کراچی کو سابقہ حالت میں بحال کرنے کیلئے لینڈ
مارکنگ ہی اہم کردار ادا کرے گی 1980ء کی دہائی تک شہری اداروں کا کنٹرول
بہتر ہونے کی وجہ سے تعمیرات کسی حد تک حدود وقیود میں تھیں جس کی اہم وجہ
شہری اداروں کی جانب سے ازخود علاقوں کے دورے تھے جس کی وجہ سے تعمیرات
کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا کہ جو لینڈ الاٹ کی گئی ہے اس سے
باہر نہ آیا جائے ایک طرح کی لینڈ مارکنگ کی وجہ سے کراچی عمارتوں کا جنگل
بننے سے محفوظ رہا اسی طرح شہری اداروں نے جب اس عمل سے غفلت برتنا شروع کی
تو مادر پدر آزادی کی وجہ سے شہر کا رہائشی وتجارتی انفراسٹرکچر تباہی سے
دوچار ہوکر آج اس قدر بدحالی کا شکار ہوچکا ہے کہ سپریم کورٹ کو احکامات
صادر کرنے پڑے ہیں کہ کراچی کو ماضی کی طرز پر بحال کیا جائے اور اس کی سب
سے اہم وجہ لینڈمارکنگ نہ ہونا ہیلینڈ مارکنگ نہ ہونے سے علاقوں میں رہائشی
علاقے اپنی حدود سے باہر آچکے ہیں کراچی کے 80 فیصد علاقوں میں وہ گلیاں
جہاں سے ٹرک گزر جاتے تھے سمٹ چکی ہیں نیوایم اے جناح روڈ، خالد بن ولید
روڈ اور شاہراہ قائدین پر موجود کار شورومز بھی لینڈ مارکنگ نہ ہونے کی وجہ
سے اپنی حدود سے باہر نکل کر خالد بن ولید روڈ، کار شورومز کے لحاظ سے سڑک
تک پہنچ چکا تھا گزشتہ دنوں کاروائی کے بعد اسے اپنی حدود میں لایا گیا ہے
اطلاعات ہیں کہ خالد بن ولید روڈ پر کارشو روم مالکان توڑے گئے ریمپس
دوبارہ تعمیر کر رہے ہیں سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد یقینی بنانے
کیلئے علاقوں کی تخصیص کے بغیر لینڈ مارکنگ کی ضرورت ہے لینڈ مارکنگ سے ہی
یہ تعین کیا جاسکتا ہے کہ کون کون سی زمینیں اپنی حدود میں ہیں اور کونسی
نہیں ملیر ندی، لیاری ندی اور گٹر باغیچہ کی سرسبزوشاداب زمینوں پر قبضہ
کرنے والوں کو بے نقاب ہونا چاہیئے کیونکہ مذکورہ زمینیں کراچی کی زراعتی
اور پانی کوجمع کرنے کا اہم ذریعہ ہیں کراچی کی زراعتی اہمیت کو نظرانداز
کر کے ان زمینوں کو قابضین نے اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کر رکھا ہے
ملیر ندی میں رہائشی پروجیکٹس کا اجرا کیا جانا اس جانب اشارہ دیتا ہے کہ
سندھ حکومت نیزمینی کنٹرول کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دی ہینالوں پر موجود
تعمیرات کراچی کیلئے لمحہ فکریہ ہیں جس کا خاتمہ دشوار ترین مرحلہ ہوسکتا
ہے اب سپریم کورٹ کی جانب سے دئیے گئے احکامات پر عملدرآمد کروانے لئیے
سندھ حکومت سمیت شہری اداروں کے پاس لینڈمارکنگ کی بنیاد پرکاروائی کرناہی
مناسب دکھائی دیتا ہے اور بعد میں بھی مانیٹرنگ سسٹم کو فعال کرنا پڑے گا
تاکہ شہر دوبارہ بے ہنگم تعمیرات کی زد میں نہ آسکے- |