افغان طالبان سے امریکا کے مذاکرات

افغانستان کے حوالے سے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہا ہے کہ امریکی سینیٹرنے وزیراعظم عمران خان سے اس بات پراتفاق کیا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کاکوئی فوجی حل نہیں۔آج دنیاعمران خان کی افغانستان کے سیاسی حل کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے تسلیم کررہی ہے کہ وہ درست کہتے تھے۔ان کاکہناتھا کہ دنیاامن ومصالحت پاکستانی کوششوں کوسراہتے ہوئے سمجھتی ہے کہ اس عمل میں پاکستان کااہم کردارہوگا۔ہم نے امریکی سینیٹرپرواضح کیا کہ ہم افغانستان میں اپنا کرداراداکررہے ہیں اورکریں گے لیکن یہ مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کے ساتھ خطے کے دیگرممالک کوبھی اپنا کردا ر ادا کرناہوگا۔وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم خواہ کتنی ہی نیک نیتی کامظاہرہ کریں لیکن مسئلے کے حل کے لیے افغان لوگوں کوخودمل بیٹھناہوگا۔افغان لوگ ماضی کی رنجشیں بھلا کراپنے ملک کے مستقبل کے لیے جب تک نہیں سوچیں گے پاکستان تنہاکچھ نہیں کرسکتا۔یہ آسان کام تھانہ ہے ۔لیکن ہم نے کوشش کی ۔پاکستان نیک نیتی سے آگے بڑھ رہا ہے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی کاکہناتھا کہ کل ہماری نیت پرشک کیاجارہا تھا اورآج ہماری کوششوں کوسراہاجارہا ہے۔افغان طالبان کے شریک بانی ملاعبدالغنی برادرکوقطرمیں قائم طالبان کے سیاسی مرکزکے سربراہ کے طورپرنامزدکردیاگیا ہے۔بین الاقوامی نشریاتی ادارے کے مطابق اب وہ افغانستان میں سترہ سال سے جاری خون ریزجنگ کے خاتمے کے لیے امریکاکے ساتھ ہونے والے مذاکرات کونتیجہ خیز بنانے کے لیے اہم کرداراداکریں۔ افغانستان میں طالبان کے ذرائع کاکہناتھا کہ ملاعبدالغنی برادرکوگزشتہ برس اکتوبرمیں پاکستان کی جیل سے رہاکیاگیاتھا اوراب انہیں افغان طالبان کی سیاسی ٹیم کی قیادت کرنے اور فیصلہ سازی کے اختیارات دے دئے گئے ہیں ۔اس سلسلے میں طالبان کی جانب سے ایک بیان بھی جاری کیاگیاجس میں ملاعبدالغنی برادرکی تعیناتی اورامریکاکے ساتھ جاری مذاکرات کی رفتارتیزکرنے کے لیے سینئرراہنماکواہم ذمہ داری سونپنے اورمذاکراتی ٹیم میں ردوبدل کااعلان کیاگیا ۔طالبان کی جانس سے جاری کردہ بیان میں کہاگیا کہ یہ اقدام امریکاکے ساتھ جاری مذاکرات کومضبوط کرنے اوراس عمل کی بہترطورپرانجام دہی کے لیے اٹھایاگیا۔ایک سینئرطالبان راہنما کا کہناہے کہ چونکہ امریکاچاہتاہے کہ مذاکرات میں طالبان کی سینئرقیادت شریک ہوچنانچہ ملاعبدالغنی برادرکونیامنصب سونپاگیا۔قطرکے دارلحکومت دوحامیں افغان طالبان اورامریکی وفدکے درمیان پانچویں روزبھی مذاکرات کاسلسلہ جاری رہا۔امریکاکی جانب سے مکمل انخلاکاعندیہ تودیاگیا ہے تاہم پانچ افغانی ہوائی اڈوں میں محدودموجودگی کے حوالے سے طالبان کوقائل کیاجارہاہے۔جب کہ امریکاطالبان سے فوری جنگ بندی کے لیے زوردے رہا ہے۔توقع کی جارہی ہے کہ اگرمذاکراتی عمل جاری رہاتوفریقین کسی بھی قابل قبول حل تک پہنچ جائیں گے۔طالبان کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کی قیادت میں اچانک تبدیلی نے امریکی وفدکوبھی حیران کردیا۔طالبان کادعویٰ ہے کہ مذاکراتی عمل متاثرنہیں ہوگاجب کہ امریکی وفدطالبان کی اچانک پیش رفت پرمحتاط ہوگئے ہیں۔باوثوق ذرائع نے پاکستان کے قومی اخبارکوبتایا کہ افغان طالبان اورامریکی وفدافغانستان میں جنگ کے خاتمے کے لیے سرجوڑکربیٹھے ہیں۔پہلی مرتبہ طالبان اور امریکا کے درمیان معاملات کوحل کرنے کے لیے مذاکرات کے اتنے طویل ادوارہوئے ہیں۔ذرائع کاکہناتھا کہ فریقین افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے طویل مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم اس وقت تک وہ کسی بھی نتیجے پرنہیں پہنچے تھے۔برطانوی ٹی وی کے مطابق دوحا سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایک ایسے معاہدے پرکام کیاجارہا ہے جس کے تحت سترہ سال سے افغانستان میں تعینات امریکی فوج آخرکارگھرلوٹ جائے۔اس کے بدلے میں امریکی چاہتے ہیں کہ آئندہ افغان سرزمین کوکسی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کیاجائے۔مذاکرات کے دوران طالبان نے افغان سرزمین امریکایاکسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرادی۔افغانستان کے خبررساں ادارے طلوع نیوزکے مطابق مذاکرات کے چھٹے روزامریکی حکام نے افغانستان سے اپنی افواج کے انخلاپرآمادگی ظاہرکرتے ہوئے طالبان کوجنگ بندی کاکہا ہے امریکاکی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیاگیا ہے کہ طالبان، داعش اورالقاعدہ کوخطے میں آپریٹ نہیں کرنے دیں گے۔جس پرافغان طالبان نے رضامندی ظاہرکرتے ہوئے امریکی انخلاء کاٹائم فریم طلب کرلیاہے۔طالبان ذرائع نے رائٹرکوبتایا کہ طالبان مذاکرات کاروں اورامریکی حکام نے قطرمیں ہونے والی ملاقات میں مشترکہ سمجھوتے کی شقوں کوحتمی شکل دی ہے تاکہ افغانستان میں سترہ سال سے جاری جنگ بندہوسکے۔ذرائع کے مطابق دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کوسہولتیں دی ہیں۔سمجھوتے پردستخط کے بعدسے اٹھارہ ماہ میں غیرملکی فوجوں کاانخلاء ہوگا۔ذرائع اورایک سفارت کارنے بتایا کہ امریکی خصوصی نمائندے زلمے خلیل زادچھ روزہ مذاکرات کے بعدکابل جاکرصدراشرف غنی کوتفصیلات سے آگاہ کریں گے۔یہ واضح نہیں کہ مشترکہ اعلامیہ جاری کیاجائے گایانہیں ،کیاامریکانے ان نکات کومکمل طورپرقبول کیاہے یانہیں۔کیوں کہ کابل میں امریکی سفارت خانے نے تا حال اس صورت حال پرکوئی تبصرہ نہیں کیا۔طالبان ذرائع کے مطابق شدت پسنداسلامی گروپ نے امریکاکویقین دلایاہے کہ القاعدہ اورداعش کوامریکایااتحادیوں پرحملے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔یہ امریکاکااہم ترین مطالبہ تھا۔طالبان کاکہناتھا کہ افغان نمائندوں سے اس وقت ہی بات ہوگی جب جنگ بندی پرعمل کیاجائے گا۔طالبان ذرائع کے مطابق دیگرشقوں میں قیدیوں کے تبادلے امریکاکی طرف سے مختلف طالبان راہنماؤں کے بیرون ملک سفرپرپابندیاں ختم کرنے اورجنگ بندی کے بعدایک عبوری افغان حکومت سے متعلق شامل ہیں۔افغان میڈیاکے مطابق امریکاکے جنگ بندی کے مطالبے پرافغان طالبان نے موقف اختیارکیا ہے کہ پہلے امریکااپنے انخلاء کاٹائم فریم دے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقینی بنائے کہ امریکاخطے کے دیگرممالک بالخصوص پاکستان کے لیے خطرات پیدانہیں کرے گااس کے بعدہی جنگ بندی ممکن ہوگی۔ دوسری جانب مذاکرات میں امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زادنے افغان طالبان پرافغان صدراشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات پرزوردیتے ہوئے کہا کہ مذاکرات اصلاحات کے لیے ہوں افغانستان پرطالبان کے کنٹرول کے لیے نہ ہوں غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق طالبان کاوفدجنگ بندی کے بعدکابل آئے گا اورافغان حکومت سے علیحدہ مذاکرات کیے جائیں گے۔ذرائع کاکہنا ہے کہ قطرمیں مذاکرات میں میزبان ملک کے علاوہ پاکستان کے نمائندے بھی شامل رہے۔ذرائع کے مطابق یہ ممکن ہے کہ طالبان سے طے پانے والے حتمی معاہدے کااعلان صدرٹرمپ اپنے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کریں ۔غیرملکی میڈیاسے گفتگومیں ترجمان پاک فوج میجرجنرل آصف غفورکاکہناتھا کہ پاکستان نے افغان طالبان اورامریکی حکام کے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے سہولت کارکاکام کیا۔ہم نے طالبان کومذاکرات کی میزپرلاکراپناہدف پالیا۔ طالبان کی سیاسی دھارے میں شمولیت سے جنگجوؤں سے نمٹنے کے لیے بہترپوزیشن میں ہوگا۔ امریکا جنگ کے خاتمے میں پاکستان کاکردارتسلیم کرکے جائے گا۔ترجمان پاک فوج کاکہناتھا کہ افغان طالبان دوحامیں حالیہ امریکی قیادت میں مذاکرات سے پاکستان کونہیں نکال رہے اس عمل میں طالبان کے متعددگروپس اوراسٹیک ہولڈرزہیں اس لیے رابطے میں وقت لگتا ہے اورپاکستان کے لیے وقت اورجگہ کے لیے کوئی ترجیح نہیں تھی۔ڈی جی آئی ایس پی آرکاکہناتھا کہ ملاقاتوں سے ہونے والی پیش رفت سے تمام چیزوں کاتعین ہوگا۔ امریکی فورسزجب جائیں توافغانستان میں کشمکش نہیں ہونی چاہیے ۔امریکاکوافغانستان سے بحیثیت دوست افغانستان کی مددکے وعدے کے ساتھ جاناچاہیے۔افغان حکومت کے پاس اس وقت دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنے کی صلاحیت نہیں۔ان کامزیدکہناتھا کہ پاکستان ہمیشہ اہم رہاہے اوررہے گاہرخودمختارملک کی طرح پاکستان قومی مفادکے تحت فیصلے کرتاہے۔افغان صدارتی محل سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ زلمے خلیل زادنے افغان قیادت کوطالبان اورامریکاکے درمیان حالیہ مذاکرات کی تفصیلات بتائیں اورکہا کہ طالبان امریکامذاکرات میں افغانستان میں سیاسی تبدیلی پربات نہیں کی گئی افغان صدارتی محل سے جاری بیان میں مزیددعویٰ کیاگیا کہ زلمے خلیل زادکاکہناتھا کہ مذاکرات میں افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام سے متعلق بھی کوئی بات نہیں کی گئی۔ جب کہ طالبان سے جنگ بندی سے متعلق مذاکرات کیے جس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔زلمے خلیل زادنے کہا کہ مذاکرات میں طالبان راہنماؤں نے افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلاء کامطالبہ دہرایاتاہم اس موقع پرامریکی فوج کے انخلاء کاکوئی معاہدہ طے نہیں پایا۔افغان طالبان اشرف غنی نے افغان طالبان کوبراہ راست مذاکرات کی پیش کش کردی۔ ان کاکہناتھا کہ افغان حکومت چالیس سالہ جنگ کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے افغان طالبان کے پاس صرف دوآپشن ہیں پہلایہ کہ وہ افغان شہریوں کے ساتھ کھڑے ہوں یاپھردوسرے ممالک کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہیں۔اشرف غنی نے کہا کہ ہم عوام کویقین دلاناچاہتے ہیں کہ امن کے نام پران کے حقوق اورحق پرسمجھوتہ نہیں کیاجائے گا۔ملکی حاکمیت کوبرقراررکھاجائے گا۔افغانستان میں موجودغیرملکی فورسزکی موجودگی پراشرف غنی نے کہا کہ کوئی ملک یہ نہیں چاہتا مگر افغانستان کوان فورسزکی ضرورت ہے۔غیرملکی فورسزملک سے نکل جائیں گی۔آفتاب شیرپاؤنے تمام فریقین پرزوردیا کہ امن مذاکرات کواس کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے مثبت کرداراداکرناچاہیے تاکہ جنگ زدہ ملک میں امن واستحکام کے قیام کی راہ ہموارہوسکے ۔افغانستان میں امن واستحکام کے قیام سے خطے بالخصوص پاکستان میں استحکام کودوام ملے گا۔آفتاب شیرپاؤنے کہا کہ امن مذاکرات کی کامیابی کے لیے افغان حکومت کواعتمادمیں لیاجائے۔پاکستان اورروس کے درمیان خطے، افغانستان پائیدارامن کے لیے علاقائی اقدامات کی حمایت پراتفاق ہواہے۔روسی صدرکے خصوصی نمائندے کی شاہ محموداورتہمینہ جنجوعہ سے ملاقاتوں میں افغان مصالحتی عمل میں پاکستان کے کردارکوسراہاگیا ۔وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہا کہ افغانستان میں امن واستحکام سے متعلق ہماری اورروس کی سوچ قریب ترہے ، باہمی تعاون سے آگے بڑھنے کافیصلہ کیا۔ نیٹونے طالبان امریکامذاکراتی عمل کوخوش آئندقراردے دیاہے۔امریکی وزیرخارجہ نے افغان طالبان سے مذاکرات کوحوصلہ افزاقراردیتے ہوئے کہا ہے کہ فوجوں کی واپسی پریقین رکھتے ہیں۔

امریکانے افغان طالبان سے حتمی مذاکرات کرکے اورافغانستان سے اٹھارہ میں نکل جانے کاٹائم فریم دے کراپنی شکست کواعلانیہ تسلیم کرلیا ہے۔ دنیاکی سپرپاورکہلوانے والاامریکاجس کے پاس دنیاکاجدیدترین اسلحہ اورسب سے زیادہ گھمنڈہے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے افغان طالبان سے مذاکرات پر مجبور ہوا۔ امریکاکی سب قوتیں ناکام ہوگئیں۔ امریکاکوجب افغانستان میں آناتھا اس وقت بھی اسے پاکستان کی ضرورت تھی اوراب جبکہ جانے کاوقت آیا ہے توبھی اسے پاکستان کی ضرورت پڑی۔ یہ پاکستان کے لیے اعزازکی بات ہے کہ دنیاکی سپرپاوربھی پاکستان کے بغیرکچھ نہیں کرسکتی۔ امریکا اس لیے بھی مذاکرات پر مجبورہواکہ پاکستان کی طرف سے بارڈرمنیج منٹ کے بعد اب وہ افغانستان میں بیٹھ کرپاکستان میں منفی کارروائیاں نہیں کراسکتا۔ امریکا کی شکست تواس وقت شروع ہوگئی تھی جب پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنی پالیسی کے مطابق لڑنے کاآغازکیا۔

افغان طالبان اورامریکی حکام کے درمیان معاملات کوحتمی شکل تودے دی گئی ہے۔ فریقین کے درمیان باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔ فریقین کے درمیان باضابطہ معاہدہ اس وقت ہوگا جب اس پرفریقین کے دستخط ہوں گے۔ معاہدہ کے حوالے سے کوئی مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہیں کیاگیا۔ جب کہ افغان طالبان اس معاہدہ سے مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ کوئٹہ سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ کی خبرکے مطابق افغان طالبان کے سربراہ شیرعباس سٹانکزئی نے افغان میڈیاکوجاری کردہ ایک پیغام میں کہا ہے کہ امریکااتحادی افواج کے افغانستان سے انخلاء پرسنجیدہ دکھائی دیتا ہے۔ زلمے خلیل زادکایہ کہنا کہ افغان طالبان سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔ اس سے امریکی عزائم کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ امریکانے کتنی کوششوں سے طالبان سے مذاکرات کیے۔ امریکانے افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے کیاکچھ نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے کہ اس معاہدہ کاباضابطہ اعلان امریکی صدرٹرمپ ہی کریں۔ وہ طالبان سے مذاکرات کی کامیابی کے خواہش مندبھی ہیں۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350718 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.