کالعدم تنظیموں کا عفریت

 ریاست پاکستان نے ایک بار پھر کالعدم انتہاپسند تنظیموں کے خلاف ایکشن لینے کا فیصلہ کیا ہے لیکن کیا ان تنظیموں کے سربراہان اور ممبران کو گرفتار کرنے ، انکے اثاثے قبضہ میں لینے اور اکاؤنٹ منجمند کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟لیکن اس سے بھی پہلے کیا یہ جاننا ضروری نہیں کہ مسئلہ آخر ہے کیا اور یہ تنظیمیں جو کچھ کرتی ہیں وہ کیوں کرتی ہیں؟اور ایک سوال اور کہ افراد کو تو قید کیا جا سکتا ہے لیکن انکی سوچ کو کیسے قید کریں گے، اس نظریہ ، اس فلاسفی کا کیا کریں گے جو ان تنظیموں کے ممبران کو motivateکرتی ہے وہ عمل کرنے پر جو ریاست کے نکتہ نظر سے غلط ہے ۔ اور یہ کہ کتنوں کو جیل میں ڈالیں گے ، انکی بھرتی تو روزانہ کی بنیادوں پر ہو رہی ہے اسکے آگے بند کیسے باندھیں گے ؟ کیا ریاست پاکستان نے انکے نظریہ اور سوچ کو شکست دینے کیلئے کوئی متبادل نظریہ بنایا ہے ۔ کیا کوئی ایسی متبادل سوچ، ایسا نعرہ ایجاد کیا گیا ہے جو ان تنظیموں کے افراد کو اپنی طرف مائل کرسکے ۔ یہ درست ہے کہ بندوق صرف ریاست کے پاس ہونی چاہیے لیکن ان تنظیموں کے افراد کے ہاتھ میں جو بندوقیں ہیں وہ ریاست کیسے رکھوائے گی، کیا ریاست اپنی بندوق سے انہیں مار کر ان کی بندوقوں کو اپنے قبضہ میں لے گی یا پھر کچھ ایسا کرئے گی کہ یہ خود اپنی بندوقیں ریاست کے حوالے کر دیں؟اور پھر ان تنظیموں کی سیاسی سرپرستی اور معالی معاونت کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا، کیا ان تنظیموں کو ملک کے اندر اور باہر اپنے ذاتی مفادات اور ایجنڈے کیلئے استعمال کرنے والوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا؟کیا APSکے واقعہ کے بعد بننے والا نیشنل ایکشن پلان اتنا جامع اور وسیع ہے کہ جس پر عمل کرتے ہوئے اس پیچیدہ مسئلے کو حل کیا جا سکے ، اور یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا اس بار ریاست اس مسئلے کو حل کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے یا پھر ساری کاروائی بھارت، FATFاور عالمی برادری کو وقتی طور پر ٹھنڈا کرنے کیلئے کی جا رہی ہے کیونکہ ان تنظیموں کے خلاف کاروائی کا اعلان پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ماضی میں بھی ان کے خلاف کاروائی کا عندیہ دیا جاتا رہا ہے لیکن وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جو ہونے چاہیے تھے ۔
مسلحہ تنظیمیں ایک عرصے سے ریاست پاکستان کیلئے درد سر بنی ہوئی ہیں ۔ایک لمبی تاریخ ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مختلف ادوار میں کسطرح سے ان تنظیموں کوبنایا گیا، انکی سرپرستی کی گئی اور انہیں ترقی کرنے کیلئے ساز گار ماحول اور وسائل مہیا کیئے گے۔ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کسطرح اسلام کے نظریہ جہاد کو ان تنظیموں کیلئے ایک Motivational Forceکے طور پر استعمال کیا گیا ۔ایک لمبے عرصہ تک ان تنظیموں کے افراد کے اذہان کو جذبہ جہاد سے سرشار رکھا گیا اور انکی تربیت کی گئی ۔ انہیں لڑنے کا ہنر سکھایا گیا ۔ پھر ایک وقت آیا کہ یہ تنظیمیں سرکاری سرپرستی سے نکل گئیں اور انہوں نے آزادانہ طور پر operateکرنا شروع کر دیا۔ کسی نے کشمیر کو اپنی جنگ کا میدا ن سمجھا تو کوئی افغانستان میں ہی لڑتا رہا چونکہ انہیں تیار ہی لڑنے کیلئے کیا گیا تھا اور تو کوئی ہنر ان کو سکھایا ہی نہیں گیا تھا تو پھر یہ اور کرتے بھی کیا۔ جب ان تنظیموں نے آزادانہ طور پر operateکرنا شروع کیا تو وہی ایک نکتہ تھا جہاں ریاست پاکستان کو ان تنظیموں کو روکنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ کیا گیا اور اسطرف سے آنکھیں موند لی گئیں اور اب جب ریاست نے آنکھیں کھولی ہیں تو یہ تنظیمیں ایک ایسا عفریت بن چکی ہیں جس کوقابو کرنا اتنا آسان نہیں رہا ۔ یہ اپنی مرضی سے جہاں چاہتے ہیں کاروائی کرتے ہیں اور مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے پاکستان کیونکہ دنیا اس تاریخ سے واقف ہے جہاں کبھی پاکستان ان تنظیموں کو اپنا اثاثہ مان کر چلتا تھا ۔ مگر یہ حقیقت پاکستان سمجھ چکا ہے کہ اب یہ تنظیمیں اثاثہ نہیں بلکہ ذمہ داری بن چکی ہیں ۔ پاکستان کے سامنے اب یہ سوال کھڑا ہو چکا ہے کہ اس ذمہ داری سے کیسے سبکدوش ہوا جائے ؟

فوج کی ان تنظیموں کے بارے میں فلاسفی یہ ہے کہ یہ بھٹکے ہوئے لوگ ہیں چونکہ ہمارے اپنے ہیں لہذا انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی جائے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے ۔ ان کیلئے تعلیم ، روزگار اور صحت کی سہولیا ت فراہم کی جائیں اور انہیں ایک نارمل زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے ۔ لیکن یہ ایک Innocent Theoratical Approachہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ بھٹکے ہوئے لوگ صحیح راستے کی طرف لوٹنا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟یہ بھی دیکھنا ہے کہ کیا وہ وجوہات ختم ہو چکی ہیں جن وجوہات نے ان افراد کو بندوق اٹھانے پر مجبو ر کیا ؟ اگر پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ ان تنظیموں پر پابند ی لگا کر ، انکے دفاتر سیل اور اثاثے منجمند کرکے ان تنظیموں کو ختم کیا جا سکتا ہے تو میں اسے پاکستان کی سادگی ہی کہونگا۔ ذرا سوچیں جو تنظیمیں پچھلی کئی دہائیوں سے مسلحہ کاروائیوں میں مصروف ہیں انہوں نے اپنی جڑیں کتنی مضبوط کر لی ہونگی۔ انکا نام نہاد نظریہ جہاد کتنا پروان چڑھ چکا ہوگا ۔ کیا ان کو یک دم یہ احساس ہو جائے گا کہ انکا نظریہ جہاد موجودہ وقت سے مطابقت نہیں رکھتا ، کیا انہیں یہ بات باور کرائی جاسکتی ہے کہ انکی سوچ غلط ہے جبکہ ان کے ارد گرد دنیا ویسی کی ویسی ہے ۔ظلم وزیادتی اب بھی ہو رہی ہے، مسئلہ کشمیرجوں کا توں ہے، افغانستان اور فلسطین اب بھی لہو لہان ہیں۔جب تک یہ وجوہات ہیں ان تنظیموں کا وجود قائم رہے گا۔

اور پھر کیا پاکستان کا ازلی دشمن ہندوستان جو ایسی بہت ساری تنظیموں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے کیا وہ ایسا ہونے دیگا؟اور ان سب کے پیچھے کہیں نہ کہیں امریکہ بھی چھپا بیٹھا ہے پھر اسرائیل کا کیا کریں گے جو پاکستان کے خلاف بھارت کے شانہ بشانہ کھڑا ہے ۔ معاملہ اتنا سیدھا نہیں جتنا نظر آتا ہے اور حل اتنا آسان نہیں جو ہم سوچ رہیے ہیں اور کرنے جا رہے ہیں ۔یہ ذہن میں رکھیں کہ جنوبی ایشیا میں ایک پیچیدہ پراکسی وار جاری ہے جس میں اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ کونسی تنظیم کس ملک کی پراکسی کے طور پر سر گرم عمل ہے ۔

پھراصل مسئلہ تو کشمیر کا ہے ۔ ہندوستان کا مسئلہ یہ کالعدم تنظیمیں نہیں بلکہ وہ حمائت ہے جو کشمیر کو پاکستان سے حاصل ہے۔ کشمیر کے غیور مسلمان اپنی بقا اور آزادی کی جو جنگ لڑ رہے ہیں پاکستان نے ہمیشہ اسکی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمائت کی ہے ۔ بھارت دراصل اسی حمائت سے خائف ہے اور چونکہ وہ آزادی کی جنگ کو دہشتگردی سے تعبیر کرتا ہے اسلیئے وہ اس حمائت کو دہشتگردی کی حمائت اور پشت پناہی کا نام دیتا ہے ۔ پاکستان کیلئے اصل مسئلہ یہیں پر پیش آتا ہے اور دیکھنا بھی یہی ہے کہ پاکستان کشمیر کی جدو جہد آزادی اور دہشتگردی کے درمیان کسطرح توازن قائم کر تا ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں صبح شام ایک جنگ جاری ہے اور کشمیریوں اور بھارتی فوجیوں کے درمیان آئے روز مسلحہ تصادم ہوتا رہتا ہے ۔ پلوامہ اور اڑی جیسے واقعات اسی جنگ کا حصہ ہیں ۔ یہ کاروائیاں کشمیریوں نے کیں ، اگر جنگ کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ کاروائیاں جنگ کا حصہ ہیں لیکن چونکہ بھارت ایسی کاروائیوں کو دہشتگردی قرار دیتا ہے لہذا وہ ان کاروائیوں کے پیچھے پاکستان کو تلاش کرتا رہتا ہے ۔ پاکستان یہ تو کہتا ہے کہ کشمیر میں آزادی کی جنگ جاری ہے لیکن وہ پلوامہ اور اڑی جیسی کاروائیوں کی مذمت کرتا ہے ۔ یہیں پر پاکستان کا موقف شک کے دائرے میں آتا ہے کیونکہ ایک طرف تو پاکستان کشمیر کی جدو جہد آزادی کی حمائت کرتا ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ کشمیری نوجوان بھارت کے خلاف اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، اگرتو یہ آزادی کی جنگ ہے تو پھر اس کے تحت ہونے والی پلوامہ اور اڑی جیسی کاروائیاں دہشتگردی کے زمرے میں کیسے آسکتی ہیں ؟ یا تو پاکستان کشمیر میں جاری جدو جہد آزادی کو درست مان کر ان کاروائیوں کو اسکا حصہ قرار دیکر انکی مذمت کرنا بند کر دے یا پھر آزادی کی جنگ کی حمائت کرنا چھوڑ دے ۔ یہ دہرا پن پاکستان کیلئے درست نہیں۔

واضح رہے کہ ان تنظیموں کے پاس ایک نظریہ ہے ایک جواز ہے جو انتہائی مضبوط ہے ۔ ان تنظیموں کو بین کر دینے سے انکا نظریہ ختم نہیں ہو جاتا اور جب تک نظریہ رہے گا تنظیم رہے گی ۔ اگر انہیں ختم کرنا ہے تو پہلے انکے نظریہ کو ختم کریں اور نظریہ کو گولی سے نہیں بلکہ نظریہ کو نظریہ سے ہی شکست دی جا سکتی ہے ۔ ایک متبادل نظریہ بنائیں اور اسکی تجوید کریں ۔ ان بھٹکے ہو ئے لوگوں کو راہ راست پر لانا ہے تو انہیں ایک متبادل سوچ دیں ایک متبادل نظریہ دیں۔ ان وجوہات کو ختم کریں جو so calledجہادی پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں بصورت دیگر ریاست کبھی انہیں شکست دینے میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔
 

Zahid Abbasi
About the Author: Zahid Abbasi Read More Articles by Zahid Abbasi: 24 Articles with 22472 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.