عمران خان کی حکومت کو چھ ماہ ہونے کو ہیں ۔روز اول سے ہی
مخالفین نے حکومت کی ناکامی کا واویلا کرنا شروع کر دیا تھا ۔رہی سہی کسر
وزرا کے آئے دن کے بیانات اور حکومت کی جلد بازی میں کیے جانے والے فیصلے
جن کو بعد میں واپس لینا ،بہت سی عوام کو دی ہوئی سہولتوں کی واپس لینے
والی پالیساں، اپنے حامیوں اور عوام کو مایوس کر رہی ہیں ۔عمران سے عوام کی
اکثریت آسانیوں کی خواہاں تھی۔ لیکن اب تک اس معاملے میں حکومت مکمل ناکام
ہو رہی ہے ۔سیاسی اعتبار سے انتہائی کمزور فیصلے کیے جا رہے ہیں ۔جن میں سے
ایک حالیہ حج پالیسی کی بھی مثال دی جا سکتی ہے ۔ اس پرہر گورنمنٹ سبسڈی
دیتی رہی ہے۔لیکن موجودہ حکومت نے یہ رعایت ختم کر دی ہے ۔اس سے ملک بھرمیں
حکومت سے ناراضی کی ایک فضا پیدا ہو گئی ہے ۔
اس سال حج پالیسی کا اعلان ہوا تو ملک بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہو
گیا۔اب حاجی کو گذشتہ سال سے تقریباً 63% زیادہ اخراجات ادا کرنا ہونگے۔اس
پر بہت سے سوالات پیدا ہو چکے ہیں ۔جن میں سے ایک اہم سوال کیاحکومت کو حج
پر سبسڈی دینا چاہیے یا نہیں دینا چاہیے بھی ہے ۔ایک طرف اس مہنگے حج پر
عوام کی اکثریت کی طرف سے اعتراض کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف اسے سراہا بھی جا
رہا ہے ۔ گویا دو مختلف سمتوں میں،متضاد دلائل کے ساتھ ملک بھر میں گفتگو
جاری ہے۔اہم بات یہ ہے کہ آیا کہ اسلام اس بارے کیا کہتا ہے ۔اسے جاننے کے
لیے اسلامی نظریاتی کونسل کا ادارہ موجود ہے جس نے کہا ہے کہ حج کے لئے
سبسڈی دی جا سکتی ہے۔
اسی طرح وزارت مذہبی امور کا کہنا ہے کہ انہوں نے سبسڈی دینے کی سفارش کی
تھی ۔مطلب اسلامی رو سے حج پر رعایت دینا جائز ہے ۔یہ جو لوگ کہہ رہے ہیں
کہ ملک چونکہ قرض پر چل رہا ہے قرض کے پیسوں سے حج نہیں ہوتا یا یہ سود ہے
کچھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ چونکہ عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے حج پر سبسڈی دی
جا رہی تھی جو کہ جائز نہیں ہے ۔کیونکہ حج اپنے پیسوں سے ہوتا ہے وغیرہ
انہیں اپنے ملک کے سب سے بڑے مذہبی اداروں کی اس بات کو سمجھنا چاہیے ۔بے
جا اور بے تکے طریقے سے حکومت کا دفاع کرنا مناسب نہیں ہے ۔ویسے بھی عوام
کے لیے آسانیاں پیدا کرنا حکومت کا فرض ہے ۔اور حج جیسی عبادت کے معاملے
میں تو یہ ثواب کا کام ہے ۔
ایک طرف جب ریاست مدینہ قائم کرنے کا خواب دیکھایا جا رہا ہے اور دوسری طرف
حج جیسی عبادت کو مشکل بنایا جا رہا ہے تو غیر جانبدار حلقوں کی طرف سے
افسوس کیا جا رہا ہے ۔حکومت کا کام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا
ہے، انہیں خوشحال بنانا ہے، ان کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے ۔حج ایک عبادت
ہے اس میں سہولت دینا حکومت کا فرض ہے۔ اسلام میں زکوٰاۃ کا تصور یہ ہے کہ
صاحب استطاعت لوگ غریبوں کو اپنی آمدنی میں سے کچھ حصہ جوکہ 2.5% بنتا ہے
دیتے ہیں۔ یعنی امیر لوگ، غریبوں کو مالی سپورٹ کرتے ہیں۔یعنی سبسڈی دیتے
ہیں ۔گفٹ دیتے ہیں ۔مدد کرتے ہیں ۔ زکوٰاۃ کے پیسے حکومت کے پاس پہنچ گئے ۔حجاج
کو جو سبسڈی دی جاتی ہے وہ قومی خزانے سے ادا ہوتی ہے۔حکومت حجاج کی مدد
کرتی ہے ،گفٹ دیتی ہے ، رعایت دیتی ہے ۔حکومت کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ
عوام سے ٹیکس وصول کرناہے۔حکومت نے اب ان پیسوں کو اسے عوام کی فلاح کے لیے
استعمال کرنا ہے ۔
پاکستان میں وزارت مذہبی امور کی حج پالیسی کے اسے آسان بنانے کیلئے ہر
ممکن اقدامات کیے جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک سبسڈی بھی ہے بالکل ایسے ہی جیسے
پرانے وقتوں میں حج قافلے خشکی کے راستے جاتے تو ریاست انکی حفاظت کے
خاطرخواہ اقدامات کرتی تھی۔ یہ ریاست کا فرض ہے اس پر اگر زکوٰاۃ کا ٹیکس
کی کچھ رقم خرچ بھی ہو جائے تو اس میں کیا حرج ہے ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے
جیسے نماز کے لیے مساجد کے بجلی کے بلوں کی رعایت ۔روزوں کے لیے اشیائے
خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کرنا وغیرہ ۔حکومت کا حج کی سبسڈی ختم کرنے کے
اقدام کو کسی بھی طرح سراہا نہیں جا سکتا ۔حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت حج پر
ایک روپیہ بھی نہیں کما رہی۔ حج اور زکوٰاۃ دو عبادات ہیں جو استطاعت رکھنے
والوں پر واجب ہیں۔اور حالیہ حج اخراجات میں جو اضافہ ہوا ہے اس میں حکومت
کا کوئی کردار نہیں ہے یہ سعودی عرب نے اضافہ کیا ہے اور جو اضافہ سعودی
عرب کرتا ہے اس پر ہمارا اختیار نہیں ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ عازمین پر کم
سے کم بوجھ ڈالا جائے۔
اب چند مزید باتیں جو قابل توجہ ہیں۔جن پر عمل کر کے حکومت حاجیوں کو مزید
رعایت دے سکتی ہے ۔پاسپورٹ آسانی اور کم قیمت پر بنانے کی حکومت کو پالیسی
بنانی چاہیے ہر سال لاکھوں حاجی پاسپورٹ بنواتے ہیں جو حکومت کی ہی آمدن کا
ذریعہ ہے ۔اسی طرح حاجیوں کو سعودیہ لے جانے اور لانے کے کام کو تقریباً
مکمل طور پر حکومت اپنے ادارہ پی آئی اے کے ذریعے کرتی ہے۔یہ بھی حکومت کی
آمدن کا ایک ذریعہ ہے حکومت کو چاہیے اس میں عوام کو زیادہ سے زیادہ رعایت
دے یا دیگر ائیر لائنز کو بھی موقع دے تاکہ مقابلہ کی فضا قائم ہو عوام کو
جو ائیر لائن اچھا پیکج دے عوام اس پر سفر کرے ۔جب حکومت نے تقریباََ تمام
حاجیوں کو پابند کیا ہوا ہے کہ وہ سفر پی آئی اے کے ذریعہ ہی کریں تو اسے
منافع کی شرع کم کرنا چاہیے اور زیادہ سبسڈی دینی چاہیے نہ کہ اب ان رعایات
کو ختم کیا جارہا ہے۔
حکومت کی ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنی عوام کے لیے سعودی عرب سے
بات کرے وہاں ہوٹل تعمیر کرے یا ہوٹلوں میں کھانے اور رہائش کا مناسب اور
کم خرچ انتظام کرے ،اسی طرح حج کے لیے قربانی کے جانورپاکستان سے فراہم کیے
جائیں تو کروڑوں کی آمدن کے ساتھ ساتھ حاجیوں کو بھی کم قیمت پر قربانی کی
سہولت حاصل ہو سکتی ہے ۔یہ بھی حاجیوں کی جانب سے شکایت سننے میں آئی ہے کہ
حج پر پاکستانیوں کو رہائشیں حرم سے کافی دور ملتی ہیں اوراتنی دور رہائشیں
ہوتی ہیں کہ ان کے لئے بسوں کا انتظام کیا جاتا ہے صاف ظاہر ہے اس سے
اخراجات میں اضافہ ہوتا ہے۔اگر ہماری حکومت اس پر مناسب فورم پر بات کرے تو
پاکستان کے حاجیوں کو اس میں بھی رعایت مل سکتی ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ حکومت جو سبسڈی دیتی ہے یہ خالصاََ حکومت کا انتظامی معاملہ
ہے۔اسے مذہبی رنگ دینا درست نہیں ہے ۔نہ ہی اسلام اس سے روکتا ہے ۔بلکہ
اسلام سہولت دینے کی بات کرتا ہے ۔بالکل ویسے ہی جیسے میٹرو بس سروس ،مساجد
کو بجلی کی سبسڈی،فوجیوں اور طلبا کو کرایہ کی سبسڈی وغیرہ ہے ۔
|