مورخہ ٧ اکتوبر ٢٠١٨ کو کراچی کے نجی اسکول میں بچے کی
خودکشی کا واقعہ ہوا۔ڈاکٹر،پولیس،اور اسکول انتظامیہ کے مطابق بچہ شوگر کا
مریض تھا اور اسے کبھی کبھار مرگی کے دورے بھی پڑتے تھے۔ بچے نے پہلے بھی 4
سے 5 دفعہ خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔پاکستان میں خودکشی کا یہ پہلا واقعہ
نہیں ۔اقوام متحدہ کے زیلی ادارے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق، سات
ہزار سے زاٸد پاکستانی ہر سال خودکشی کرتے ہیں۔
خودکشی کوٸی آسان عمل نہیں،یہ کسی بات یہ کسی نافراموش واقعہ کا ردعمل ہوتا
ہے۔خودکشی سے پہلے انسان ہزاروں پریشانی اور تکلیفوں سے لڑ رہا ہوتا ہےجب
ان سب سے تھک جاتا ہے تو خودکشی کے عمل کو آسان سمجھ لیتا ہے ۔خودکشی کی
اہم وجہ ذہنی سکون کا نہ ہونا،دل کا ٹوٹ جانا یا پھر کوٸی
لاعلاج بیماری بھی ہوسکتی ہے ۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے بھی اس
سوال کا جواب ملتا ہے کہ روزمرہ کے کشیدہ حالات و تجربات بھی ہمیں نفسیاتی
یا ذہنی بیماری میں مبتلا کرسکتے ہیں۔مثلاً ڈپریشن ،یہ وہ بیماری ہے جس میں
ہر شخص زنگی کے کسی نہ کسی حصے میں ڈپریشن میں مبتلا ہوتا ہے۔بظاہر تو
انسان ہٹا کٹا، تندرست نظر آتا ہے مگر اس کی اندرونی کیفیت سے صرف وہ ہی یا
اس کے بہت قریبی لوگ آگاہ ہوتے ہیں۔اس بیماری میں انسان سوچ اور فکر کی وجہ
سے اندر سے ختم ہوتا جارہا ہوتا ہے۔ڈپریشن ہونے کی کچھ علامتیں ہیں جسے آپ
خود بھی جان سکتے ہیں اگر آپ اس طرح کی کیفیت محسوس کررہے ہیں تو آپ کو کسی
ڈاکٹر کے پاس جانا نہیں پڑے گا آپ کو خود ہی معلوم ہوجاٸیگا کہ آپ ڈپریشن
کے مریض ہیں۔وہ علامتیں درج ذیل
:ہیں
١۔ ڈپریشن والے افراد ہر وقت تھکن اور کمزوری کا شکار رہتے ہیں لیکن رات کو
جب لیٹتے ہیں تو نیند نہیں آتی اگر آتی بھی ہے تو بہت جلد ختم ہوجاتی ہے۔
جسکا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے افراد نیند کی گولیاں استعمال کرتے ہیں۔
٢۔ ڈپرپشن میں ہارمونز کنٹرول نہیں ہو پاتے جس سے یا تو بھک زیادہ لگتی ہے
یا پھر بلکل ہی نہیں لگتی۔جس کا اثر جسمانی وزن پر ہوتا ہے۔
٣۔ بہت زیادہ کام کرنے سے جسم میں درد یونا کوٸی پریشانی والی بات نہیں
لیکن اگر یہ درد بغیر کسی وجہ کے ہو تو یہ ڈپریشن کی علامت ہے۔جیسے
کمر،پٹھوں یا جسم کے کسی بھی حصے میں درد ہونا ڈپریشن کی نشانی ہے۔
٤۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آجانا، سامنے والے کی مکمل بات سنے بغیر ہی
ردِعمل کرنا،یہ بھی ڈپریشن کی علامت ہے۔
٥۔ ہر وقت اداسی چھاٸی رہنا، محفل میں جاکر بھی خود کو اکیلا محسوس کرنا ،
بغیر وجہ کے رونا ۔
٦۔ زندگی سے متعلق کسی بھی بات کے ہزاروں وسوسے آنا۔
٧۔ نیند کے مکمل ہونے کے باوجود بھی آدھےسر کا دودر ہونا۔
٨۔امتحان میں یا کاروبا میں ناکامی ہونا ۔
٩۔کسی خاص فرد یا قریبی کا انتقال ہوجانا ،جس کی موت اچانک ہوٸی ہو۔
١٠۔ سب کچھ ہوتے ہوۓ بھی احساس محرومی پیدا ہونا۔
١١۔ کسی بہت اچھے قدیم دوست یا رشتہ دار سے بات چیت ختم ہونا۔
١٢۔ کوٸی بھی ناپسندیدہ واقعہ ہونا۔
ڈپریشن ضروری نہیں کہ بڑی وجہ پر ہی ہو معمولی سی وجہ پر بھی ہوسکتا ہے
کیونکہ ہر شخص ہر واقعہ پر مختلف ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔
۔معاشرے میں ہر دوسرا فرد ڈپریشن کا شکار ہے جس کے اثرات معاشرے پر مرتب
ہورہے ہیں۔نہ صرف معاشرے میں بلکہ پوری دنیا میں ڈپریشن کا گراف بڑھتا
جارہا ہے ۔معاشرے میں اس کے پہلاٶکو روکنا ہوگا ورنہ اس سے ملک کو نقصان
اور گہرے اثرات ہمارے نوجوانوں پر ہوگا۔ حکومت کو چاہیۓ کہ ڈپریشن کے حوالے
سے آگاہی پروگرام کا انعقاد کرکے لوگوں کو اس کے بارے میں آگاہ
کریں۔
بہت سے ڈپریشن کے مریض بیماری سے نجات کے لیے ادویات کا سہارا بھی لیتے
ہیں۔ادویات ایسی ٹوفی کی طرح ہے کہ جس سے بیماری ختم ہو یا نہ ہو مگر اپنی
مکمل زندگی کے لیے اس ٹوفی (دوا) کا عادی ہوجاتا ہے۔لہٰذا ڈپریشن کا سب سے
بہترین علاج انسان کے خود کے پاس موجود ہے جیسے زیادہ کسی بات کے بارے میں
نہ سوچے،کسی بات یا کام کو سر پر سوار نہ کریں،باتوں کو درگزر کرنے کی کوشش
کریں،خود کو کام میں محو رکھیں مگر اس کے ساتھ ہی آرام بھی کریں،خود کو
زیادہ سے زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کریں،سب سے گھل مل کر رہیں، اور سب سے
اہم بات دن میں آدھے گھنٹے یا 15 منٹ کے لیے سکون سے آنکھیں بند کر کے آرام
کریں ۔ان سب باتوں پر عمل کر کے اس بیماری کو دور
کیا جاسکتا ہے۔ |