کشمیری بھائیو ہم آپ کے ساتھ ہیں مجبور جکرے ہوئے ہاتھ
پاؤں بندھے ہوئے ؤم آپ کے ساتھ ہیں کھل کر نہیں کسمساتی آواز میں ہم آپ کے
ساتھ ہیں۔طاقت کا سر چشمہ زمینی خداؤں کے ہاتھ ہے۔گزشتہ چند دہائیوں میں
مشرقی تیمور آزاد ہوا جنوبی سوڈان الگ ملک بن گیا لیکن نہیں آزادی ملی تو
آپ کو۔ہم عملی طو ر پر سچ پوچھیں آپ کے ساتھ نہیں ہیں لیکن چونکہ یہ پانچ
فروری ہے اس لئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
ایک کشمیری لیڈر نے جدہ میں خبریں کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جس قوم کو
خون دینا آتا ہو اسے غلام نہیں بنایا جا سکتا۔سچی بات ہے مدت دراز سے
کشمیریوں کا خون دریائے جہلم کو سرخ کر رہا ہے اور بھارتی تسلط اور جبر ختم
ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا کشمیری واقعی غلامی نہیں قبول کر رہے لیکن خون
دینے کی آزمائیش پر بھی پورا اتر رہے ہیں۔برطانوی سامراج جاتے جاتے ہماری
پیٹھ میں چھرا گونپ گیا۔چودھری رحمت علی ایسے ہی نہیں چلاتے رہے کہ پورا
کشمیر جس میں دریاؤں کے سوتے ہیں وہ پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے تھا۔ شنید
یہ بھی ہے کہ بھارت بڑی چالاکی اور ہشیاری سے ہندو آبادی کو مقبوضہ کشمیر
منتقل کر رہا ہے جب کے اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق وہ کشمیری جو ریاست
کے باشندے ہیں ان کی رائے لی جانی ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ شامل ہونا چاہتے
ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔اسرائیل جس طرح فلسطینی علاقوں میں در انداز ہوا
اور بڑی تیزی سے رہائیشی بستیاں وہاں پر قائم کر کے فلسطینیوں کی آبادی کم
کرنے میں کامیاب ہوا لگتا ہے بھارت بھی اپنے فطری دوست اسرائیل کی طرح وہی
مذموم کام کرنے جا رہا ہے ۔اور ایک خبر یہ بھی ہے کہ بھارت اور اسرائیل ایک
دوسرے کے ساتھ بہت سے شعبوں میں تعاون کر رہے ہیں جن میں ایک یہ بھی ہے کہ
دونوں ملک مسلم اکثریتی علاقے میں اپنا کنٹرول جمانے کے شیطانی طریقوں میں
تبادلہ کریں۔پیلیٹ گنز کا استعمال اسرائیل نے کیا وہی تجربہ نہتے کشمیریوں
پر کیا گیا اور کیا جا رہا ہے۔پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کی حمائت میں جو
مجرمانہ غفلت کئی برسوں سے جاری تھی لگتا ہے اب اس کے خاتمے کے دن آ گئے
ہیں ۔سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن مولانا فضل الرحمن جو کشمیر کمیٹی کے
سربراہ رہے ہیں ان کی تعیناتی ہی بھارت کو خیر سگالی کا پیغام تھا۔مولانا
بڑے علمی گھرانے کے فرد تو تھے ہی لیکن اس گھرانے کی مذہبی سوچ کا صرف اس
بات سے اندازہ لگا لیں کہ ان کے والد محترم مولانا مفتی محمود کا کہنا تھا
کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے۔ایک فرد کا یہ نقطہ ء نظر
ہو اور اس کا بیٹا اس کی میراث پر فخر بھی کرتا ہو تو اس سے کیا امید رکھی
جا سکتی ہے۔علمائے دیو بند کی دینی خدمات اپنی جگہ مگر ان میں سے ایک طبقہ
تقسیم ہند کے سخت خلاف تھا اور پاکستان بننے کے بعد بھی خلاف رہا اور خلاف
ہے۔مولانا شبیر احمد عثمانی کو اﷲ غریق رحمت کرے وہ اس طبقے کی قیادت کرتے
ہیں جنہوں نے اہل دیو بند ہوتے ہوئے پاکستان بنانے میں کردار ادا کیا حتی
کے قائد اعظم کی نمازہ جنازہ بھی پڑھائی۔کشمیریوں کی سیاہ رات ستر سالوں سے
حاوی ہے۔ان کے ننھے بچے اب کیا چاہتے کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں
آزادی۔کشمیریوں کے جنازوں پر پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الاﷲ کے نعرے
لگائے جاتے ہیں۔وہ لوگ جو بھارت کو جمہوریت کی ماں قرار دیتے ہیں ان سے
کشمیریوں کے لاشے سوال کرتے ہیں۔ہم پاکستانیوں کو سچی بات ہے کشمیریوں سے
رشتے کی بنیاد صرف اور صرف کلمہ ء طیبہ ہے۔نہ ہمیں کشمیر کی آبشاریں جھرنے
وادیاں اور خوبصورت سیاحتی مقامات سے پیار ہے ہم اﷲ اور اس کے رسول محمد ﷺ
کو گواہ رکھ کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ آپ خوش رہیں۔اگر ان حسین وادیوں کی ہی
بات کرنی ہے تو پھر رشتوں میں لالچ کا عنصر آ جاتا ہے۔کشمیر جنت ارضی ہے
اور یہاں لکھے دیتا ہوں دنیاوی جنتیں بہت سی ایسی ہیں جو کافروں کے پاس بھی
ہیں ہمیں اپنے بھائی اپنے بیٹے عزیز ہیں۔جدہ میں قائد تحریک انصاف اور
موجودہ وزیر اعظم سے جب میں نے کشمیر کے اوپر بات کی تو انہوں نے بھی انہی
خیالات کا اظہار کیا کہ اگر ہم کشمیری میں مداخلت کریں گے تو بھارت انہیں
ظلم و ستم کا نشانہ بنائے گا۔وقت آئے گا کہ بھارت کو دنیا کے سامنے ایک
سفاک اور وحشیت سے بھرپور ملک تصور کیا جائے گا۔
پاکستان میں اس وقت ایک غیرت مند اور با وقار شخص حکومت کر رہا ہے۔یہ واحد
وزیر اعظم ہے جو لیاقت علی خان کے بعد ببانگ دہل سچ کی نقابت کر رہا ہے۔ہم
نے اس سے پہلے وہ وزیر اعظم بھی دیکھا ہے جو کشمیری النسل تو تھا لیکن
کشمیریوں کی نسل کشی کرنے والے اور گجرات کے مسلمانوں کی قتل وغارت کرنے
والے نریندر مودی کے ساتھ دوستیاں بڑھاتا رہا ہے آم کی پیٹیاں اور ساڑھیاں
بھیجتا رہا بلکہ اپنے کاروباری دوستوں کو بغیر ویزے کے ملک میں آنے کی
سہولت مہیا کرتا رہا۔عمران خان نے کریز پر آ کر پہلا چھکا اس وقت لگایا جب
مودی نے بات چیت سے انکار کیا ۔خان کا یہ کہنا کہ میں نے بڑے عہدوں پر
چھوٹے لوگوں کو بیٹھے دیکھا۔یہ مودی کے منہ پر طمانچہ تھا۔عمران خان کے اس
طرز گفتگو سے قومی غیرت جھلک رہی تھی ۔پاکستانیوں نے مدتوں بعد ایک دلیر
اور جرا ء ت مندانہ مو ء قف پر اطمینا کا اظہار کیا۔
پانچ فروری قاضی حسین احمد کی جانب سے تاریخ میں پہلی بار منائے جانے کا
اعلان تھاقاضی صاحب کو اگر صرف جماعت اسلامی کا رہنما تسلیم کیا جائے تو یہ
ان کے قد کو چھوٹا کرنے کے مترادف ہے وہ ملت اسلامیہ کے قائد تھے اقبال کے
بعد وہ واحد شخص ہیں جو امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کے نقیب تھے۔ان کے اس جراء
ت مندانہ اقدام کے بعد پوری قوم اس دن کو مناتی ہے۔اب یہ قومی دن کی شکل
اختیار کر گیا ہے۔یہ پاکستان کے کروڑوں لوگوں کی جانب سے اپنے کشمیری
بھائیوں سے اس عزم کے اظہار کا دن ہے کہ ہم دل و جاں سے تمہارے ساتھ
ہیں۔پاکستان سے یہ اہم پیغام بھی بھارت سرکار کو مل گیا ہے کہ اب وہ دن لد
گئے جب آپ کشمیریوں کی کنڈ خالی پا کر معصوم لوگوں پر چڑھ دوڑتے تھے اب ان
کی پشتیبانی ملت اسلامیہ کے دلیر ملک پاکستان کا دلیر وزیر اعظم کرے گا۔
عمران خان اور اس کی حکومت کشیریوں کو کسی جبر اور زیادتی سے دبائے جانے کے
خلاف ہے چاہے وہ کنٹرول لائن کے اس جانب ہو یا اس جانب۔اس کی مثال یہ ہے کہ
راجہ فاروق حیدر جو عمران خان کے خلاف سکت باتیں کیا کرتے تھے عمران خان نے
ان کی حکومت کو نہیں چھیڑا۔حالنکہ اس سے پہلے جو حکومت اسلام آباد میں ہوتی
تھی وہ مظفر آباد میں بھی اقتتدار میں ہوتی تھی۔پاکستان چاہتا ہے کہ
کشمیریوں کو ان کا حق دیا جائے کہ وہ کس ملک کے ساتھ شامل ہونا چاہتے
ہیں۔پاکستان یا بھارت۔تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت پاکستان اور بھارت میں
سے کسی ایک کو اختیار کرنے کا حق کشمیریوں کو ہے۔
ہم اس امت سے تعلق رکھتے ہیں جسے بار بار ڈسا گیا۔ایک یہودی تھے جنہوں نے
بلاد عرب میں مسلمانوں کو ڈسا اور اسرائیل جیسا ملک کھڑا کیا گیا جو سرا سر
زیادتی تھی ام المسائل برطانیہ ہی تھا جس نے کشمیر اور اسرائیل جیسے مسائل
پیدا کئے۔لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل اور پاکستان دو نظریاتی ملک ہیں نہیں
جناب پاکستان کے لئے لاکھوں جانیں دی گئیں اور اسرائیل کے لئے ہزاروں جانیں
لی گئیں۔پاکستان آزادی کی تحریک کا نتیجہ ہے جب کے اسرائیل ایک ناجائز
ملک۔ملت اسلامیہ کو دو بڑے گروہوں نے نقصان پہنچایا ایک ہنود اور دوسے
یہود۔اس کے ساتھ ساتھ قادیانیت ایک ایسا بڑا فتنہ ہے جس نے کشمیر پر ظلم
کیا قادیانی غیر مسلم وزیر خارجہ سر ظفراﷲ جو اس وقت جہیز میں ملے وزیر
خارجہ تھے انہوں نے ریڈ کلف سے مل کر گورداس پور کو انڈیا کے حوالے کرایا
۔بھارت کو واحد زمینی راستہ وہیں سے ملا ورنہ لیہ کارگل دراس کے علاوہ کوئی
زمینی راستہ نہیں تھا۔پاکستان کی پشت میں قادیانیت نے چھرا گھونپا۔اور یاد
رکھئے یہ اب نئے سرے سے سر اٹھا رہی ہے۔اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے
بار بار کوشش کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کی موجودہ حکومت کو ڈالروں کا چکمہ
دے کر اپنے لے راستے کھلوائیں۔یہ کام علمائے حق کا ہے کہ جس طرح انہوں نے
ماضی میں قربانیاں دے کر ختم نبوت کی ترمیم ختم کرائی اسی طرح اب بھی نظر
رکھیں اس لئے کہ ملک دشمن اسلام دشمن اتنے چالاک اور زیرک ہیں کہ وہ کسی نہ
کسی طریقے سے وار کریں گے۔کشمیری کی بدقستی اور اس پر چھائے مہیب کالے سائے
حکومت برطانیہ اور اس کے لے پالک قادیانیوں کے طفیل ہیں۔آزاد کشمیر اسمبلی
کو سلام پیش کرتا ہوں پاکستان سے پہلے اس اسمبلی نے قادیانی فتنے کو سمجھا
اور انہیں غیر مسلم قرار دیا۔
آج پانچ فروری کے اس دن کو پورے پاکستان اور دنیا بھر میں منایا جا رہا
ہے۔مجھے ایک تلخ حقیقت کی طرف بھی اشارہ کرنا ہے کہ پاکستان کے اسکولوں میں
کشمیر پڑھایا جائے کل مجھے اس وقت بڑی پریشانی لاحق ہوئی کہ میرا پوتا جو
اپنی تعلیمی قابلیت اور جنرل نالج کی وجہ سے ایک ماڈرن اسکول کا بہترین
طالب علم قرار دیا گیا اسے سائنسی علوم کا علم تھا وہ جانتا تھا کہ کتنے
سیارے ہیں کائنات میں نظام شمسی کیا ہے لیکن اسے یہ علم نہیں تھا کہ مسئلہ
کشمیر کیا ہے؟اٹھارویں ترمیم کا سیاہ رخ یہ ہے کہ ہم قومی تعلیمی پالیسی سے
محروم ہیں۔جس بچے کو یہ علم نہ ہو کہ بھارت غاصب ہے اور کشمیری مغلوب اور
مظلوم ہیں اس پالیسی کا کیا فائدہ ۔عمران خان یکساں نصاب تعلیم کی تو بات
کرتے ہیں مجھے یہ بتا دیں کہ سندھ میں اگر محمد ابن قاسم غاصب اور راجہ
داہر مدافعت کار پڑھایا جائے گا اور پنجاب میں رنجیت سنگھ ہیرو اور چودھری
رحمت علی جیسا مرد حر نا معلوم ہو گا تو کیا خاک قوم بنے گی۔یہ اٹھارویں
ترمیم نے شفقت محمود کو اسلام آباد کے اسکولوں کا وزیر بنا کے رکھا ہوا ہے
یہ کیا مذاق ترمیم ہے۔یہ آصف علی زرداری نے صرف اپنے لئے بنائی تھی اسے علم
تھا میں دوسرے صوبوں میں زیرو ہوں لہذہ صوبوں کے حقوق کے نام پر سندھ میں
مزے کئے جائیں اور آپ نے دیکھ لیا ایک سے بیسیوں ملیں جعلی اکاؤنٹس صرف اس
لئے ممکن ہوئے کہ صوبے طاقت رکھتے تھے۔کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے
میں آزادی کے بیس کیمپ کی حالت زار کی بات بھی کرنا چاہوں گا کہ خدا را
اپنے کشمیری بھائیوں کے لئے رول ماڈل بنیں میں آزاد کشمیر کی قیادت کے قریب
ہوں جن کے آدھے ظلم و جبر سہہ رہے ہوں وہ اتنے سکون اور مزے سے نہیں رہتے
ان پر فرض ہے کہ وہ آزادی ء کشمیر کے لئے اپنی صلاحیتیں صرف کریں۔
ایک جانب ہم اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ ہمارے کشمیری بھائی اور بہنیں
حالت ظلم میں ہیں تو ہمیں بھی ان کا دکھ عملی طور پر محسوس کرنا چاہئے۔
وہ کیا کہتے ہیں پس چہ بائد کرد کہ کیا کرنا چاہئے ہمیں اپنے نظام تعلیم کو
پاکستان کے نظریاتی تقاضوں سے جوڑنا چاہئے۔کشمیر کا ایشو اپنے بچوں سے زیر
بحث لانا چاہئے۔تعطیل عام کی بجائے اگر صرف ایک پیریڈ کے لئے بچوں کو اسکول
بلا کر کشمیر ڈے منایا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ تقریریں تصویر نمائشیں
کرائی جائیں۔اس روز پوری دنیا کے پاکستانی پریس کلبوں کے باہر مظاہرے کریں
۔وہاں کے اراکین پارلیمنٹ سے ملاقاتیں کر کے بھارت کا وحشی چہرہ نمایاں
کریں۔
بھارت ایک مکروہ چال چل کر عرب ممالک کو یہ باور کرا رہا ہے کہ کشمیر کے
مسلمانوں پر اگر ظلم اجاگر کریں گے تو پورے پاکستان سے زیادہ تو مسلمان
بھارت میں ہیں ان پر ظلم ہو گا لہذہ خاموش رہا جائے۔اس سلسلے میں بھارت
مسلمانوں کو استعمال کرتا ہے۔اس کی کوشش ہوتی ہے سعودی عرب میں مسلمان سفیر
لگاتا ہے۔ماضی میں اس نے ایک ایسے مسلمان کو سفیر لگایا جس کی بیوی مسلمان
تھی۔ہمیں اپنی وزارت خارجہ کو یہ باور کرانا ہے کہ عرب ممالک میں روائتی
بابوؤں کی بجائے عربی سے واقف لوگ تعینات کئے جائیں۔اس سلسے میں علمائے
کرام جو عصری علوم سے آشناء ہوں انہیں تعینات کیا جائے۔تا کہ وہاں کشمیر کے
لئے کام کیا جا سکے۔ہم آپ کے ساتھ ہیں۔طاقت کا سر چشمہ زمینی خداؤں کے ہاتھ
ہے۔گزشتہ چند دہائیوں میں مشرقی تیمور آزاد ہوا جنوبی سوڈان الگ ملک بن گیا
لیکن نہیں آزادی ملی تو آپ کو۔ہم عملی طو ر پر سچ پوچھیں آپ کے ساتھ نہیں
ہیں لیکن چونکہ یہ پانچ فروری ہے اس لئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ہم اس موقع پر
اﷲ تعالی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ کشمیریوں کے حال پر رحم فرمائیں اور اگلا
اظہار یک جہتی نہیں جشن آزادی سری نگر میں منانے کا سبب کرے آمین |