نئی کابینہ، پی پی قیادت مزید پھنس گئی

انیس مرد اور تین خواتین پر مشتمل اکیس رکنی وفاقی کابینہ کے حلف اٹھانے کے بعد پیپلز پارٹی اور اس کے اتحاد گویا اپنے تئیں جہازی سائز منتری منڈل کو سکیڑنے پر اہم ترین کامیابی تصور کر رہے ہیں اور ان کے گمان میں شاید یہ بات بھی سما چکی ہے کہ اب ان پر نہ تو کسی طرف سے کوئی تنقید ہوگی اور نہ ہی فضول خرچیوں کا طعنہ سننے کو ملے گا ۔حکومتی خوش فہمی اپنی جگہ لیکن سیاسی حالات اور حقائق کی کسوٹی پر تبدیلیوں کو پرکھنے والے کچھ اور ہی ”مژدہ“ سنا رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول اکیس وزراء کے حلف اٹھانے سے کابینہ کی تشکیل کا صرف ایک مرحلہ طے ہوا ہے اور ابھی اتنے ہی وزراء کو مزید نوازا جائے گا جس کے بعد ہی ”بچت“ کے دعوؤں کی اصلیت سامنے آسکے گی جبکہ بہت سے حلقے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ پہلے کابینہ کی ڈاؤن سائز، پھر تحلیل اور پھر دوبارہ سے تشکیل محض ڈرامہ ہے اور اب بھی تعداد کے حوالے سے کچھ خاص فرق پڑے گا اور نہ ہی کابینہ پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی اور بقول میاں نواز شریف نئے لیبل میں پرانی دوائی کا محاورہ بالکل صادق ہے۔ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ،یا حکومتی دعوے حقیقت پر مبنی ہیں یا پھر اپوزیشن کے الزامات؟ اس کا جواب تو کابینہ تشکیل کے تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد ہی سامنے آئے گا تاہم اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس سارے جھمیلے سے جو توقعات وابستہ کی جارہی تھیں وہ پوری ہوسکیں گی؟

حکومت بلکہ خود وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وزراء اور سرکاری اداروں کے ملازمین کی تعداد میں کمی کی ضرورت اس لئے پیدا ہوئی کہ ملک کے اقتصادی حالات بہت تیزی سے بگڑ رہے ہیں اور ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کے لئے بچت کا کہیں نہ کہیں سے آغاز کرنا تھا۔ ملکی اور غیرملکی تمام تحقیقاتی اداروں کی رائے یہی ہے پاکستان کی معیشت اس وقت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور اگر اب بھی ہوشمندی سے کام نہ لیا گیا تو اسے ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ موجودہ حکومت کو بھی ورثے میں اچھے حالات نہیں ملے تھے مگر چونکہ یہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر برسراقتدار آئی تھی اس لئے لوگ آمریت کے مقابلے میں اس سے بہتر کارکردگی کی توقع رکھتے تھے لیکن پچھلے ساڑھے تین سال میں وہ کسی بھی شعبے میں پوری طرح ناکام نہیں تو کامیاب بھی نہیں ہوسکی۔ اس کی ناقص پالیسیوں اور کام کرنے کی صلاحیت میں کمی کی وجہ سے عوام کو ماضی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ بدامنی اور معاشی بدحالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے، توانائی کے بحران نے صنعتوں کا پہیہ جام کر رکھا ہے،پیداوار کا عمل سست پڑ چکا ہے۔ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کی کھلی چھوٹ کے باعث چینی سمیت روزمرہ استعمال کی کئی اشیاء کی قیمتیں دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے باتیں کرنے لگیں مگر حکومت اپنی رٹ قائم نہ کرسکی۔ شوگر ملوں کے مالکان زیادہ تر سیاستدان ہیں اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ حکومت ان سے قانون کی پابندی نہیں کراسکی۔ وسائل کی لوٹ مار، کرپشن اور بدنظمی نے معیشت کا دیوالیہ نکال دیا۔

انتظامی اور معاشی شعبے کے علاوہ سیاسی میدان میں بھی حکومت کی کارکردگی قابل رشک نہیں رہی اور اسی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے ہی پہلے محکموں کی کمی، صوبوں کو حوالگی اور پھر وفاقی وزراء کی کمی کا فیصلہ کیا گیا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ حکومت کو”خدانخواستہ“ عوام سے کوئی ہمدردی پیدا ہوگئی تھی بلکہ حقیقت میں وہ اپوزیشن کے روز بروز بڑھتے ہوئے دباؤ اور الزامات سے مجبور تھی اور اسی دباؤ کے سبب پیدا ہونے والی سیاسی مشکلات کا توڑ کرنے کے لئے ہی صرف حلف کی حد تک ہی سہی، کابینہ ضرور تبدیل کی گئی ہے لیکن اسکے نتیجہ میں پیپلز پارٹی کی مشکلات میں کمی کے بجائے مزید اضافہ ہی دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف تو صدر آصف علی زرداری اور وزیرا عظم سید یوسف رضا گیلانی لاکھ بلکہ سرتوڑ کوششوں کے باوجود جے یو آئی کو دوبارہ کابینہ میں شامل کرنے پر راضی نہیں کر سکے جبکہ دوسری جانب نئے منتری منڈل میں اہم ترین اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ میں سے بھی کسی کو شامل نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے آٹھ وزارتوں کے قلمدان اپنے پاس رکھے ہیں اور خبر یہی ہے کہ یہ وزارتیں ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمن گروپ کو ہی دی جائیں گی ۔ اس خبر کی سچائی پر کوئی شک نہیں البتہ جے یو آئی اور ایم کیو ایم دونوں ہی کے طرز عمل کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا زیادہ مشکل نہیں کہ ان کے مطالبات کہیں زیادہ ہیں ، اگر پیپلز پارٹی انہیں پورا نہیں کرتی تو پھر اس کا اپنا تختہ ہوجائے گا اور اگر پورا کرتی ہے تو پھر اس کے پاس وزراء کے تعداد پہلے کے مقابلے میں بھی شاید زیادہ رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں اور یہی وہ صورتحال ہے جو آنے والے دنوں میں مشکلات کم کرنے کے اقدامات کے نتیجہ میں مزید پیدا ہونے والی مشکلات کا عندیہ دے رہی ہے۔

بعض خبروں کے مطابق حکومت کے موجودہ اتحادیوں کے اہم ترین وزارتیں پیپلز پارٹی کے وزراء کو دینے پر بھی شدید تحفظات ہیں اور اسی وجہ سے وہ نئی کابینہ میں شمولیت پر راضی نہیں ہورہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو واقعی اپنوں ہی میں ریوڑیاں بانٹنے کی بات کچھ زیادہ غلط نظر نہیں آتی۔ایک ایسے وقت میں جب کہ نئے وزراءحلف اٹھا کر اپنے اپنے محکموں کا چارج بھی سنبھال چکے ہیں اتحادیوں کے مطالبے پر وزارتوں میں رد وبدل صرف اور صرف جگ ہنسائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا اور شاید اسی لئے پیپلز پارٹی اپنے حلیفوں کو ”جو بچا ہے وہی لے لو“ کی ترغیب دینے کی کوششوں میں ہیں جبکہ اتحادی سردست حکومت کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے چکر میں۔دوسری جانب خود پیپلز پارٹی کے اندر وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے شدید اختلافات کی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں اور تحلیل ہونے والی کابینہ کے بہت سے غیر متنازع اور اہم ترین وزراء کی جانب سے عین موقع پر حلف سے انکار یا ذرا نرم الفاظ میں معذرت بھی اسی سلسلہ ہی کی ایک کڑی ہے اور ایک ہی وقت میں اپنوں اور اپنے ساتھ ملے ہوؤں کو اپنی مرضی کے مطابق ساتھ رہنے پر مجبور کرنا بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کے لئے جوئے شیر لانے کے مترداف ہی ہے جو صدر زرداری اور وزیر اعظم گیلانی کا کڑا امتحان بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

پیپلز پارٹی اس لحاظ سے بھی آنے والے دنوں میں مشکلات کے بھنور میں دکھائی دیتی ہے کہ سب سے بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ نون کی جانب سے دیئے گئے دس نکاتی ایجنڈے پر عمل کی ڈیڈ لائن بس آیا ہی چاہتی ہے لیکن اس پر تاحال عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ وزراء کی کمی کا وعدہ تو چلو مان لیا کہ کسی حد تک ہی سہی پورا کردیا گیا لیکن کرپٹ وزراء کے خلاف کاروائی کے بجائے انہی چہروں کو واپس لے لیا گیا ہے جس پر ن لیگ بہرحال احتجاج کا حق محفوظ رکھتی ہے۔علاوہ ازیں میاں نواز شریف کی طرف سے پیش کردہ دیگر مطالبات وہیں کے وہیں ہیں اور بالفرض اگر ان کو نہ مانا گیا(جو دکھائی دے رہا ہے) تو آئندہ انتخابات کی تیاریوں میں مصروف اہلیان رائے ونڈ آرام سے نہیں بیٹھیں گے اور خود حکومتی حلیف بھی دال نہ گلنے پر ن لیگ ہی کی پالیسی کو اپنا کر دو سال بعد ہونے والے عام چناؤ میں اپنی جگہ پکی کرنے کی کوششوں میں جت جائیں گے اور اس کا نتیجہ بھی پیپلز پارٹی کے لئے پہلے سے بھی زیادہ مشکلات کی صورت میں ہی سامنے آئے گا۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 60431 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.