ملک ہندوستان ابھی داخلی و خارجی طور پر سخت حالات سے
گزر رہا ہے۔ مدتوں سے وادیِ کشمیر لہولہان ہے۔ بدامنی کا شکار ہے۔ تناؤ کی
کیفیت نے وادی کے حسن کو کمھلا دیا ہے۔ حالات کے پس پشت سلجھاؤ کی جگہ
سیاست محسوس ہوتی ہے۔ یہ صورت حال طویل مدت سے برقرار ہے۔ پھر حالیہ سانحہ
جس میں فوج کی بڑی نفری پر دہشت گردانہ حملہ سخت رنج کا باعث ہے۔ اس سے
سارے ہندوستانی مبتلائے رنج ہیں۔ ہمیں ہر ہندوستانی بلکہ انسانیت کی زندگی
عزیز ہے۔
[۱] تشدد کا خاتمہ ضروری: کسی بھی مسئلے کا حل تشدد نہیں ہے۔ نہ ہی مسائل
کے ضمن میں سیاسی ایجنڈہ کار آمد ہوگا۔ چوں کہ فوجیوں کو خودکش حملہ میں
نشانہ بنایا گیا۔ جو تشدد کی بدترین مثال ہے۔ اس انسانیت سوز عمل کی جتنی
مذمت کی جائے کم ہے۔ اس میں جیش محمد نامی تنظیم کے شامل ہونے کی بات کہی
جا رہی ہے۔ واضح ہو کہ مذکورہ تنظیم کے نام اسلامی ناموں سے ملتے جلتے ہیں۔
لیکن نہ تو ان کے اعمال اسلام کے مطابق ہیں، نہ ہی اسلام ایسے تشدد کی
اجازت دیتا ہے۔ اس لیے اس تناظر میں فرقہ پرست قوتوں کا مسلمانوں کو مشکوک
نگاہ سے دیکھنا بھی سخت افسوس ناک ہے۔ جسے صحیح الدماغ آدمی قبول نہیں کر
سکتا۔ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ تشدد کے حامل افراد کو سخت سزا دی جائے
چاہے وہ سرحد پار کے ہوں یا پھر ہمارے ملک کے ہوں۔
ماضی میں گؤ رکھشا کے نام پر آتنک وادیوں نے جس طرح سے محض شک کی بنیاد پر
عام مسلمانوں کا قتل کیا وہ بھی سخت مذموم ہے۔ یوں ہی مسلمانوں سے اس ملک
میں جو بھید بھاؤ کی پالیسی اپنائی جا رہی ہے اس کی بھی تائید نہیں کی جا
سکتی۔ بلکہ یہ سب اعمال بھی تشدد/دہشت گردی کی شکلیں ہیں۔ جس کی سمت حکومت
کا متوجہ نہ ہونا انصاف کے منافی ہے۔جمہوری اقدار کی یہ پامالی ہے کہ ملک
کی بہت بڑی اقلیت ’’مسلمانوں‘‘پر نشانہ سادھا گیا ہے۔
ملک آزاد ہے۔ آئین کے مطابق آزادی ہر بھارتی کا دستوری حق ہے۔ اس ضمن میں
کشمیری عوام کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ان کے ساتھ دوہرا رویہ بھی
لائق غور ہے۔ انھیں زیادتیوں کا سامنا ہے۔ دہشت گردوں کی آڑ میں عوام اور
امن پسندوں کو ہرگز ستایا نہیں جا سکتا۔ اگر کشمیر میں کوئی واردات واقع
ہوئی ہو تو اس میں جو ملوث ہیں ان پر کارروائی ہو۔ لیکن دہشت گردوں کی آڑ
میں بے گناہوں کے ساتھ زیادتی ظلم و ستم ہے؛ اس تشدد پر بھی لگام کسی جانی
چاہیے۔ جب ہم کشمیر کو ملک کا اٹوٹ حصہ مانتے ہیں تو پھر کشمیری بھی اس ملک
کا حصہ ہیں جن کے ساتھ انصاف، بھلائی، محبت کا معاملہ ناگزیر ہے۔ اس ضمن
میں سیاسی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ہمدردانہ جذبات کو فروغ دیا جانا
چاہیے۔
[۲] امن کا قیام: یہ کہا گیا کہ بھارتی فوج نے پڑوس میں آتنک واد کیمپوں پر
بمباری کی۔ سیکڑوں کو ہلاک کیا۔ اگر واقعی آتنک وادی ختم ہوئے تو خیر مقدم!
جتنی عسکری تنظیمیں ہیں ان کا اسلامی تعلیمات سے رشتہ و تعلق نہیں، وہ
اسلام کی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ ان کا وجود انسانیت کے لیے خطرہ ہے۔ ہم تشدد
کے خاتمے کے قائل ہیں۔اس لیے ایسے تمام متشدد گروہ کو قانونی کارروائی کے
دائرے میں لانا چاہیے۔ اس ضمن میں ہم پاکستان سے بھی ان کے یہاں پل رہے
متشدد گروہوں پر سخت کارروائی کے خواہاں ہیں۔ اس لیے امن کی راہ میں جو
رکاوٹ ہو اسے دور کیا جائے۔ حقوق بحال کیے جائیں۔ چاہے وہ اس ملک کی دیگر
ریاستوں کے واسیوں کے حقوق کی بات ہو یا اہلِ کشمیر کے حقوق کی۔ بہر کیف
اگر حقوق بحال ہوں تو مشکل ہے کہ کوئی نوجوان غلط روی کا شکار ہو۔ کشمیر
میں روزگار اور تعلیم کے مسائل حل کر کے بھی تشدد کی راہوں کی حوصلہ شکنی
کی جا سکتی ہے۔ قیام امن کے لیے حتی المقدور لائحۂ عمل تیار کرنا چاہیے۔
[۳] تدبر کی ضرورت: بی جے پی حکومت نے اپنے قیام سے ہی منفی پالیسیوں کو
راہ دی ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک میں اقلیتی طبقوں سے نفرت میں اضافہ ہوا
ہے۔ جس کا راست اثر ملک کی ترقی پر پڑا ہے۔ جب کہ تدبر کا تقاضا یہ تھا کہ
ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے نفرتیں مٹائی جاتیں اور ایسی تدابیر اختیار کی
جاتیں کہ جن سے تعصب کی حوصلہ شکنی ہو، لیکن لگتا ہے کہ حکومتی مشنریاں
مسلم دشمنی کے جذبات پروان چڑھا رہی ہیں۔ جبھی تین طلاق، ذبیحہ،حقوقِ
نسواں، بابری مسجد جیسے خالص مذہبی معاملات پر بحثیں کی جا رہی ہیں۔ مسلمان
اپنے شرعی فیصلوں سے مطمئن ہیں۔ شرعی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں تو اس
مذہبی آزادی کو غلامی کی سمت لے جانے کی کوشش کرنا کون سی دانش مندی ہے!!
حکومت کو چاہیے کہ ملک میں قیام امن کے لیے جدوجہد کرے۔ ملک کے تمام
باشندوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنائے۔ ظلم کے تمام راستوں کے خاتمہ کے
لیے جدوجہد کرے تا کہ یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو اور تشدد کی
صورتیں ختم ہوں۔اسی میں مسئلے کا حل بھی ہے اور ملک کی تعمیر و ترقی کی
منزل کا حصول بھی۔
٭٭٭
|