پلوامہ کا پہلا انتقام تو اس وقت لےلیا گیا جب ۱۰۰ گھنٹے
کے اندر پلوامہ کے پنیگلانا گاؤں میں دو انتہا پسندوں کو ہلاک کر دیا
گیا۔ان میں سے ایک پلوامہ حملے کے لیے بم بنانے والا غازی رشید اور دوسرا
مسعود اظہر کا قریبی جیش کمانڈر کامران غازی تھا۔ اس تصادم میں چونکہ
سلامتی دستوں کے ایک میجر سمیت چار جوانوں کی بھی موت ہوئی اس لیے حکومت
زیادہ داد نہیں ملی ۔ اس کے بعد حزب اختلاف کی جانب سے تیکھے سوالات پوچھے
جانے لگے اور ہرکوئی ۵۶ انچ والے سینے کو نشانہ بنانے لگا ۔ اس بیچ اچانک
خبر ملی کہ اس گاڑی کا سراغ لگ گیا ہے جس میں دھماکہ خیز آر ڈی ایکس لایا
گیا تھا۔ جس طرح انسان کے ڈی این اے سے اس شناخت ہوجاتی ہے اسی طرز پر
تفتیشی ایجنسی نے اس گاڑی کا شجرۂ نسب معلوم کرلیا ۔ تفتیشی ایجنسی این
آئی اے کے مطابق کار کے ٹکڑوں کی فارنسک جانچ اور آٹو موبائل ماہرین کی
مدد سے چیسس اور انجن نمبر کا پتہ لگایا گیا جس سے کار کا ماڈل ہوگیا ۔ اس
کے بعد معمہ کھلتا چلا گیا ۔
۲۰۱۱ میں اننت ناگ کے محمد جلیل احمد حقانی کووہ گاڑی بیچی گئی تھی۔ اس کے
بعد یہ کار۷ لوگوں کو بیچی گئی اور بالآخر ۴ فروری کو اننت ناگ کےسجاد بھٹ
نے خریدی۔شوپیاں میں واقع سراج العلوم کا طالب علم گرفتاری سے بچنے کے لئے
فرار ہے ۔ اب تو یہ انکشاف بھی ہوگیا کہ سجاد بھٹ جیش محمد میں شامل ہو گیا
ہےاور سوشل میڈیا پر ہتھیار پکڑےاس کی تصویر بھی آگئی ہے۔ ۳۵۰ کلو آر ڈی
ایکس سے لدی گاڑی جس کے پرخچے اڑ گئے ہوں کی اس قدر تفصیلی معلومات کا
فراہم ہوجانا یقیناً بہت بڑا کارنامہ تھا کہ دوسرا عظیم کارنامہ یعنی
سرجیکل اسٹرائیک بھی انجام پا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ اب آخری ووٹ کے گرنے
تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ سرجیکل اسٹرائیک ۔ ۲ پہلے کے مقابلے بڑا زبردست
تھا۔ اس میں ۱۲ طیارے رات ۳ بجے پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے اور ۲۱ منٹ
تک ۱۰۰۰ کلو بم برسا کر لوٹ آئے ۔
جیش محمد کے اس کیمپ کو مسعود اظہر کا سالا یوسف غوری چلاتا تھا ۔یوسف کے
موت کی تصدیق تو نہیں ہوئی لیکن اگر وہ ہلاک ہوگیا ہوگا تو مسعود اظہر کی
کی بیوی اپنے بھائی کی ہلاکت کا انتقام لے کر رہے گی اور سارا مسئلہ حل
ہوجائے گا۔ یہ حملہ جس لیزر کی تکنیک کی مدد سے کیا گیا اس میں لاشوں کو
گننے کی بھی صلاحیت ہے اس لیے پتہ چل گیا کہ جملہ ۵ کیمپوں اور ایک کنٹرول
روم میں ۲۰۰ دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ یہ خبر پہلے آئی لیکن بعد میں ٹائمز نے
بتایا کہ ۳۰۰ لوگ ہلاک ہوئے شاید اس کے پاس زخمیوں کی ہلاکت کا شمار بھی ہو
اس لیے ان کے اضافہ سمیت یہ تعداد ۳۰۰ پر پہنچ گئی ۔ اروند کیجریوال نے
چونکہ ۴۰ کے جواب میں ۴۰۰ کا مطالبہ کیا تھا اس لیے اور ۱۰۰ زخمیوں کا دم
توڑنا باقی ہے۔ خیر ہوسکتا ہے کل پرسوں تک وہ شمار پورا ہوجائے یا اس کے
لیے پ لنگ کے دوران ایک اور سرجیکل اسٹرائیک کی ضرورت پیش آجائے لیکن اسے
۴۴۰ تک تو جانا ہی چاہیے۔
اس سرجیکل اسٹرائیک کا مہورت یقیناً کسی سیاست کے ماہر جیوتش نے نکالا تھا
۔ اسے پتہ تھا بابری مسجد کی سماعت کے دوران جسٹس بوبڑے عدالت کی نگرانی
میں باہمی مصالحت کی پیشکش کریں گے ۔ اس کو یہ بھی پتہ تھا کہ ہندو فریق اس
کی مخالفت کرے گا اور مسلم فریق حمایت اور عدالت مسلم فریق سے اتفاق کرے گی
۔ وہ جیوتش جانتا تھا کہ دستاویزات کے ترجمہ پر بھی اختلاف ہوجائےگا ۔ ہندو
فریق اس پراطمینان کا اظہار کرے گا مگر مسلم فریق مطالعہ کے لیے وقت مانگے
گا اور عدالت ۸ ہفتوں کی مہلت عنایت فرما دے گی ۔ اس طرح عدالت کا فیصلہ تو
دور اس کی سماعت بھی انتخابی نتائج کے بعد تک کے لیے ٹل جائے گی ۔ ان سارے
فیصلوں سے سنگھ پریوار کے بھکتوں میں ناراضگی اور مایوسی کا پھیلنا فطری
ہے۔ اس پر سے مودی جی کے نور نظر ایم جے اکبر نے می ٹو معاملے میں جس پریہ
رمانی پر ہتک عزت کا دعویٰ کیا ہے اس کو ضمانت بھی مل جائے گی ۔
اس جیوتش کو یہ بھی پتہ تھا کہ منصف اعظم ترون گوگوئی اسی دن میگھالیہ ہائی
کورٹ کے جج ایس آر سین کی یہ کہنے پرکہ ‘پاکستان نے خود کے اسلامی ملک ہونے
کا اعلان کیا تھاچونکہ ہندوستان کی تقسیم مذہب کی بنیاد پر ہوئی تھی اس لئے
ہندوستان کو ہندو راشٹر اعلان کیا جانا چاہیے تھا لیکن اس نے خود کو سیکولر
ملک بنائے رکھا‘ کھنچادئی ہوگی اور سپریم کورٹ کی طرف سے نوٹس دیا جائے
گا۔ان باتوں کا ہندوتواوادی رائے دہندگان اچھا اثر نہیں پڑے گا ۔ اس لیے
کوئی ایسی خوشی خبری آنی چاہیے جس سے سارے غم غلط ہوجائیں ۔ اسی کے پیش
نظر ماہر جیوتش نے سرجیکل اسٹرائیک کا مہورت نکال کر دے دیا۔ اس جیوتش کا
پتہ لگانا ہو تو راج ٹھاکرے کی تجویز کے مطابق اجیت ڈوبھال کی تفتیش کے
دوران یہ سوال بھی پوچھاجاسکتا ہے۔
سرجیکل اسٹرائیک کے لیے اکھلیش سے لے کر مایاوتی تک اور اروند کیجریوال سے
راہل گاندھی تک سب نے فضائیہ کو سلام کیا ہے ؟ بی جے پی کا مطالبہ ہے کہ
وزیراعظم کو بھی سلام کیا جائے ۔ وزیراعظم اگر پلوامہ کی ذمہ داری قبول
کرتے تو اس انتقام کا کریڈٹ بھی لیتے ۔ پلوامہ اگر پاکستانی حکومت کی نہیں
بلکہ جیش کی کارروائی تھی تو یہ بھی حکومت ہند کی نہیں ہندی فوج کا اقدام
تھا۔ اس ضمن میں وزیراعظم نے راجستھان کے جلسۂ عام میں کہا کہ ’’ پورے ملک
میں آج خوشی کا ماحول ہے۔ ملک سے بڑھ کرکچھ نہیں ہوتا ہے۔ نہ اٹکیں گے، نہ
رکیں گے، ہم آگے بڑھتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ویرسپوتوں کی ماتاوں
کوسلام کرتے ہیں‘‘۔
یہ چونکہ انتخابی مہم جلسہ کی تقریر تھی اس لیے وزیراعظم نے بہادروں کی
ماوں سے یہ توقع کرتے ہوں گے کہ وہ اس کے عوض ان کے ہاتھ مضبوط کریں گی
لیکن فوجیوں کی بیویوں کے پیغامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نامعلوم لوگوں
کی موت سے مطمئن نہیں ہوں گی ۔ نیوز ۱۸ سے بات کرتے ہوئے کانپوردیہات کے
شیام بابوشہید کی بیوی روبی نےکہا کہ ہندوستان کوپاکستان کے خلاف اس سے بھی
بڑی کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیںاس دن کا انتظار ہے جب
پلوامہ حملےکا ماسٹرمائنڈ حافظ سعید کی موت ہوگی۔انہوں نے وزیراعظم مودی
کوپیغام دیا کہ ہم مودی حکومت سے یہی کہیں گے خون کا بدلہ خون سے لیں۔اسی
طرح دیوریا ضلع کے رہنے والے وجے کمارموریہ کی بیوی وجے لکشمی نے بھی نیوز
۱۸ سے کہا کہ وزیراعظم نریندرمودی کوپلوامہ حملے کے پیچھے موسٹ وانٹیڈ دہشت
گرد اورماسٹرمائنڈ حافظ سعید کوموت کے گھاٹ اتاردینا چاہئے، جس سے پاکستان
کوایک بڑا پیغام جائے۔ اب مودی جی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان
لوگوں کو کیسے قائل کریں ؟ اس لیے انتخاب سے قبل ایک اور سرجیکل اسٹرائیک
کر نا لازم ہوگیا ہے ۔ اس کے بغیر راہل گاندھی اور کیجریوال تو مان جائیں
گے لیکن ملک کے عوام نہیں مانیں گے ۔
مودی جی جس وقت راجستھان کے چورو میں سینہ ٹھونک کے کہہ رہے تھے کہ ملک
محفوظ ہاتھوں میں ہے اس وقت ان کے اپنے حلقہ انتخاب وارانسی میں واقع اودئے
پرتاپ سنگھ کالج کے طالبعلم وویک سنگھ کے انتم سنسکار کی تیاری چل رہی تھی
۔ وویک سنگھ اعظم گڈھ کے جامن ڈیہہ کا رہنے والا تھا ۔ اس نے کندن سنگھ کے
خلاف کالج یونین کے انتخاب میں مہم چلائی تھی اور اس بار صدارت کا انتخاب
لڑنے کی تیاری کررہا تھا ۔ کندن حال میں جیل سے ضمانت پر چھوٹ کر آیا ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا وویک سنگھ کے قاتلوں کو یوگی سرکار کیفرِ کردار تک
پہنچائے گی ؟ اگر وہ ایسا نہیں کرسکی تو کیا وویک کی ماں محض اس لیے کمل پر
مہر لگا دے گی مودی جی نے سرجیکل اسٹرائیک کرکے بدلا لےلیا تھا۔
اس سوال پر بھی غور کرنا ہوگا کہ یوگی سرکار میں کندن جیسے لوگوں کے حوصلے
اتنے بلند کیوں ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے حریف طالبعلم کو گولیوں سے بھون ڈالتے
ہیں؟ اس کا جواب پوروانچل یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقریر میں ہے ۔راجہ
رام یادو نے بھرے جلسہ میں کہا تھا کہ اگر تم پوروانچل یونیورسٹی طالبعلم
ہوتو کسی سے جھگڑا کرکے میرے سامنے روتے ہوئے مت آنا۔ ہاں اگر پیٹ کے یا
پھر قتل کرکے آئے تو میں دیکھ لوں گا۔ وویک کے قاتل یقیناً یادو جیسے کسی
وائس چانسلر کی شرن میں ہوں گے ۔ کیا یوگی جی انہیں گرفتار کرواکر وویک کے
گھر والوں کو انصاف دلوائیں گے یا پھر وزیراعظم کو مبارکباد دے کر رہ جائیں
گے۔ اس لیے کہ یہ وزیراعظم حلقۂ انتخاب کا معاملہ ہے۔ |