گُزشتہ سے پیوستہ
عمران کی بات سُن کر اَمّاں کے چہرے پر تفکرات در آئے۔
ویسے بیٹا وہ کُچھ غلط بھی نہیں کہہ رَہا تھا تُم سے مجھے بھی کُچھ ایسا ہی
مِحسوس ہُورہا ہے جیسے تُم نے پرفیوم کی شیشی خُود پر اُنڈیل رکھی ہُو۔ تُم
آج اپنے پیر صاحب کے پاس چلے جانا کتنے دَن ہوئے میاں صاحب بتا رہے تھے کہ
آجکل تُم نے وہاں جانا بالکل چُھوڑا ہُوا ہے۔
بیٹا یہ خُوشبوؤں کا آنا ایسے ہی نہیں ہُوتا۔ کہتے ہیں کہ ایسی بے وجہ
خُوشبو کسی دوسری مخلوق کا بھی پتہ دیتی ہیں پھر اَماں نے عِمران کا بازو
پکڑ کر اُس پر دَم کرنا شروع کردیا۔
عِمران اَماں کے سامنے کھڑا یہاں وہاں دیکھ رَہا تھا کہ اُسے کُچھ بے چینی
مِحسوس ہونے لگی ۔ اُسے یُوں مِحسوس ہُوا کہ جیسے کوئی چُھپ کر اُسے دیکھ
رَہا ہُو عمران کی نِگاہ جیسے ہی اپنے کمرے کی جانب لپکی اُسے مِحسوس ہُوا
کہ جیسے کوئی ایکدم کھڑکی کی اُوٹ میں ہُوا ہو۔
------------
اب آگے پڑھیے
عِمران نے جونہی کِسی سائے کو کھڑکی کی اُوٹ میں ہُوتے دیکھا۔ اُس کی چھٹی
حِس نے اُسے کسی انجانے خطرہ کا اِحساس دِلایا کہ اس وقت گھر کا کوئی فرد
کمرے میں نہیں ہُوسکتا تھا۔ اور ویسے بھی تمام فیملی کے ممبر بِلا اِجازت
کسی دوسرے کے کمرے میں نہیں جاتے تھے اس لئے عمران فوراً اپنے کمرے کی جانب
لپکا۔
عمران کی بدحواسی دیکھ کر اَمی نے آواز لگائی کیا ہُوا عِمران خیریت تو ہے؟
جی اَمی خیریت ہے مگر شائد میرے کمرے میں ٹی وی آن رہ گیا تھا اُسی کو آف
کرنے جارہا ہوں عمران نے بات بناتے ہوئے اپنی رفتار مزید بڑھا دِی۔
عمران سیڑھیاں چڑھتے ہوئے جونہی اپنے کمرے کے سامنے پُہنچا تو کوریڈور میں
کوئی نہیں تھا اور عمران کے کمرے کا دروازہ بھی بظاہر بند ہی نظر آرہا تھا
عِمران نے مُحتاط انداز سے ہینڈل کو گُھمایا اور دروازہ کھول دِیا لیکن یہ
کیا کمرے میں تُو کوئی بھی نہیں تھا عمران نے بیڈ کے نیچے جھانکنے کا فیصلہ
ہی کیا تھا کہ اچانک ایک سفید رنگ کی بِلِّی بیڈ کے نیچے سے برآمد ہوئی وہ
بِلِّی نہ ہی عمران کو دیکھ کر جھجکی اور نہ ہی اُس نے وہاں سے بھاگنے کی
کوشش کی بلکہ ایک ادا سے چلتے ہوئے دروازے کے قریب جاکر کھڑی ہُوگئی بِلِّی
کے تمام بال نہایت سفید اور ریشم کی طرح چمکدار تھے جبکہ اُس کی سبز آنکھیں
اُسے مزید حَسین بنارہی تھیں۔
عمران نے آگے بڑھ کر نیٹ ڈور بھی کھول دِیا ۔ بِلِّی نہایت اطمینان سے
دروازے سے باہر نِکل کر دروازے کے سامنے بیٹھ گئی عِمران کو یہ بِلِّی بُہت
پُراسرار لگ رہی تھی کیونکہ نہ ہی وہ عمران کو دیکھ کر گھبرائی اور نہ ہی
اُس نے بند کمرے میں کوئی بھاگ دوڑ مچائی اور سب سے عجیب بات یہ تھی عمران
نے آج سے پہلے نہ ہی اُسے اپنے گھر میں دِیکھا تھا بلکہ وہ کبھی مُحلہ میں
بھی نظر نہیں آئی تھی۔
وہ بِلِّی ایک خاص انداز سے چلتی ہوئی ایکدم چھلانگ لگا کر دیوار کی مُنڈیر
پر جا بیٹھی عِمران بھی بڑے انہماک سے اُسے دیکھے جارہا تھا تبھی عِمران کو
بِلِّی کی گردن میں بندھی وہ گلابی ڈور نظر آئی جس میں ایک موتی جھلملا
رَہا تھا عِمران کو محسوس ہُوا جیسے یہ ڈوری اور اسمیں موجود جھلملاتے
مُوتی کو عمران پہلے بھی کہیں دِیکھ چُکا ہے ۔
عمران نے ذہن پر زور دیتے ہُوئے یہ یاد کرنے کی بُہت کوشش کی کہ آخر یہ
ڈوری اور اسمیں موجود مُوتی کو عمران نے کب اور کہاں دیکھا ہے لیکن عمران
کی یہ کوشش بے سود ہی رہی کافی کوشش کے بعد بھی عمران کو یاد نہیں آیا۔
تبھی بڑے بھائی کی آواز نے عمران کی سوچوں کے تسلسل کو توڑ ڈالا۔۔ کیا دیکھ
رہے ہُو عمران دیوار پر ؟
بڑے بھائی کی آواز سُن کر عمران نے گردن گُھما کر بڑے بھائی کو دیکھتے
ہُوئے کہا۔۔ بھائی دیکھیں تُو کتنی خُوبصورت بِلِّی ہمارے گھر آئی ہے۔
کہاں ہے وہ بِلِّی جسے اتنے انہماک سے دیکھ رہے تھے ؟ ذرا ہم بھی تُو
دیکھیں کس نے اپنے حُسن کے جال میں ہمارے بھائی کو گرفتار کئے رکھا ہے ۔
بڑے بھائی نے شوخ لہجے میں کہا۔
عِمران نے دیوار کی جانب اِشارہ کیا۔۔۔۔ لیکن یہ کیا ۔۔ وہ بِلِّی اب وہاں
نہیں تھی۔ عمران نے بُہتیرا یہاں وہاں نِگاہ دوڑائی لیکن وہ بِلِّی کسی
چھلاوے کی طرح غائب ہُوچُکی تھی۔
اچھا چَلو مان لیتے ہیں کہ آپ کسی بِلّی ہی کو دیکھ رَہے ہونگے جِسے شائد
ہماری آمد پسند نہیں آئی ہُوگی اور وہ واپس چلی گئی ہُوگی بڑے بھائی نے
اپنے لہجے میں شرارت سموتے ہُوئے کہا۔
بھائی میں مذاق نہیں کررہا آپ سے۔ میرے کمرے میں واقعی ایک بِلّی گھس آئی
تھی انتہائی سفید اور لچکدار بالوں والی ایک بِلّی جس کے گلے میں ایک
خُوبصورت موتی بھی گُلابی ڈوری میں موجود تھا۔
ٹھیک ہے بھائی ہمیں کب انکار ہے لیکن ابھی چل کر میرے ساتھ ناشتہ کر لو
کافی دِن سے ہم نے ایک ساتھ کُچھ کھایا پیا بھی نہیں ہے اسی بہانے تُم سے
کچھ ضروری باتیں بھی ُہوجائیں گی۔
عمران آفس جاتے ہُوئے سُوچ رہا تھا کہ آج وہ آفس سے واپسی پر ضرور اپنے
مُرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوگا کیونکہ ایک تُو اَمّاں کی بھی تاکید تھی
دوسرے وہ کوثر سے نِکاح کی اجازت بھی اپنے مُرشد سے حاصل کرنا چاہتا تھا۔
جونہی شام ہُوئی عمران اپنے مُرشد سے مُلاقات کیلئے آفس سے نِکل گیا جب
عِمران اپنے مُرشد کے آستانے پُہنچا تو وہاں آستانے سے مُلحقہ مسجد میں
عمران کے مُرشد نماز عصر کی اِمامت فرما رہے تھے عمران بھی جماعت میں شریک
ہُوگیا نماز کے بعد جب سب لوگ مُرشد کریم سے مُصافحہ کی سعادت حاصل کر رہے
تھے عمران نے بھی آگے بڑھ کر دست بُوسی کی سعادت حاصل کی عمران پر نِگاہ
پڑتے ہی مُرشدِ کریم کے چہرے پر مُسکراہٹ آگئی اُنہوں نے عمران کے سر پہ
ہاتھ پھیرتے ہُوئے خُوب دُعائیں دی اور اپنے نزدیک بڑی مُحبت سے بِٹھا لیا۔
کہاں ہیں عمران میاں آپ آجکل ؟ کافی دِن سے آستانے نہیں آئے؟ کم از کم ہفتہ
وار محفل میں تو شرکت کر لیا کریں یہ روحانی ترقی کیلئے بُہت اہم ہوتا ہے۔
جی سرکار آپ ہی کے قدموں میں ہُوں بس چند دِنوں سے کچھ کاروباری مصروفیت
اسقدر زیادہ رہیں کہ حاضری کی سعادت حاصل نہیں کر پایا ۔ عمران نے اپنے
مُرشد کو سبب بتاتے ہُوئے عرض کیا۔
آج کیسے آنا ہُوگیا آپ کا اِس وقت؟ کوئی خاص وجہ تو نہیں ہے اگر کوئی مسئلہ
ہے تو ابھی بیان کردیں کیونکہ ہمیں مغرب کی نماز کے بعد کہیں جانا ہے۔ اور
آپکی والدہ کی طبیعت کیسی ہے؟ مُرشد کریم نے عمران کی جانب مُحبت سے دیکھتے
ہُوئے اِرشاد فرمایا۔
سرکار اَمّی بالکل ٹھیک ہیں اور آپ کے لئے سلام کہا تھا میں بتانا بھول گیا
تھا۔۔ اور آج اَمّی کی خاص تاکید کی وجہ ہی سے یہاں حاضری کی سعادت نصیب
ہوئی ہے عمران سُوچ رہا تھا کہ اپنے مُرشد سے اُس خاص خُوشبو کا ذِکر کروں
یا نہیں جو عمران کے علاوہ ہر ایک کو عمران کے بدن سے آرہی تھی۔
کِن خیالوں میں ڈوبے ہو عمران میاں کیا اَمّی نے کوئی پیغام بھیجا ہے ؟
مُرشدِ کریم نے عِمران کی جانب پیار بھری نظروں سے دِیکھتے ہوئے کہا۔
سرکار کوئی خاص بات نہیں ہے بس اَمّی کا خیال ہے کہ میرے بدن سے کوئی خاص
قسم کی خُوشبو آرہی ہے حالانکہ مُجھے اپنے وجود میں ایسی کوئی خاص تبدیلی
محسوس نہیں ہورہی عمران نے بلآخر دِل کی بات مُرشد کریم سے کہہ ڈالی۔
مُرشد کریم نے چند لمحوں کیلئے اپنی گردن کو جُھکالیا شائد وہ مراقبہ
فرمارہے تھے پھر آنکھ کھولتے ہوئے اُنکے مُنہ سے نِکلا ،، اَچھا تُو یہ بات
ہے ،، اُسکے بعد اُنکے چہرے سے مُسکراہٹ یکسر غائب ہُوگئی کُچھ لمحے خاموش
رِہنے کے بعد مُرشدِ کریم فرمانے لگے اِس کے عِلاوہ بھی کُچھ معلوم کرنا
چاہتے ہو؟
جی سرکار ایک بات اور معلوم کرنا چاہتا ہوں اگر اجازت ہو تُو عرض کروں
۔عِمران نے لہجے کو حتیٰ الامکان عاجزانہ بناتے ہوئے کہا۔
دِیکھو عمران ہمیں معلوم ہے کہ تُم یہاں بُہت اہم مُعاملے کے سلسلے میں
ہماری رائے معلوم کرنا چاہتے ہُو لِٰہذا بہتر یہی ہوگا کہ یہاں وَہاں کی
باتوں میں وقت برباد کرنے کے بجائے اصل موضوع پر بات کرو تاکہ وقت کے ضیاع
سے بچا جائے اور ہم یہ وقت فضول گفتگو کے بجائے کام کی باتوں پر صَرف
کرسکیں۔
جی سرکار میں اصل موضوع کی طرف آتا ہُوں میں دراصل آپ سے چند سوال کرنا
چاہتا ُہوں۔
سرکار کیا انسانوں کی شادیاں پریوں سے ممکن ہیں؟
اگر مجھے کوئی پری شادی کی پیشکش کرے جس سے مجھے قلبی مُحبت بھی ہُو تو
آپکی رائے میں کیا مُجھے اُس سے نکاح کرلینا چاہیئے۔
اور شریعت مطہرہ اس معاملے میں کیا کہتی ہے؟
مُرشد کریم چند لمحے خاموش رہے تاکہ عمران کے ذہن میں اگر کوئی اور سوال
بھی ہُو تو معلوم کر لے لیکن جب کافی دِیر تک عِمران کی جانب سے کوئی اور
سُوال نہیں آیا تُو مُرشد کریم نے عمران کو حُکم دِیا کہ سامنے سے بَخُور
دان اُٹھا لائے۔
عمران نے بَخور دان جس میں دہکِتے انگاروں پر لُوبان سلگ رہی تھی مُرشد
کریم کی بارگاہ میں پیش کردِیا۔
مُرشد کریم نے ایک چِمٹی کی مدد سے ایک دِہکتا انگارہ بَخور دان سے نکالا
پھر پھونک مار کر اُس پر پڑی راکھ کو ہَٹایا تُو وہ انگارہ چمکنے لگا مُرشد
کریم نے انگارہ عِمران کی جانب بڑھاتے ہُوتے عِمران کو حُکم دِیا کہ وہ اِس
انگارے کو اپنے مُنہ میں رکھ لے۔
عِمران نے جونہی مُرشد کریم کا یہ انوکھا مُطالبہ سُنا اُسکا مُنہ حیرت سے
کُھل گیا۔
(جاری ہے)
احمد بشیر اور افلاطون۔ (تذکرہ اِک پری) کے اختتام کے فوراً بعد پیش کردی
جائے گی۔ |