عمران خان کی جہدمسلسل سے ملک میں چہروں کی حد تک
تو''تبدیلی'' آگئی مگر ''عوام'' کو فرسودہ ''نظام'' سے نجات ملناابھی باقی
ہے۔پی ٹی آئی کے لوگ نیاپاکستان بنانے کادعویٰ تو کررہے ہیں مگر ریاستی
نظام ہنوزپرانا بلکہ ''پھٹا پرانا'' ہے۔عمران خان وزارت عظمیٰ کاحلف اٹھانے
کے فوری بعدسے''شہنشاہ'' کی طرح فیصلے کر رہے ہیں یعنی کپتان اور ا ن کے
پیشرووزرائے اعظم کے مائنڈسیٹ میں کوئی خاص فرق دیکھنے میں نہیں
آیا۔نوازشریف کی طرح عمران خان کے یورپ میں مقیم دوست بھی سرکاری عہدوں اور
مراعات سے مستفید ہورہے ہیں۔عمران خان وزیراعظم تومنتخب ہوگئے ہیں مگران کے
پاس نوازشریف کی طرح ہیوی مینڈیٹ نہیں ہے،اسلئے وہ غلطیوں سے
گریزکریں۔عمران خان اپنوں اوراپنے اتحادیوں کے ہاتھوں بلیک میل ہورہے
ہیں،یہ بات ہرباشعورکوعلم ہے ۔پنجاب میں اقتدار کئی ہاتھوں میں ہے اسلئے''
بردباری'' نہیں بلکہ ''برادری'' کی بنیاد پر اہم ترین منصب دیے جارہے
ہیں،جس گاڑی کودوچارلوگ ڈرائیورکرنے کی کوشش کریں گے اس کے ساتھ حادثہ
ہونااٹل ہے۔عمران خان کووفاق میں مضبوطی کیلئے پنجاب میں مربوط نظام اور
مضبوط وزیراعلیٰ کی ضرورت ہے۔ ایوان اقتدار میں محض چہروں کی تبدیلی سے
عوام کے چہروں پرخوشحالی کی جھلک نظر نہیں آئے گی ۔ہیلتھ کارڈ ایک سیاسی
سٹنٹ ہے ،حکومت عوام کیلئے آسانیاں پیداکرے مگر ان کی عزت نفس ہرگز مجروح
نہ ہو۔اگربراہ راست شعبہ صحت میں اصلاحات کی جائیں تویقینا ہرشہری
مستفیدہوگا۔ عمران خان نے کرکٹ کے میدان میں خودکوایک باصلاحیت اورکامیاب
کپتان کی حیثیت سے منوایا ہے مگر ایوان اقتدار میں آنے کے بعدوہ قوم
کوڈیلیورکرنے کیلئے ایک پروفیشنل اور فائٹنگ ٹیم بنانے میں ناکام رہے ہیں
،جس طرح کرکٹ میں وہ کسی مصلحت کے بغیر فیصلے کیا کرتے تھے حکومت میں بھی
انہیں دباؤ کے بغیر درست اوردوررس فیصلے کرناہوں گے۔ نیب کے ملزم شہبازشریف
کوچیئرمین پی اے سی بنانا پی ٹی آئی کاایک مصلحت پسندانہ ، عاقبت
نااندیشانہ اورمتنازعہ اقدام ہے،حکومت کے اس کمزورفیصلے نے اپوزیشن بالخصوص
اپوزیشن لیڈرکومزیدطاقتورکردیا ۔اگرعمران خان مشاورت سے فیصلے کرتے
توسردارعثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب تودرکنار صوبائی وزیربھی نہ بنتا،کپتان
کئی دہائیوں سے میرٹ کی رَٹ لگارہے ہیں تووضاحت کریں عثمان بزدار کواس کی
کس خوبی، قابلیت اوراہلیت کی بنیادپر وزیراعلیٰ پنجاب بنایا۔اﷲ تعالیٰ جانے
کپتان نے عثمان بزدارمیں کیاخصوصیات دیکھی ہیں جوعوام نہیں دیکھ سکتے
۔عثمان بزدار کاکہنا ہے ''میں تو ابھی سیکھ رہا ہوں'' ،اس شخص کوڈرائیونگ
سیٹ پربٹھاناجوسیکھنے کے دورسے گزررہاہو،قیمتی گاڑی اور گاڑی میں سوارافراد
کی قیمتی زندگیاں داؤپرلگانا حماقت ہے۔دوٹیموں کے درمیان دوستانہ مقابلے
میں بھی بہترین بلے باز اوپنگ اورزبردست گیندبازاٹیک اوورکرتے ہیں ،عمران
خان کا سردارعثمان بزدارکووسیم اکرم کہنادرحقیقت ہمارے قومی ہیرواورقابل
رشک آل راؤنڈروسیم اکرم کی توہین ہے ۔T-20میں کامیابی کیلئے وکٹ پرکھڑے
رہناکافی نہیں بلکہ تیزی سے رنزبنانااہم ہوتاہے،اگرسردارعثمان بزدار آخری
گیندتک بھی کریز پرکھڑارہا توسنچری تودرکنارففٹی بھی نہیں بنائے گایعنی
خدانخواستہ اسے پانچ سال تک بھی برداشت کرلیا جائے توکارکردگی زیرورہے گی ۔
عمران خان نے جس کسی کی تجویزیا ڈکٹیشن پرسردارعثمان بزدارکووزیراعلیٰ
پنجاب بنایااس سے معذرت کرتے ہوئے اسے فوری منصب سے ہٹادیں ورنہ پنجاب سے
پی ٹی آئی کی سیاست کاجنازہ اٹھ جائے گا۔تخت لاہور کیلئے سردارعثمان بزدار
کی نامزدگی پی ٹی آئی کے دیرینہ حامیوں اورہمدردوں کیلئے بھی ایک
بڑاسرپرائز بلکہ شدیددھچکاتھی،حکمران جماعت میں کپتان کے سواکوئی عثمان
بزدارکا حامی نہیں تھااورآج بھی پسندنہیں کرتے۔کپتان نے عوام کوخوش کرنے
کیلئے ایک ''سردار'' کو''عام آدمی'' قراردیامگر سردارعثمان بزدار اپنے
پیشرو خادم پنجاب کی طرزپر ''شعبدہ بازی''کے باوجود''عوامی ''وزیراعلیٰ
بننے میں ناکام رہااورآئندہ ہزاربرس تک بھی عثمان بزدار کسی'' بردبار''
منتظم کامتبادل نہیں بن سکتا۔تعجب ہے اپوزیشن اورمیڈیا سمیت مختلف طبقات کی
طرف سے سردارعثمان بزدار پرمسلسل تنقید کے باوجود وزیراعظم عمران خان مسلسل
اپنے حسن انتخاب کادفاع اوراس کی شان میں قصیدے پڑھ رہے ہیں ۔وزیراعظم عمرا
ن خان اپنے حالیہ دورہ لاہورمیں پنجاب کے زیرک گورنر چوہدری
محمدسروراوروزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدارسمیت دوسری اہم شخصیات سے ملے
،اس کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدار کی ''تبدیلی'' کاتاثرشدت سے
ابھرا۔اس بار وزیراعظم عمران خان اپنے چہیتے سردارعثمان بزدار سے بظاہر
بیزار نظرآئے،شایدعمران خان کواپنی غلطی کااحساس اورادراک ہوگیا ہے اوراب
وہ اسے درست کرنے کے خواہاں ہیں ۔عمران خان پنجاب کی ''پگ ''اس کے
سرپررکھیں جوان کابوجھ اٹھائے جبکہ سردار عثمان بزدارتوان کی سیاست
اورحکومت کیلئے ایک بوجھ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔
پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر نیب کے اسیرہوگئے ہیں ،اس بڑی گرفتاری کے
بعدپنجاب میں تبدیلی کاامکان مزید بڑھ گیاہے۔پنجاب میں تبدیلی کیلئے حکمران
جماعت کے مختلف دھڑے سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں ۔عبدالعلیم خان کی گرفتاری
سے ایک طرف پی ٹی آئی کاسیاسی اورنیب کاا خلاقی طورپر مورال بہت بلندہوا ہے
دوسری طرف اپوزیشن کی پوزیشن یقینا متاثر ہوئی اورنیب کیخلاف بیانیہ بھی بے
جان ہوگیا۔عبدالعلیم خان کی گرفتاری سے خالی ہونیوالی اہم وزارت مسلم لیگ(
قائداعظمؒ) کودینابھی پی ٹی آئی کی قیادت کا عاقبت نااندیشانہ فیصلہ
ہے،کپتان پنجاب میں وزرات بلدیات کا قلمدان اپنے کسی باصلاحیت اوربااعتماد
کھلاڑی کودیں۔پی ٹی آئی اورمسلم لیگ (قائداعظمؒ ؒ)کاسیاسی اتحاد نظریات
نہیں بلکہ نظریہ ضرورت کانتیجہ ہے ،چوہدری برادران مسلسل اتحادختم کرنے کا
''ڈراوا''دیتے ہوئے کسی نہ کسی بات کوبنیادبناکرناجائزفائدہ اٹھارہے ہیں
جبکہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید پی ٹی آئی کے واحداتحادی ہیں
جوکپتان کوکسی مرحلے پرتنہا نہیں چھوڑتے۔پی ٹی آئی کے بیشتروفاقی وصوبائی
وزراء شروع دن سے خاموش یامیڈیا کیلئے روپوش ہیں جبکہ شیخ رشید اپنے دوست
اورسیاسی اتحادی عمران خان کابھرپوردفاع اورمتحدہ اپوزیشن پرزوردارسیاسی
حملے کررہے ہیں ۔ وزیراعظم عمران خان کے معتمد عبدالعلیم خان کی گرفتاری کے
بعداب اپوزیشن کیلئے نیب یا ''احتساب''میں عیب نکالناآسان نہیں ہوگا۔ہوسکتا
ہے عبدالعلیم خان کی گرفتاری '' کلین چٹ''کیلئے ہو،نیب کے ریمانڈاورتحقیقات
کے بعدعبدالعلیم خان کوباعزت رہائی مل سکتی ہے ،اس صورت میں وہ وزارت اعلیٰ
کے مضبوط امیدوار ہوں گے تاہم پنجاب میں پی ٹی آئی کے اتحادی چوہدری
برادران عبدالعلیم خان کانام ''ویٹو'' یامرکز اورپنجاب میں مزیدوزارتوں کی
ڈیمانڈ کرسکتے ہیں۔عبدالعلیم خان پرویز مشرف کے دورآمریت میں پنجاب کے
وزیراعلیٰ چوہدری پرویزالٰہی کے وزیر تھے،شایداسلئے چوہدری پرویز الٰہی
کیلئے عبدالعلیم خان کو بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب قبول کرناآسان نہیں ۔
پنجاب کے ایوان اقتدار میں'' تبدیلی'' کی صورت میں پی ٹی آئی کے نیک نام
اورہردلعزیز صوبائی وزیرتجارت میاں اسلم کا''اقبال'' بھی بلندہوسکتا ہے ،وہ
بھی وزرات اعلیٰ کے موزوں ترین اورمضبوط امیدوار ہیں ،پی ٹی آئی کارکنان
کانظریاتی حلقہ میاں اسلم اقبال کی پشت پرکھڑا ہے۔ لاہور سے ناقابل شکست
اورعوام دوست میاں اسلم اقبال شہر لاہورسمیت پنجاب بھر میں مسلم لیگ (ن) کی
سیاست کیلئے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔میاں اسلم اقبال کے خلوص اورجذبہ خدمت
نے عوام کوان کاگرویدہ بنادیا ہے۔سلجھے ہوئے میاں اسلم اقبال خوامخواہ
دوسروں سے نہیں الجھتے مگر پھربھی موثراندازسے اپنی بات دوسروں تک
پہنچادیتے ہیں،انہیں اپنی قیادت اورجماعت کی وکالت کرنے کاہنرآتا
ہے۔باوفااورباصفامیاں اسلم اقبال میں پی ٹی آئی کے منشور کی روشنی میں
ڈیلیورکرنے کی بھرپورصلاحیت ہے ۔دوسری طرف مسلم لیگ (قائداعظم ؒ )کے وفاقی
وزیرطارق بشیر چیمہ کاحالیہ بیان '' اگرسردارعثمان بزدار کو پنجاب کی وزرات
اعلیٰ سے ہٹایاگیاتوپی ٹی آئی سے اتحاد پرنظرثانی کرسکتے ہیں''،طارق بشیر
چیمہ کے اس بیان کامتن یقیناچوہدری پرویزالٰہی نے لکھا ہوگا، قومی اورپنجاب
اسمبلی میں نمائندگی کے باوجودمسلم لیگ (قائداعظمؒ) قومی رواداری کی بجائے
برادری ازم کی علمبردار ہے۔جس طرح مسلم لیگ (ن) میں منصب اورانتخابی ٹکٹ
کیلئے کشمیری یاارائیں،متحدہ قومی موومنٹ میں انٹری کیلئے مہاجر،عوامی
نیشنل پارٹی میں ترقی کیلئے پختون ہونااہم ہے اس طرح مسلم لیگ (قائداعظم ؒ)
میں '' چودھراہٹ''کیلئے جٹ ہوناضروری ہے جبکہ تحریک انصاف میں ہربرادری کے
لوگ سرگرم ہیں ،تاہم عمران خان کو فیاض الحسن چوہان سمیت جماعت اسلامی سے
آنیوالی شخصیات سے محتاط رہناہوگا۔فیاض الحسن چوہان کاتکبرآسمان کوچھورہا
ہے ،موصوف وزرات اطلاعات کیلئے ضروری تدبر سے عاری ہیں ۔چوہدری پرویزالٰہی
خواہش اورکوشش کے باوجود میاں منظوروٹوکی طرح وزیراعلیٰ پنجاب بننے میں
ناکام رہے لیکن سیاسی طورپر سردارعثمان بزدار چوہدری پرویزالٰہی کے مقابلے
میں ایک''بونا'' ہے اسلئے مسلم لیگ (قائداعظم ؒ)کی قیادت کے نزدیک تخت
لاہورکیلئے کوئی قدآور،زورآوریا ''بردبار'' نہیں بلکہ سردارعثمان بزدار
زیادہ مناسب ہے۔وزیراعظم عمران خان وزیراعلیٰ پنجاب تبدیل کرنے میں جس
قدر''دیر''کریں گے پنجاب میں ان کی سیاست کامستقبل اس قدر''اندھیر''
ہوتاجائے گا ۔ عبدالعلیم خان کے گرفتار اورمستعفی ہونے سے میاں شہبازشریف
پردباؤمزیدبڑھ گیا ہے،تاہم جس ''نرمی'' سے میاں شہبازشریف کااحتساب
کیاجارہا ہے اس سے توانہیں آزادکردینا بہترہوگا ۔ وفاقی وزیراطلاعات
فوادچوہدری کاکہنا ہے،شہباز ''شریف''نہیں بلکہ ملزم ہیں لہٰذاء وہ پی آئی
سی کی چیئرمین شپ چھوڑدیں۔ پاکستان ریلوے کے دبنگ وفاقی وزیر شیخ رشید اپنے
مدمقابل کوزیرکرنے کافن جانتے ہیں،ان کی پی آئی سی میں بحیثیت ممبر انٹری
سے میاں شہبازشریف کودشواری کاسامنا کرنا پڑے گا۔ پی ٹی آئی کے پاس شیخ
رشیدکاکوئی متبادل نہیں ،پارلیمنٹ میں ان کی سیاسی اور سرگرمی میڈیا کے
محاذ پران کے بیانات کی گرماگرمی سے اپوزیشن کومسلسل ہزیمت کاسامنا
کرناپڑرہا ہے۔مسلم لیگ (ن)کیلئے توشیخ رشیدکی حیثیت'' گھر کے بھیدی'' کی
ہے،وہ نوازشریف کی'' لنکا'' زمین بوس کرسکتے ہیں۔ |