22 فروری دو عظیم شخصیات کا یوم وفات

22فرورى ہر سال آتا ہے اور ہميں دو عظيم انقلابى شخصيات كى ياد دلا جاتا ہے،ان دونوں شخصیات کا زمانہ اگرچہ الگ الگہے لیکن ان ميں بہت سی فکری مماثلتیں موجود ہیں ، پہلى شخصيت برصغير كے نامور انقلابی ليڈر،تحريك آزادى كے علمبر دار، اما م الہند حضرت مولانا ابو الكلام آزاد رحمہ الله كى ہے۔

مولانا آزاد كا شمار برصغير كى ممتاز دينى ، مذہبى ،علمى اور سياسى شخصيات ميں ہوتا ہے،وه غير معمولى ذہن اور دماغ كے مالك تهے، ملت اسلاميہ كے بڑے قابل قدر اور نابغہ روز گار شخصيت تهے، اپنے علم وعمل، اخلاق واطوار ،وضع و تہذيب اور سيرت و كردار كے اعتبار سے بلند مقام پر فائز تهے، وه ايك عظيم اور قومى ليڈر كے طور پر سامنے آئے اور ديكهتے ہى ديكهتے پورے ملك پر چها گئے ،الله تعالى نے مولانا كو وسيع فكر ونظر اوربے پناہ سياسى شعور سے نوازا تها جس كى بنا پر انہوں نےمسلمانان برصغير كے دلوں ميں عظيم انقلابی روح پهونك دى اور يوں خواب غفلت ميں سوئى ہوئى قوم كو بيدار كر ديا ۔وه ايك عظيم صحافى اور قلم كار بهى تهے، ادب و انشاء ،تحرير وتصنيف كى بے پناه صلاحيتوں كے مالك تهے، مولانا اپنے عہد كے بلند پايہ خطيب بهى تهے، انہوں نے خطابت كو نيارنگ و آہنگ عطاء كيا اور اپنى خطابت كے بل بوتےپرمسلم قوم كى بيدارى كا سامان كيا۔ مولانا آزادرحمہ اللہ ايك عظيم قومى ليڈر اور سياست دان بهى تهے، انہوں نے برصغير كى سياست ميں اپنے فكر وتدبر كے گہرے نقوش بهى چهوڑے ،جس رائے كو ديانت داری سے حق سمجھااسےببانگ دهل برسر منبر بيان كر ديا،اورپھر اس پر ڈٹ گئے۔ان كى سياسى فكر سے اختلاف كى بہرحال گنجائش موجود ہے ،ليكن انكى ديانت اور صداقت پر انگلى نہيں اٹهائى جا سكتى ۔انہوں نے اپنےسیاسی فہم کے مطابق ملك كى تقسيم اور تحريك پاكستان كى مخالفت ضر ور كى ليكن پاكستان بن جانے كے بعد اسكى حقيقت كا اعتراف بهى كيا۔فرمايا"اب جبكہ پاكستان وجود ميں آگيا ہے تو ہم كو پاكستان كے كسى ليڈر يا كسى شخص كے متعلق اپنے دل ميں كوئى رنجش اور كدورت نہىں ركھنى چاہيے، اب پاكستان كے ساتھ ہمارا بالكل دوسرا رويہ ہونا چاہيے اور ہم سب كو دعا كرنى چاہيے اور تمنا كرنى چاہيے كہ پاكستان پهلےپهولے اور مستحكم ہو "۔ مولانا كى ذاتى اور مذہبى زندگى كيسى تهى ...؟ اس پر ناقدین نےبہت باتیں بنائیں اور بیان کیں،لیکن اصل حقیقت پرپردہ پڑا رہا،کیونکہ مولانا کا مزاج اس سےآشنا نہ تھا۔البتہ کچھ باتیں آپ کے مخلص دوستوں کے طفیل منظرعام پر آئیں ،چنانچہ اس سلسلہ میں مولانا كے محب خاص مولانا سعيد احمد اكبر آبادی رحمہ اللہ رقم طراز ہيں ۔مولانا اپنے كمر ے ميں زياده تر وقت مطالعہ ميں صرف كرتے تهے، قرآن مجيد سے انكو بڑا شغف تها ،وقت بے وقت اس كو اٹها ليا اور جهوم جهوم كر پڑھنا شروع كر ديا ۔بسااوقات ايك ہى آيت كو بار بار پڑهتے اور ہر مرتبہ آواز كے ساتھ انكى وضع نشست بدل جاتى تهى،مولانا اپنے اور ذاتى معاملات ميں جو اخفاء سے كام ليتے تھے وه تو ليتے ہى تهے، عبادت كے معاملے ميں بھی خصوصا بہت زياده اخفاٰٗکرتے تهے۔1936 ميں جب ميں پہلى مرتبہ چند روز كے ليے كلكتہ گيا تھا، تو ان دنو ں مجھےمولانا مفتى عتيق الرحمن صاحب عثمانی كى معيت ميں دو تين بار مولانا كى خدمت ميں بھى حاضرى كاموقع ملاتها ،اس وقت ميں نے ديكها كہ بات چيت كرتے كرتے اگر مغرب كى نماز كا وقت ہو گيا ہے تو مولانا نے نوكر كو آواز دى، اس نے جائےنماز لے كر بچها دى اور مولانا جس حالت ميں بيٹهے تھے اسى حالت ميں كهڑے ہو كر نماز ميں شريك ہو گئے يعنى وضو ء نہيں كرتے تھے، يہ گويا اسكى علامت تهى كہ عصركى نماز پڑهے ہوئے ہيں اور باوضوہيں ،ان نمازوں ميں وه ہميشہ مولانا مفتى عتيق الرحمن صاحب كو امام بناتے تهے ۔فرض نماز كے بعددو رکعت سنت كمال خشوع وخضوع سے پڑھتے اور تقریبادس بارہ منٹ ميں انہيں ختم كرتے تھے،اسكے بعد صوفے پر آنكھ بند كر كے بيٹھ جاتے تهے جيسے كوئى مراقبہ كر رہاہو۔ دس پندرہ منٹ بعد آنكھ كھولتے اور پهر گفتگو شروع كر ديتے تهےمگر یہ گفتگو ہلکی اورمدہم آوازمیں ہوتی تھی۔بہرحال مولانا اپنی حیات مستعار کےمتعین لمحات گزارکر وہاں چلے گئے جہاں سب کو جانا ہےاوریوںسر زمین اسلام مکہ مکرمہ میں اگست1888ءمیں طلوع ہونے والاعالم اسلام کامایہ نازآفتاب 22فروری1958ءمیں دہلی میں غروب ہوگیا۔۔۔۔۔حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔

دوسرى شخصيت پاكستان كے نامور عالم دین ،اپنی طرز کے بلند پایہ خطیب ،عظیم انقلابى فكر كے مالك ،تحريك تحفظ ناموس صحابہ كے سرخیل، امیر عزیمت ، حضرت مولانا حق نواز جهنگوى شہید رحمہ اللہ كى ہے۔

مولانا حق نواز جهنگوى شہيد 1952 ء ميں چاه كچىپ والا،موضع چيلہ ،ضلع جھنگ میں محترم ولى محمد مرحو م كے گھر پيدا ہوئے، پرائمرى تك تعليم وہيں حاصل كى۔ بعد از اں اپنے ماموں حافظ مولانا جان محمد صاحب سے قرآن كريم حفظ كيا ، ابتدائى دينى تعليم ملك كى معروف دينى درس گاه دارالعلوم كبير والا سے حاصل كى، وہاں آپ نے مولانا مفتى على محمد رحمہ اللہ، مولانا مظور الحق رحمہ اللہ اور مولانا عبد المجيد لدھيانوى رحمہ الله جيسے اساطین علم سے كسب فيض كيا ۔دوره حديث آپ نے جامعہ خير المدارس ملتان سے كيا، آپ كے اساتذه حديث میں مولانا محمد شريف كشميرى ، مولانا محمد صديق اورمولانامفتى عبد الستار رحمہم اللہ نماياں ہيں۔ رسمى تعليم سے فراغت كے بعد آپ جهنگ شہر ميں تشريف لائے اور خطابت كے ذريعے عوام الناس كى دينى رہنمائى فرمانےلگے ۔بلاشبہ آپ بلا كے خطيب تهے اور اپنى طرز خطابت كےخود ہی موجد تهے، آپ نے خطابت كو نيارنگ و ڈهنگ ديا ، جوش و جذبہ اور ولولہ آپ كى خطابت كا جز و خاص تها ،آپ كے ہمعصر حضرت مولانا الله وسايا صاحب نے آپكى خطابت كا صحيح نقشہ كهينچا ہے ،" مولانا حق نواز صاحب رحمہ الله كى گفتگو ميں معلوما ت و دلائل كى فراوانى ، الفاظ كا سيلاب اور جذبات كا سمندر رواں ہوتا تها، وه ہر موضوع پر تيارى كر كے آتے تهےاور دلائل و جذبات كے ساتھ موجزن ہوتے تهے، وه اپنى مربوط گفتگو اور مسلسل خطاب ميں الفاظ كا بے دريغ استعمال كيا كرتے تهے بلكہ ان سے كهيلا كرتے تهے، جس موضوع پر اظہار كرتے بے تكان كرتے ، جس دريا كو عبور كرتے ، كناره پر پہنچ كر جس كشتى ميں دريا عبور كر آئے ہوتے سب سے پہلے اسے جلا ديا كرتے تھے تاكہ واپسى كا شائبہ تك نہ رہے ،اس ليے جس موضع پر گفتگو كرتے وه حرف آخر كا درجہ ركھتى تهى "۔آپ کی خطابت مختلف عنوانات کے گرد گھومتی تھی ،اسلام کی حقانیت،شعائر اسلام،توحید و سنت،سیرت رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم،تحفظ ختم نبوت اورعظمت صحابہ وشان اہل بیت اورحضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت وناموس کے دفاع وتحفظ کے موضوع پرکچھ اس انداز سے اپنا درد دل بیان کرتےکہ لاکھوں انسانوں کے دلوں میں محبت صحابہ واہل بیت کی شمع روشن کردیتے تھے۔عوامی خطیب تھے ،اس لئے عوام کے ساتھ ہمدردی،غمگساری،میل جول،اپنائیت،بے لوث جذبہٗ خدمت سے سرشار رہتے تھے۔اخلاص وتقویٰ،للہیت، خداخوفی جیسی صفات سے مالامال اور سب سے بڑھ کر اپنے کاز ومشن پرسوفیصد مخلص تھے اور اس کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہتے تھے ،اس لئے بہت جلداپنےمحبین اور عقیدت مندوں کا ایک وسیع حلقہ قائم کرلیا تھا۔ الله تعالى نے آپكو حق گوئى، جرت رندانہ اوراجلے کردار سے نوازا تها اسليے آپنے جس بات كوحق سمجها ،ببانگ دهل بيان كرديا ۔ضلع جهنگ مذہبى لحاظ سے ہمیشہ سےحساس رہا ہے وہاں كے مخصوص حالات كى وجہ سے آپ كى خطابت وگفتگو میں تلخى كا عنصرضرور نمايا ں تها ليكن وه شایدكسى مجبورى كى وجہ سے تها اس لئےاس سلسلہ ميں آپ معذور اورمغلوب الحال تھے۔لیکن بہرحال آپ بشر تھےاور بشری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے مبرا نہیں تھے ،آپ سے محبت کر نےوالوں کی تعداد اگر لاکھوں میں ہے تو ناقدین کی بھی کمی نہیں ۔آپ کے ناقدین آپ کی زندگی میں بھی اور شہادت کے بعد بھی آپ کے موقف ومشن کو درست سمجھنے کے باوجودبھی طریقہ کار سےاختلاف کرتے رہے ہیں۔بہرحال آپ آندہی بن کر ٓائےاورطوفان بن کرگرجے برسےاور جلد منظرنامہ سے غائب ہوگئے۔22فروری 1990ءکوآپ شہادت کی خلعت فاخرہ پہن کرعالم بقا کوسدھار گئے۔۔۔۔۔۔۔خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را۔
 

Mufti Muhammad Asghar
About the Author: Mufti Muhammad Asghar Read More Articles by Mufti Muhammad Asghar: 11 Articles with 11816 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.