چند سیاسی عناصر غلط
اطلاعات فراہم کر رہے ہیں اور اسی بنیاد پر وزیر امور کشمیر ایسے بیانات
جاری کر دیتے ہیں جس پر بعد میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔پاکستان میں
حکومت بنوانے کے حالیہ تجرنے کو دیکھتے ہوئے آزاد کشمیر میں بھی بعض سیاسی
عناصر از خود یہ توقعات وابستہ کر بیٹھے ہیں کہ انہیں بھی اسی طرح آزاد
کشمیر کی حکومت میں لایا جائے گاجس طرح پاکستان میں کیا گیا ہے۔آزاد کشمیر
معاہدہ کراچی اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان پر وزارت امور کشمیر کی حاکمیت
کا شاکی چلا آیا ہے۔تاہم اس کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ وزارت امور
کشمیر کو آزاد کشمیر سے ہی ایسے '' وفادار'' ہمیشہ میسر رہے ہیں کہ جو
حکومت میں لائے جانے کے لئے آزاد کشمیر کے خطے کی خصوصی حیثیت ،مقامی امور
و مسائل اور تحریک آزادی کشمیر کے مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے کسی بھی قسم
کا کردار ادا کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔
اگر پاکستان کی وفاقی حکومت کے رولز اینڈ ریگولیشنز دیکھے جائیں تو اس کے
مطابق کشمیر سے متعلق جو امور وزارت خارجہ کے دائرہ کار میں نہیں آتے،وہ
تمام امور وزارت امور کشمیر کے موضوعات میں شامل ہیں۔ یعنی وزارت امور
کشمیر کی ذمہ داریوں میں کشمیر کاز کو کلیدی حیثیت حاصل ہے لیکن عملی طور
پر وزارت امور کشمیر آزاد کشمیر کی سیاست اور حکومت پر اثر انداز ہوتے ہونے
کی ایک طویل تاریخ کی حامل ہے۔آزاد کشمیر کی سیاست اور حکومت پر اثر انداز
ہونے کے لئے آزاد کشمیر سے '' چیلے'' تو ہمیشہ ہی میسر رہے ہیں تاہم اب''
کسی کی بندوق '' کے لئے کندھے فراہم کرنے والے سیاسی عناصر کے لئے اس طرح
کا کردارادا کرنا اور عوام کی طرف سے ایسے طرز عمل کو قبول کرنا مشکل ہوگا۔ |