سعادت حسن منٹومشہور افسانہ نگاراور مختصر کہانی کے
بادشاہ، کی پیدائش وفات اور حالاتِ زندگی کے بارے میں بہت کچھ لکھا
گیا۔ہجرت سے پہلے اُس کی زندگی کیسی تھی اور پاکستان میں آکر کیسی گزاری یہ
بھی سب جانتے ہیں۔۔۔لیکن سب سے پہلا سوال جو منٹو کا نام سننے کے بعدہمارے
ہاں عام پوچھا جاتا ہے ۔۔۔کیا منٹو فحش نگار تھے؟۔۔۔ہے۔ منٹو شناسی کا
پیمانہ یہی رکھا گیا ہے کہ منٹو کے فحش نگاری کے متعلق کوئی کیا رائے رکھتا
ہے۔یہ نہیں پوچھا جاتا کہ منٹو کیا کہنا چاہتے تھے۔ وہ جس چیز کاوہ ابلاغ
چاہتے تھے ،وہ اُس کے جیتے جی اور اُس کے بعد کس قدر موثر طریقے سے ہوا۔ وہ
کس طرح کے سماج کے خواہاں تھے اور کون سی روایات سے متنفر اور باغی۔۔۔ لیکن
فحش نگاری کا اتنا پرچار ہوا ، کہ منٹو کے ذکر پر آج بھی سب سے پہلا جواب
فحش نگاری کا دینا پڑتا ہے ۔۔۔مگر ہم آج پہلے یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں
کہ سعادت حسن منٹو کو کیوں پڑھا جائے؟ فحش نگاری کی بات بعد میں۔ لٹریچر/ادب
چونکہ معاشرے کا پر تو ہے اور انسانی رویوں کی ایک فلم جس سے آگاہی بصیرت
عطا کرتی ہے ، جس کے زیرِ اثر انسان اپنی زندگی بہتر طور سے گزار سکتا ہے ۔یہ
بصیرت دوسروں کو تسلیم کرنے اور اُن کا حق ماننے کا حوصلہ اور ظرف فراہم
کرتا ہے۔لٹریچر انسانوں کو بتاتا ہے کہ وہ کونسے حالات ہوتے ہیں جن کے زیرِ
اثر انسان دوسرے انسانوں کے لیے ضرر رساں بن جاتا ہے ۔ وہ کونسے فیصلے ہوتے
ہیں جو انسان پر مصیبتوں کے پہاڑ گراتے ہیں اور وہ کونسے فیصلے ہوتے ہیں جن
سے انسانی زندگی سُکھ چین کا استعارا بن جاتی ہے۔ وہ کیسے معاشرے ہیں جہاں
سچ کو سُنا جاتا ہے برداشت کیا جاتا ہے اور سراہا جاتا ہے اور وہ کیسے
معاشرے ہیں جہاں جھوٹ کی اتنی عادت پڑجاتی ہے کہ سچائی کے علمبرداروں کی
زبانیں بند کرنے کے لیے زہر کے پیالے پلائے جاتے ہیں اور جسم کو جلاکر
اناالحق کو دبانے کی کوشش کی جاتی ۔ادب سے محبت ایک زندگی میں سینکڑوں
زندگیاں جینے کا سرور اور تجربہ عطا کرتی ہے۔انسان کی فطرت میں جاننے کی
خواہش پوشیدہ ہے اور ادب سے اس خواہش کی آبیاری ہوتی ہے۔جہاں تک کہانی
پڑھنے کی بات ہے تو کہانی پڑھنے والا جب لہر کو پکڑ لیتا ہے تو اُس میں
بہتا ہی چلا جاتا ہے۔قاری کہانی کے ساتھ جُڑ جاتا ہے اور پھر جس کردار کے
ساتھ وہ جُڑ گیا اُس کے دُکھ درد ،ہنسی خوشی سب کچھ جھیلتا اور انجوائے
کرتا ہے۔اُن کے حالات و واقعات سے تجربات حاصل کرتا ہے اور کتھارسس بھی
کرلیتا ہے۔بے اختیار آنکھوں سے آنسوبھی بہنے لگتے ہیں اور لب مُسکراہٹ کے
لیے کُھل بھی جاتے ہیں۔شاید میں منٹو کے بارے میں اس لیے لکھ رہا ہوں کہ
منٹوں نے جو لکھا مجھے بالکل حقیقی دُنیا سا محسوس ہوانیتی کو تانگے کا
لائسنس نہ ملنے پر غصّہ آیا اور سلطانہ کی محرم کے لیے خُدابخش سے کالی
شلوار کے لیے بچوں کی طرح ضدکرنابہت معصوم لگا۔ لیکن منٹو صاحب کی ٹریجڈی
یہ ہے کہ اُسے سمجھنے کی کوشش سرے سے ہوئی نہیں یا دیدہ و دانستہ عوام کو
اُن نظریات سے بھٹکایا گیااور فحش فحش کے نعرے لگا کر اصل مدعا کو دبا دیا
گیا ۔۔۔شاید اسی لیے اُسے فحش نگار کہہ کر اُس سے گردن چُھڑا لی گئی۔
حالانکہ اگر ذہن میں بہت سارا تعصب بھی بھر لیا جائے، پھر بھی اُسے ایک
زاویہءِ نظر کے طور پر تسلیم کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔
میں آج کی بات کر رہا ہوں 2019 کی ،جب موبائل فون پر تیز ترین انٹر نیٹ بھی
موجود ہے اور لاکھوں کی تعدار میں ویب سائٹس بھی ۔۔۔میں اس جدیددور کی بات
کر رہا ہوں جہاں نالج کے ایکسپلوژن/دھماکے کی ٹرمینالوجی چار دانگ ہے۔۔۔اس
دور میں بھی اگر ایک ایم فل سکالر یہ کہے کہ ۔۔۔منٹو کو اس لیے نہیں پڑھا
کیونکہ وہ ایسے ویسے ہیں۔۔۔ تومجھے سچ میں بہت مایوسی ہوتی ہے۔ کہ ہمارے
پاس آج بھی،جب علم تک رسائی جیب میں موبائل فون کی صورت میں پڑی ہے، تحقیق
کے بغیر فتوے صادر کرنے کی خو کتنی پکی ہے۔ ہماری پسند نا پسند کا معیار آج
بھی کسی دوسرے کے نظریات ،تحریری یا تقریری ہوتے ہیں نہ کہ ہماری اپنی
کاوش۔۔۔ ہماری رائے آزاد رائے کو ہمارا مسلک ،علاقہ ،برادری اورنسل کس قدر
آسانی سے کچل دیتے ہیں، اور ہم کتنے متعصب ہوجاتے ہیں۔لیکن جب پوچھا جاتا
ہے کہ ایسا ویساکا کیامطلب ہے اور کہاں پڑھا ؟ توکوئی قابِل ذکر توجیہہ
نہیں ہوتی بلکہ اصلی ماخذ کا بھی پتہ نہیں ہوتا۔۔۔جس طرح ایک مصری عالم کے
قتل کے بعد قاتل کا بیان تھا کہ میں نے اُس کے لکھے ہوئے کو پڑھا تک نہیں
لیکن فتوی موجود تھا اس لیے یہ قدم اُٹھا لیا۔منٹو کے ایسے ویسے کی بھی یہی
تاویل عام ہے۔ ۔ ایسا ہی ایک واقعہ فحش نگاری کے ایک مقدمے میں بھی پیش
آیا،جب منٹو کے افسانے میں لفظ عاشق کو استغاثہ کے نانک چند ناز ایڈیٹر
پربھات کی طرف سے فحش قرار دیا گیاتو منٹوکی حسِ ظرافت پھڑکی اور اسکا
شائستہ مترادف پوچھا۔۔۔پھر خود ہی نعم البدل۔۔ یار۔۔ پیش کیا،تو محفل کشتِ
زعفران بن گئی۔
اب آتے ہیں فحش کے بحث کی طرف۔۔منٹو نے اس الزام کا خود جواب ،مجموعے ٹھنڈا
گوشت کے دیباچے میں بہ عنوان زحمتِ مہر درخشاں بہ حوالہءِ افسانہ ۔۔کھول
دو۔۔ اور ۔۔۔ ٹھنڈا گوشت ۔۔۔اور مجموعہ لذتِ سنگ کے دیباچے میں بحوالہءِ
افسانہ۔۔۔بو۔۔۔ اور مضمون۔۔۔ادب جدید۔۔۔دیا ہے۔عابد علی عابد صاحب نے ٹھنڈا
گوشت کو کورٹ میں ادب پارہ کہااور ادب کبھی فحش نہیں ہوتا۔ادب تنقیدِ حیات
ہے۔جیسے الفاظ استعمال کیے۔۔۔خیر ایک عام فہم بات ہے کہ الفاظ اور فقرے اگر
تحریر سے الگ کیے جائیں تو اُس کے مطالب اور مفہوم پر گہرا اثر پڑتا ہے،
اور ہر کوئی اسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ اگر یہی اصول مان لیا
جائے تو ایسے قابلِ تعزیر فقرے تو بہت سی مقدس کتابوں میں بھی ڈھونڈلیے
جاتے ہیں چہ جائیکہ ادب۔۔۔ ادب اور زندگی تو براہ راست منسلک ہیں اس لیے
کانٹے کو پھول کہنا منافقت اور ادب سے غداری ہے۔۔۔ اس میں اچھے بُرے کی بات
نہیں ،کانٹا کانٹا ہے اور پھول پھول الگ الگ فطرت اور الگ الگ کام۔منٹو
صاحب کے افسانوں کے اگر فقروں کو الگ کر لیا جائے تو آپ کوئی بھی لیبل لگا
سکتے ہیں لیکن کسی فن پارے کو دیکھنے کے لیے اُس کا مجموعی تاثر لینا چاہیے
افسانہ ٹھنڈا گوشت کو لیجئے اس کہانی کا مجموعی تاثر شہوت انگیز باالکل بھی
نہیں کیونکہ ایشر سنگھ نے ایک ظلم کیا تھا جس کے نتیجے میں وہ ذہنی نامردی
کا شکار ہوگیا اور اپنے انجام کو بھی پہنچ گیا۔ کیونکہ انسان کے اندر ضمیر
نام کی چیز بھی رہتی ہے، ایشر سنگھ اور کلونت کور کا رشتہ منٹو صاحب نے
افسانے میں واضح نہیں کیا لیکن کلونت کور کی جلن اس حد کی تھی کہ ایشر سنگھ
پر خنجر کا وار کردیا،دونوں نے عام زبان استعمال کی ،اور روزمرہ کی گالیاں
بھی دیں ،کیونکہ وہ دونوں گنوار تھے پی ایچ ڈی سکالرز نہیں۔ یہ سچ ہے کہ
منٹو صاحب کے پاس معاشرے کی تصویر کھینچنے کے لیے سیلفی یا بیوٹیفیکیشن
کیمرہ نہیں تھا اور وہ چیچک زدہ چہرے پر ریگمال پھیر کر اُسے ملائم دکھانے
کے قائل نہ تھے،درحقیقت یہی چیز تو اُسے منٹو بناتی ہے۔اُس نے خود ہی کہا
تھاکہ ۔۔۔ میں معاشرے کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔ اب اگر یہ
سوال پیداہو کہ پھر فحش کیا ہے؟ تو اس کا آسان سا جواب یہ ہے کہ اگر لکھنے
والے کی نیت کسی تخلیق سے تلذزاور اکساہٹ پیدا کرنے کی ہو تو فحش ہے ورنہ
معلومات اور سبق دینے کی نیت سے کوئی واقعہ فحش نہیں ہوسکتا۔۔۔ اس کی سادہ
سی مثال اتنی سی ہے کہ کوئی بھی زوالوجی کی کتاب اُٹھا کے دیکھ لیں،یا
مسائلِ بہشتی زیوراز مولانا اشر ف علی تھانوی پڑھ لیں جہاں اشاروں کنایوں
نہیں بلکہ کھلم کھلا بیانات موجود ہیں۔۔۔ اور موخر الذکر کا حوالہ تو عصمت
چغتائی صاحبہ نے عدالت میں بھی دیا تھا،افسانہ لحاف کے دفاع کے سلسلے
میں۔۔۔
لیکن اصل سوال یہ ہے کہ ہم بطورِ معاشرہ کیا چھپانا چاہتے تھے جسے منٹو نے
بیچ چوراہے لٹکا دیا؟۔۔۔ ہاں منٹو نے وہی سب کچھ بتایا جسے ہم کارپٹ کے
نیچے ڈال کر سب اچھا کے نعرے لگا رہے تھے،اور منٹو نے ان کھوکھلے نعروں کا
بھرم توڑ دیا۔ یہی کچھ ساحر لدھیانوی بھی کہاکہ: ۔۔۔ثناء خوانِ تقدیسِ مشرق
کہاں ہیں۔۔۔۔لیکن ہم بُرائی کو بُرائی نہیں سمجھتے بلکہ اُس کے ظاہر ہونے
کو بُرا سمجھتے ہیں ۔۔۔منٹو نے اپنا دور دیکھا ، لیکن معاشرہ آج بھی ایسے
ہزاروں واقعات سے بھرا پڑا ہے جس میں مقدش رشتوں کو پامال کیا جاتا ہے،
زینب جیسے ہزاروں معصوم بچے ہوس کا شکار ہوکر مار دیے جاتے ہیں۔۔۔ اور
گھریلو ملازمین کوتشدد سے قتل کر کے گندی نالیوں میں بہایا جاتا ہے۔ سوشل
میڈیا کے آنے کے بعد ایسے کیس تواتر سے رپورٹ ہورہے ہیں۔ لیکن ہم نے ریشم
کے کیڑوں کی طرح اپنے گرد کوکون بنائے ہیں خود ساختہ پاکیزگی کے، احساس جرم
میں لتھڑے رہنے کے باوجود دکھاوے کی پارسائی کے، کیونکہ ،لوگ کیا کہیں گے
کی لٹکتی تلوار ہمیں کاٹ ڈالے گی۔۔۔ مگرمنٹو ان سب سے بے نیاز تھا بے
باک۔۔اس لیے۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔ کی تلوار توڑ ڈالی،اور خودساختہ پارسائی
کا کوکون پھاڑ دیا ،اسی لیے فحش نگار قرار دیے گئے اور مقدمے بھگتے۔ اور
عدالتوں میںیہی صفائیاں پیش کر تے رہ گئے کہ وہ تخلیقیت سے لبریز ہیں، جنسی
جذبات کے اشتعال سے اُسے کیا لینا دینا۔ ۔۔لیکن ہمیں اسلام کے قلعے میں
منٹو کھٹک رہا تھااور کھٹکتا رہے گا کیونکہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے
کی عادت ہمارے ہاں عقیدہ بن چکا ہے۔۔۔ عدالتوں نے فحاشی کے الزام سے بری کر
دیا لیکن سوال آج بھی وہی ہے کیا وہ فحش نگار تھے؟ کیونکہ ہم عدالت سے بھی
اپنی مرضی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔۔۔ ٹھیک اُسی عقیدے کے مطابق جو ماں باپ سے
سُنا ،دیکھا اور سیکھاہے ۔۔ اور اُس خودساختہ سچ سے ایک انچ ہٹنے کو تیار
نہیں۔ اسی لیے تو منٹو کے نام سے بننے والی فلم کو نمائش کی اجازت ہی نہ مل
سکی۔۔کیوں؟۔۔۔ اس کیوں کے پیچھے بہت کچھ ہے؟وہ اس پاک سر زمین میں دفن
ہوسکتا ہے لیکن اُس کی فلم سینما میں نہیں چل سکتی۔۔۔کیوں؟۔۔۔منٹوکو اجازت
اس لیے نہیں ملتی کیونکہ وہ اللہ دتا جیسے مردوں کے بارے میں سب کو کھلم
کھلا بتاتا ہے جنھیں اپنی بھوک کے آگے کوئی پاک رشتہ دکھائی نہیں دیتا(اللہ
دتا)۔بابو کندن لال کے چہرے سے نقاب کھینچتا ہے،کیونکہ اُس کی سالی سمتری
کی سسکیاں اسے بے چین کرتی ہیں(جاؤ حنیف جاؤ)۔ سکینہ کی بے بسی جو ہندوستان
سے اپنی عزت بچا کر اپنوں میں پہنچ گئی، لیکن اپنوں کے ہاتھوں عزت کی پونجی
لُٹا دی(کھول دو) ، ایسا کُھلا سچ ہم کیسے ہضم کرتے کیونکہ ہمیں تو یہی درس
ملتا ہے کہ عیسائی، سکھ اور ہندو عورتوں کی جبری بے حرمتی کے مرتکب ہوتے
ہیں۔۔۔۔ کالی شلوار کی سلطانہ تو رزق کے لیے دربدر پھر رہی تھی، خدا بخش
جیسے مرد کے آسرے بیٹھی تھی، جو محنت سے جی چُرا کر پیر فقیروں کی منتیں
کرتا رہا ۔۔۔اس افسانے میں تو منٹو نے فحاشی کا در اتنی سی بات کہہ کربند
کر دیا، کہ جب شنکر نے سلطانہ سے اُس کے کام کے متعلق استفسار کیا ۔۔تو
سلطانہ کا جواب۔۔جھک مارتی ہوں۔۔تھا(کالی شلوار)،مومن پندرہ سالہ ملازم کن
ذہنی کیفیات سے گزرتا ہے، کن واقعات سے دوچار ہوتا ہے، جب وہ جوانی کی
سرحدوں میں قدم رکھتا ہے، اور جب اُسے کھلے عام زنانے میں پھرنے کی اجازت
ہو(بلاؤز)،مسعود جیسا سکول جانے والا بچہ دُنیا کو کس نظر سے دیکھتا ہے ،اس
کے احساسات کیا ہیں، اور جب اسکا والد دن کے وقت کنڈی لگا کربچوں کے جاگتے
ہوئے اُس کی امی سے سر دبوانے کا بہانہ کرتا ہے تو اُس بچے کے ذہن میں کیسی
سرسراہٹیں ہوتی ہیں۔ (دھواں)، رندھیر کو گھاٹن لڑکی کے میلے اور بدبودار
جسم میں جو گناہ کی لذت ملی وہ اپنی خوبصورت اور دولت مند بیوی کے قرب میں
نصیب کیوں نہیں ہوئی(بو)،منٹو نے نذیرجیسے مردوں کے بارے میں بھی کھلم کھلا
لکھا جو اپنی بیوی میں کبھی بھی سکون نہیں پاتے۔ کیونکہ وہی شارداجس میں
اُسے کریم دلال کے ڈھیرے پر دنیا جہان کا سرور ملتا تھاجب گھر آئی تو اُسے
وہ التفات نہ رہا(شاردا)،ہتک کی سوگندی اس لیے منٹو کو پسند تھی کیونکہ اُس
کی انا جسم فروشی کے باوجود بھی زندہ تھی(ہتک) ۔۔۔منٹو نے ڈھائی سو کے لگ
بھک کہانیاں لکھیں، جن میں سے متنازعہ کہانیاں بہت معمولی مقدار میں
ہیں،کیونکہ منٹو نے ماہی گیر، تماشا، ٹوبہ ٹیک سنگھ،دیوانہ شاعر ،طاقت کا
امتحان،انقلاب پسند، جی آیا صاحب، مزدوری ،چوری اور جھوٹی کہانی جیسے
افسانے بھی لکھے،بابو گوپی ناتھ ، ممی اور ممد بھائی جیسے کردار معاشرے سے
چُن چُن کر کاغذ پر امر کردیے اور لائسنس کی نیتی جیسے المیے بھی بیان کیے،
جس پر شوہر ابو کوچوان کے مرنے کے بعد حلال روزی کے تمام دروازے بند کردیے
جاتے ہیں اور چار و ناچار جسم فروشی پر مجبور کردی جاتی ہے۔۔۔ منٹوجب کہتا
ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ جو عورت کسی سے محبت کرے وہ بدکردار ہو۔۔۔۔ تو
معاشرہ کیوں برداشت نہیں کرسکتا؟ جب منٹو غریب کے منہ سے بلواتا ہے کہ
زندگی کتوں والی ملی اور حساب انسانوں والا دینا پڑے گا تو کیوں معاشرے کو
فحش اور بے دین لگتا ہے؟
ایک لکھاری نے لکھا کہ منٹو کو ہر طوائف میں اچھائی اور ہر مولوی میں
بُرائی نظر آتی ہے۔ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے،لیکن طوائف کی گندگی کے
متعلق تو سب یک زبان ہیں منٹو اسی لیے منٹو ہے کہ اُس نے ظاہر سے آگے سوچا
،وہ وجہ تلاش کی جس کے باعث طوائف اور جسم فروش معاشرے کے لیے گالی بنی۔۔۔
منٹو کو جانکی کا بُرا فعل نظر آیا لیکن اُس کی بے بسی بھی نظر آئی ، اور
اُس میں آیا اور عورت کا خلوص بھی دیکھا۔۔۔اسی لیے منٹو طوائف سے نفرت نہیں
کرتا ،اسی لیے منٹو کے لیے وہ غلاظت کا ڈھیر نہیں ۔۔۔ حالانکہ اس میں سفید
پوش ہی منہ ماری کرتے ہیں ۔۔۔ منٹو کے لیے وہ انسان ہے،جیتا جاگتا سانس
لیتا اچھائی بُرائی محسوس کرنے والا انسان۔ورنہ جانکی کو کیا پڑی تھی کہ
بیماری کے باوجود عزیز کی آیا بنی رہے اور اُس کے لیے دھویں میں پھونکیں
مار مار کر پانی گرم کرتی رہے۔
لیکن پھربھی اگر کسی کے جذبات منٹو کے افسانے پڑھتے ہوئے مشتعل ہوتے ہیں تو
اُسے لٹریچر کی نہیں کسی ماہرِنفسیات کی ضرورت ہے،کیونکہ ایسے لوگ درختوں
پر پرندے دیکھ کر بھی مشتعل ہوسکتے ہیں اور آئے روز کی خبروں اور سوشل
میڈیا سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ تو چند ماہ سے لیکر چند سال کے معصوم بچوں کو
دیکھ کربھی مشتعل ہورہے ہیں اور اپنے افعال کے بعد اپنے اشتعال دلانے والے
/والی کو قتل بھی کردیتے ہیں(استغفراللہ) یقیناََ ان سب نے منٹو کے افسانے
نہیں پڑھے ہوں گے،اُن کے جذبات میں اشتعال کسی افسانے نے پیدا نہیں کیا
ہوگا ۔اُن کے دماغوں میں کجی ہے اور اُن کے سافٹ وئیر کرپٹ ہیں۔۔ہر ذی شعور
کوجس کے سافٹ وئیر میں کوئی خرابی نہ ہو، سلطانہ ،نیتی،سوگندی،جانکی ،
سمتری، صغرٰی اور کتاب کا خلاصہ نامی کہانی کے کردار بملا کی بے بسی پر
رونا ضرور آتاہوگا۔۔۔کیونکہ ان کرداروں میں بے بسی کے سوا کچھ بھی تو نظر
نہیں آتا۔۔۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ منٹو نے ان موضوعات کو کیوں چُنا؟۔۔۔ اس کا جواب بھی
اتنا ہی ہے کہ اُس نے کردار اپنے ارد گرد سے لیے وہ فلمی دنیا سے وابستہ
رہا ، مشاہدہ کیا اور لکھا۔وہ کوئی رومانوی داستان گو نہیں تھا ،جنہیں
ماورائی دُنیائیں ستاتی ہوں بلکہ ایک سرجن تھا جو چُن چُن کر ناسوروں کی
نشاندہی کرتا ،کیونکہ صحت مند معاشرے کی تشکیل کے لیے ان سےآگاہی اور ان کا
علاج ضروری تھا۔
منٹو کیا کہنا چاہتاتھا ۔۔۔وہ سچ کہنا چاہتا تھا صرف سچ جو مصلحت آمیز
نہ۔۔۔بس یہی کہ منافقت اُسے نہیں آتی ۔۔۔اور وہ کھلے گناہ کو منافقت اور
ریا بھری نیکی پر ترجیع دیتا تھا۔ اُسے دو رُخے لوگ پسند نہ تھے۔افسانہ
خورشٹ میں منٹو اور اُس کی بیوی صفیہ نے پارسی ڈاکٹر کی بیوی سے کراہت کا
اظہار کیا ہے،جواپنی ڈیڑہ سالہ بچی کو چھوڑ کر ڈاکٹر کاپڑیا کے سکھ دوست کے
ساتھ بھاگ جاتی ہے۔ ۔۔وہ کھلے عام کہتا ہے کہ پاکستان آزاد ہوا ہندوستان
آزاد ہوگیا لیکن انسان دونوں ملکوں میں غلام تھا ،مذہبی جنونیت کا ،تعصب
کا،حیوانیت اور بربریت کا۔۔۔ وہ اس پردے کو خطرناک کہتا ہے جو درپردہ نہ
کیاجائے۔۔۔وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر معاشرہ کوٹھوں پر جانے والے بے غیرت
اور شہوانیت بھرے لوگ پیدا کر سکتا ہے، تو اس معاشرے سے رنڈی پیدا کرنے پر
حیرانگی کیوں ہوتی ہے، یہ تو سیدھا سادھا طلب اور رسد کا قانون ہے۔۔۔ اگر
یہ باتیں غلط ہیں تو منٹوواقعی فحش نگار بھی تھا اور زبان دراز بھی۔۔۔اور
پابندی کے لائق بھی!۔۔
منٹو جو کہنا چاہتا تھا اُس کا ابلاغ ہوا؟۔۔۔۔بے شک کیونکہ میں لکی مروت
میں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں ۔۔۔ یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ پابندیوں سے سچ کی
آواز نہیں دب سکتی۔۔
وسیم خان عابدؔ
فروری 2019
|