آج جب ہم 2019 میں ایک آزاد ملک میں سانس لے رہے
ہیں اور ساتھ ہی ہم 23 مارچ کو یوم پاکستان کے طور پر منا رہے ہیں اور ساتھ
ہی بھارت کی جانب سے پاکستان کوجنگ میں جھونکنے کی ساری کوششیں رائیگاں جار
ہ ہیں۔ پاکستانی آرمی نے حالیہ دنوں میں جس انداز میں بھارتی سرکار کے
مکروہ مقاصد کے آگے پُل باندھا ہے اِس کا تذکرہ آنے والے کل میں جب مورخ
کرئے گا تو ساتھ یہ بھی لکھے گا کہ مودی نے پاکستانیوں کو نظریہ اسلام، نظر
یہ پاکستان کو سبق خود یاد دلا دیا ہے۔ ہمارے ہاں کو موم بتی مافیا امن کی
آشا کو پروان چڑھانے کے لیے مرا جارہا وتا ہے۔ لیکن مودی سرکار نے اِس مووم
بتی مافیا کی خوش فہمیوں کا کوب جواب دیا ہے اور پاکستان وک خدا نخواستہ
تباہ کرنے پر تُلا ہوا ہے اِس کے ساتھ امریکہ، اسرائیل بھی ہم رکاب بنے
ہوئے ہیں۔ بھارتی طیاروں کو جس انداز میں پاکستانی شاہینوں نے تباہ و برباد
کیا اور بھارتی پائلٹ کو بھارت کو واپس کردیا اِص سے اندازہ لگایا جاسکتا
ہے بھارتی سرکار اس وقت اپنے زخم چاٹ رہی ہے۔
امن کی راہ میں حائل بہت سے عوامل کے ساتھ ساتھ کشمیر ی عوام کی غلامی بھی
ہے۔ کشمیریوں کو بھارتی درندوں نے زبردستی ظلم اور غلامی کا طوق پہنا رکھا
ہے۔ یوں کشمیر میں انسانی حقوق کی جس طرح سے پامالی ہو رہی ہے اور کشمیری
عوام جس طرح گاجر اور مولیوں کی طرح کٹ رہے ہیں یہ سب کچھ موجودہ انسانی
حقوق کے علمبردار ممالک کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔انسان کا بنیادی حق آزادی
ہے ۔ سوچ اور فکر کی آزادی تو بہت بڑی نعمت ہے لیکن سب سے گھمبیر معاملہ یہ
ہے کہ کشمیر ی مسلمان جسمانی طور پر بھی غلام ہیں کو ئی دن نہیں جاتاجب
کشمیر میں خون کی ہولی نہ کھیلی جاتی ہو انسانی آزادیوں کی پامالی کے حوالے
سے کشمیر لہو لہو ہے۔ڈوگرہ راج سے لے کر موجودہ بھارتی تسلط کی آزادی کے
حوالے تک بین الاقوامی میڈیا و بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا ٹریک ریکارڈ
ماتم کدہ بن چُکا ہے۔ انسانی عقل و شعور کسی صورت بھی یہ تصور نہیں کر سکتا
کہ موجودہ حالات کے تناظر میں اِس حد تک شرمناک سلوک انسانوں کے ساتھ کیا
جاسکتا ہے۔ پاکستانی معاشرئے پہ کشمیر میں ہونے والی کشمیریوں کی نسل کُشی
کا بہت ہی گہرا اثر ہے۔پاکستانی عوام کے دل کشمیریوں کے ساتھ ظلم وستم پہ
نوحہ کناں ہے۔عالمی ضمیر کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ اقوام
متحدہ میں بے حس و حرکت پڑا ہے اور ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
بیسویں صدی کے آخری عشروں میں روس سپر پاور تھا لیکن اُس کی تمام تر
ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں۔اِسی طرح موجودہ ادوار میں انکل سام امریکہ
بہادر سُپر پاور ہے لیکن امریکہ کا بھی جُھکاؤ بھارت کی جانب ہے۔کشمیری
عوام کی نفسیات پر جو گہرئے اثرات بھارتی ظلم و ستم کی بناء پر مرتب ہورہے
ہیں۔ اِس بناء پر کشمیریوں کی معاشی سماجی عمرانی حالات غیر موافق ہیں۔
جنوبی ایشاء کا امن اِس وقت داؤ پہ لگا ہوا ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں
ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یوں ایٹمی طاقتیں ہونے کی بناء پر پورئے جنوبی اشیاء کا
امن داؤ پر لگا ہوا ہے۔نریندر مودی نے جب سے حکومت سنبھالی ہے ۔پاکستانی
سرحدوں پر آگ اور خون کا کھیل کھیلا جارہا ہے اور نریندر مودی نے جس طرح
حالیہ دنوں میں پاکستانی علاقوں میں اتنا گولہ بارود پھینکا ہے کہ ہماری
فوج کے جوان شہری آبادی حتی ٰ کے جانور بھی ہلاک کیے گئے ۔ کشمیری عوام جس
طرح کے مسلسل کرب میں سے گزرئے ہیں اور ہنوز اِس کا سلسلہ جاری ہے۔تصور میں
یہ بات لائی جائے کہ جس معاشرئے میں امن نام کی کوئی چیز نہ ہو۔ ایسا
معاشرہ جہاں پر جابر حکومت ہو ایسی سر زمین جو اپنے ہی باسیوں کے خون سے
رنگین ہو۔ جہاں کے شہریوں کو ریاستی جبر و ظلم کا سامنا کرنا پرئے۔ گویا
ریاست کے ساتھ عوام کی جنگ ہو رہی ہے اور ریاست نے سات لاکھ فوجی کشمیریوں
پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے وادی میں اُتار رکھے۔ اِن حالات میں وادی کی
صنعت وحرفت تباہ برباد ہو چُکی ہے۔معیشت کا گہرا تعلق امن و امان سے ہے۔
وادیِ کشمیر میں امن نام کی کوئی شے نہیں ہے۔غور کرنے کا مقام ہے اُس قوم
کے بچوں کی نفسیات رہن سہن کیا ہوگا جہاں اُن کے سامنے اُن کی ماؤں کی عصمت
دری کی جارہی ہو جہاں اُن کے باپ اُن کے سامنے قتل کیے جارہے ہوں۔ جہاں آئے
روز نوجوان کشمیریوں کو نامعلوم مقامات پر اغوا کرکے رکھا جارہا ہو۔ ایسے
حالات میں کشمیر ی باشندوں کی نفسیاتی عمرانی حالت خطرناک حد تک خراب ہے۔
نہرو کی جانب سے جب اقوام متحدہ میں جاکر یہ یقین دہانی کر ائی گئی کہ
کشمیریوں کو حقِ استصواب رائے دیا جائیگاجب یہ قرارداد پیش کی گئی ۔اُس وقت
یقین دہانی یہ ہی کروائی گئی تھی کہ کشمیری اگر چاہیے تو پاکستان کے ساتھ
الحاق کرلیں اور اگر چاہیں تو بھارت کے ساتھ ہی رہیں ۔لیکن بھارت اپنی ہی
پیش کی گئی قرارداد سے پھر چکا ہے ۔کشمیری مجاہدین جن میں جناب شبیر شاہ ،
سید گیلانی،میرو اعظ عمر فاروق، یاسین و دیگر قائدین بھارتی ظلم وستم کے
خلاف عَلم بلند کیے ہوئے ہیں۔ برہان وانی کی شہادت نے کشمیر کی جدو جہد کو
نیا آہنگ دیا ہے۔کشمیر نے دُنیا کے تمام ممالک میں اپنے لیے توجہ تو حاصل
کی ہے لیکن عملی طور پر امریکہ بہادر نے کچھ نہیں کیا بلکہ حالیہ بھارتی
دورہ کرنے سے پہلے امریکی صدر اوباما نے کہا ہے کہ بھارت حقیقی معنوں میں
ہمارا گلوبل پارٹنر ہے۔امریکہ جو کہ طاقت کے نشے میں دُھت ہے وہ صرف اپنے
مفادات دیکھتا ہے اُس کے لیے کشمیریوں کی زندگی اور موت کی کوئی اہمیت
نہیں۔ جس طرح کی انسانی آزادیوں کی بات امریکہ کرتا ہے وہ صرف زبانی کلامی
ہیں عملی طور پر تو وہ کسی بھی مسلمان ملک کو سکون میں نہیں دیکھنا نہیں
چاہتا۔امریکہ بہادر تو خطے میں چین کی معاشی ترقی کو روکنے کے لیے بھارت کا
ہمنوا بن چکا ہے۔پاکستان کے اندر ہونے والی دہشتگردی کی کاروائیوں میں
بھارت امریکہ اسرائیل تینوں ملوث ہیں۔ نبی پاک ﷺ نے عرب کے وحشیوں کو جب
مہذب بنایا اُن کی تربیت فرمائی تو یہ اُسی تربیت کا اثر تھا کہ پوری دنیا
کی مسلمانوں نے امامت فرمائی اور دنیا کو اچھی حکمرانی کے طور طریقے
سکھائے۔ موجودہ دور میں حالات و واقعات نے یہ بات ثابت کردی ہے اور ایک بات
شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ امریکہ انٹرنیشنل قوانین کی پامالی کررہا
ہے۔ امریکہ جو کہ ہر معاملے میں خود کو گھسیٹتا ہے اور خود کو کو کوئی
اوتار سمجھے ہوئے ہے۔ اُسے دُنیا میں موجود مسلم عوام ایک آنکھ نہیں بھاتی
۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کا موجودہ کردار کسی طور بھی انڑنیشنل قوانین کے
تحت نہیں ہے۔ اقوام متحدہ صرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا فیریضہ
انجام دئے رہا ہے اور اِسکا اولین کام امریکہ کی تابعدارای اور فرما برداری
ہے۔ تقریباً دنیا کے تمام ملکوں میں امریکہ کا اثر روسوخ ہے یہ اثرورسوخ
پہلے معاشی اور بعد میں پھر سیاسی بن جاتا ہے۔ اگر نرم سے نرم الفاظ میں
بات کی جائے تو بھی امریکہ اِس وقت پوری دُنیا کا دُشمن بنا بیٹھا ہے اور
اِس کی سامراجیت کو لگام دینا والا اِسکا کوئی بھی ہم پلہ ملک نہیں ہے۔روس
کی شکست وریخت کے بعد تو امریکہ کو کھلی چُھٹی ملی ہوئی ہے۔ عراق میں
لاکھوں انسانون کا قتل عام اور ا فغانی عوام کے خون سے ہولی امریکی دہشت
گردی کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔شام ،مصر ، ترکی کے اندر مداخلت پاکستان میں
ڈرون حملے، کیا یہ سب کچھ کسی قانون قاعدے یا اخلاقی پہلو کو پیشِ نظر رکھ
کر کیا جارہاہے۔امریکہ اس وقت سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور وہ بین الا قوامی
قوانین کی دھیجیاں اُڑا رہا ہے۔را قم کے خیال میں امریکہ اِس وقت دنیا میں
دہشت کا نشان بن چکا ہے۔ انسانی جبلت میں پیار اور محبت رچا بسا ہے۔نام
نہاد دانشور اپنے غیرملکی آقاوٗں کی خوشنودی کی خاطر پاکستان کے خلاف زبان
درازی کرکے اور پاکستان کی تخلیق کو انگریز کی سازش گردان کر درحقیقت ابلیس
کی پیروی کا فریضہ ادا کرنے کی سہی میں لگے رہتے ہیں۔حضرتِ قائدِاعطمؒ،
حضرتِ علامہ اقبالؒ،مجدد د ین و ملت حضرتِ مولانا امام احمد رضاء
خانؒ،پیرجماعت علیشا ہ، حضرت مولانا فضل خیرحق آبادیؒ، مولانا شبیر عثمانیؒ
جیسے عاشقانِ توحید و سنت کے عظیم علمبرداروں کی مساعی جمیلہ سے کفرستانِ
ہندوستان میں نبی پاکﷺ کے حکم سے بننے والی یہ پاک سرزمین جو 27 رمضان
المبارک کی شب کی پرُ نور ساعتوں میں وجود میں آئی ہو اُسکی حفاظت تو رب
پاک خود کرتا ہے۔اسلا میہ جمہوریہ پاکستان، ایک مخصوص نظرئے کی بنیاد پر
معرض وجوڈ میں آیا تھا اور وہ نظر? تھا، نظریہ پاکستان۔۔ برِ صغیر میں دو
قومی نظرئے کی کوکھ سے اْبھرنے والا نظریہ دراصل اپنے تمام معانی، مصادر
منابع کے نقطہ نظر سے نظریہ قرآن اور نظریہ اسلام ہے۔ کیونکہ تحریک پاکستان
کے مراحل کے دوران اسلامیان ہند نے جو نظریاتی نعرہ بلند کیا تھا وہ تھا
پاکستان کا مطلب کیا لاالہٰ ا لاﷲ۔ پاکستان عالیشان کا وجود باسعود، ایک
مرد قلندر، مرد حریت اور مرد ایمان اور مرد امتحان، حضرت قائداعظم ؒ، کی
محنت شاقہ کی بدولت ہوا۔ حضرت علامہ اقبال ؒ کی روحانی اور ایمانی الہامی
شعری کا وشوں نے اپنا رنگ دکھیا اور انہوں نے برصغیر کی غلامی میں پھنسی
ہوئی مسلمان قوم کو احساس تفاخر ور خودی کی بیداری کا پیغام دے کر انہیں
آزقدی کے اوج ثریا تک پہنچانے کیلئے اپنا خون جگر عطا کیا۔علم و عقل میں
اگر تضاد اور تصادم رہے گا تو ظاہر ہے کہ اس بنی ہوع انسان میں انتشار اور
تخریب کا باعث بنے گا، اور بالآخر قومی زوال کا پیش خیمہ۔ خدائے بزرگ و
برتر نے اْن افراد کو یہ اعزاز عطا فرمادیا۔ جنھیں دائرہ اسلام نے اسلام
میں داخل ہونے کا شرف نصیب ہوا، وہ افراد دنیائے انسانیت کے خوش قسمت ترین
انسان ہیں جنہیں حضور اکرم ﷺ کے یک امتی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ دین اسلام نے
مسلمانوں کے قلوب و ارواح میں جس فلسفہ توحید کو موجزن اور مرتسم کیا ہے،
اْس سے ان میں فکری وحدت، تہذیبی ہم آہنگی، دینی حریت ور نسانی سطح پر
احساس تفاخر کی تخلیق ہوئی۔ جب قلوب و اذہان میں تصور توحید جلوہ گر نہ ہو
انسان کی شخصیت میں وحدت پیدا نہیں ہو سکتی، ظاہر ہے کہ مسلمان ایک باری
تعالیٰ جو وحدہ لاشریک ہے اس پر پختہ ایمان و ایقان رکھے گا، تو جب ہی اپنے
ندر بھی وحدت پیدا کرے گا۔ اس تمام فلسفہ حیات کا منبع، ماخذ، روح، اساس،
سرچشمہ اور بنیاد قرآن الحکیم ہے۔ اس نظرئے کو قرآن کی تعلیمات اور حکام کے
پیش نظر مجدد الف ثانی ؒ، حضرت داتا گنج بخش ؒ اور دوسرے اولیائے کرام اور
مجتہدین قابل صد احترام نے اسی نظرئے کو اپنے خون جگر سے سینچا اور روحانی
کمالات سے اس عظیم عمارت کی بنیاد وں کو استحکام سے ہمکنار بھی فرمایا۔
انہی بابرکت اور روحانی شخصیات کی تعلیمات مقدسہ نے حضرت علامہ اقبال ؒ اور
حضرت قائد اعظم ؒ کے افکار ملہ اور قومی نظریات، دینی، اسلامی، قومی امنگوں
کا رنگ بھر دیا تھا۔ حضرت علامہ اقبال ؒ نے اسلامیان ہند کو پیغام خودی
دیا۔ انہیں انتشار ونکبت سے جگایا او ایک قوم کی شکل میں متشکل کر دیا۔ حضر
ت قا ئد اعظم ؒ نے اسلامیان ہند کو اپنی تقاریر، خطابات، اور علمی اور
قانونی نظریات وارشادات کی روشنی میں انگریزوں اور ہندؤں کی استعمار پسند
انہ اور تشدد آمیز رویوں سے آگاہ کرتے رہے اور انہیں اپنی اسلامی اقدار و
رو ایا ت اور تاریخ کی روشنی میں تیار رہنے کی ہدایت کرتے رہے۔ حضرت
قائداعظم ؒ نے اسلامیان ہند کے قلوب واذہان میں آزادی کی جو لو لگائی وہ
الاؤ بن کر سامنے آئی اور پاکستان دنیائے انسانیت کے نقشے پر بڑی شان وشوکت
کے ساتھ ظہور پزیر ہوا۔ قرآن حکیم نے استفسار فرمایا: خدا تعالیٰ نے تم سب
کو تخلیق فرمایا‘ پھر تم میں سے ایک گروہ نے بلند و بالا اور عالمگیر
انسانیت سے انکا کردیا‘ اور دوسرے گروہ نے اسے تسلیم کر لیا۔ ((64/2 یہی وہ
انسانیت کی تفریق اور امتیاز کا میعار ہے جو قرآن حکیم انسانوں کے لیے پیش
کرتا ہے۔ اسی کے مطابق دواقوام واضح ہوتی ہیں ایک دوسری غیر مسلم۔چنانچہ
تاریخ اسلام گواہ ہے کہ اسلامی ریاست وحکومت میں شامل نہ گیا۔ حضور پاک ﷺ
کی مجلس شوریٰ میں کبھی کوئی غیر مسلم نہ تھا۔ خلفائے راشدین رضی اﷲ علیم
اجمعین کی مجلس شوریٰ اور پارلیمان میں کوئی غیر مسلم کا داخل نہ تھا۔ بلکہ
کافر یا غیر مسلم، ملت اسلامیہ کا ف رد ہی نہیں تھا لہٰذا اسلام اور قرآن
کے نزول کے ساتھ ہی بنی انسان دو مختلف نظریات اور حتمی طبقات میں تقسیم ہو
گئے۔ ایک نظریہ ایمان نہ لانے والوں کا۔ چنانچہ اولاد آدم دو کیمپوں میں
تقسیم ہو گئی شرار بو لہبی ایک جانب اور چراغ مصطفیٰ ﷺ دوسری جانب، اس
نظریے نے خون اور حسب و نسب کی نفی نھی کردی۔ برادری، قبیلے اور ذات پات کو
ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ اس کی بہترین مثال جنگ بدر اور جنگ اْحد ہے جس میں
نبی الزماں حضور اکرم ﷺ دوسرے صحابہ کرام کے قریبی رشتہ دار دشمن کے صف میں
براجماں تھے، چنانچہ قرآن نے کافروں اور منافقین کے ضمن میں ملت اسلامیہ کو
بڑی سختی سے متبنہ کیا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے نظریہ پاکستان کا آغاز،
تشکیل، اور ترویج برصغیر میں اس وقت ہوئی جب مسلمانوں کو انتشار و افتراق
اور زوال و انھطاط کا سامنا کرنا پڑا اور ہندوں کی اصل فطرت کے شاہکار وں
کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے مظالم کا گھناونی سازشوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔
بالخصوص 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کی بڑی دلدوزداستان ہے، جسے غربی اور
شرقی مفکرین و مصنفین نے خوب بیان کیا ہے یہ اپنے طور پر ایک طویل داستان
ہے۔ مولانا ابولکلام آزاد کی کتاب india wins freedom ولیم ہنٹر کی کتاب 5
indian mussalmans عبدالوحید خان کی کتاب تقسیم ’’ہند‘‘ اور ان کی دوسری
کتاب ’’مسلمانوں کا ایثار اور آزادی کی جنگ‘‘ کالنز اور لاپیئر کی کتاب
\'freedom at midnight\' اور پروفیسر منور مرزا کی کتاب Dimension of
Movement اور دیوار’’برہمن‘‘ کا مطالعہ کرلیں۔ ان شنکرو ں، دیالوں،
بگوپالوں، مہاجروں، ساہنیوں، دھوتی پرشادوں، چٹیا گھنٹانوں، ایڈانیوں،
ملکانیوں، مشراوں، بال ٹھاکروں، من موہنوں اور بڑے بڑے مہاپرشوں نے اسلام،
پاکستان، نظریہ پاکستان دو قومی نظریہ اور مسلمان دشمنی میں کسر اٹھا رکھی
اور یہ سلسلہ ہنوز جاری وساری ہے۔ ہمارے سابق مشرقی پاکستان اور مغربی
پاکستان کے غدار سیاستدانوں نے ہماری تاریخ اسلام کو منسخ کر کے دیا۔ جو
ایمانی اور ایقانی روح سے محروم تھے۔ جو قرآنی جرات و استقامت سے سرمایہ
دارا نہ تھے۔ ہمارے جسم کا اسیک بازو کٹ گیا چنانچہ اندر گاندھی نے زور
خطابت کے نشے میں یہ کہا ’’آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا
ہے، ہم نے ایک ہزار سال کا بدلہ لے لیا ہے۔ لیکن ہم نے اندرا گاندھی اور ان
کے مخلص چیلوں چانٹوں اور حواریوں اور ان کے حاشیہ برداروں کو اسی وقت باور
کرارہے ہیں اور کراتے رہیں گے کہ جب تک ایک مسلمان بچہ بھی برصغیر پاک و
ہند میں زندہ ہے اسلام اور کفر کی جنگ جاری رہے گی، اسلام کا جھنڈا موجود
رہے گا، اس جذبہ محرکہ کو جس تصور، خیال، اصول، جابطے یا نقطہ نظر نے تخلیق
کیا اسے نظریہ پاکستان کا نام دیا گیا۔ جسے انگریزی میں Iddeology of
pakistan کہتے ہیں۔ چنانچہ حضرت قائداعظم 1944ء میں مسلم یونیورسٹی (علی
گڑھ) میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ نے غور فرمایا کہ پاکستان مطالبہ کا
جذبہ محرکہ کیا تھا؟ مسلمانوں کے لیے ایک جداگانہ مملکت کی وجہ جواز کیا
تھی۔ تقسیم ہند کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کی وجہ نہ ہندوں کی تنگ نظری ہے۔
نہ انگریزوں کی چال، یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔ اور یہی دراصل مطالبہ
نظریہ پاکستان کی ترجمانی کرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تکلیف صرف اسلام سے ہے
کیونکہ کسی غیر مسلم کے اسلام قبول کر لینے کے بعد جس طرح اس کے زمین و
آسمان بدل جاتے ہیں وہ عجیب کیفیت ہے، اس کے خیالات و تصور ات اس کے جذبات
و احساسات اور انسانیت کے جملہ تمام اطوار یکدم وحدہ لاشریک کی ذات اقدس سے
جڑ جاتے ہیں اور پھر۴ اس کا رخ ممبء کلکتہ اجودھیا دہلی اور بجنور سے مکہ
اور مدینہ کی طرف ہو جاتا ہے اس روحانی اور دینی تبدیلی کی مسٹر گاندھی کو
بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔ ان سے پہلے ہو گزرے مہاپرشوں کو بھی سمجھ نہیں آئی
تھی، ان مہا گرووں کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی، اور نہ ہی آسکتی تھی اور اب
یہ کیفیت کا فرما ہے مسٹر گاندھی عجیب مکاریت و فریب کاری کے انداز گفتگو
میں کہا کرتے تھے کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک سیدھا سادھا سا ہندو جب
مسلمان ہو جاتا ہے تو دنگی، فسادی اور لڑاکا ہو جاتا ہے۔ دنگئی تو وہ ہو
جائے گا جب اسے اپنے نظریے کی پاسبانی کرنا پڑے گی۔ دنگئی تو وہ ہو جائے
گا، جب ناموس رسالت ﷺ پر خدانخواستہ حرف آئے گا۔ دنگئی تو لازمی ہو گا کہ
جب وہ وحدہ لاشریک کی شان میں کوئی غیر قوم کا فرد گستاخی کا مرتکب ہوگا۔
قرآن پاک پر رکیک حملوں کا جواب تو پھر وہ پنی جان پر کھیل کر دے گا اور
شہادت کے مقام اولیٰ کو مسکراتے ہوئے حاصل کرنا قاپنا دینی اور اسلامی
فریضہ سمجھے گا۔ یہی وہ جذبہ اسلام ہے، یہی وہ قرآنی برکت ہے یہی وہ دو
قومی نظریے کی بنیا د ہے۔ یہی دوقومی نظریہ اپنی روحانی معنویت اور اسلامی
و قومی نظریات و تصور کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے نظریہ پاکستان
کی شکل میں نمودار ہوا۔ پاکستان کی تخلیق میں لاکھوں اسلامیان ہند نے
شہادتوں کا خون عطا کیا لاکھوں مسلمان عورتوں اور بچون نے قربانیاں دیں،
پاکستان کو انگریزوں اور ہندوں نے آسانی سے قبول نہیں کیا تھا۔ پاکستان
انگریز نے طشتری میں رکھ کر پیش نہیں کیا تھا۔ تقسیم ہند نہ انگریزی
بادشاہت کو پسند نہ تھی، نہ برطانوی پارلیمنٹ، نہ برطانوی حکومت ہند، نہ
وائسرائے صاحبان، نہ انڈین نیشنل کانگریس، نہ مسٹر گاندھی، نہرو پٹیل اور
راجگو پال اچاریہ وغیرہ، لارڈ مونٹ بیٹن جو آخری وائسرائے ہند تھا۔ اسے
تقسیم ہند سے ویسے ہی چڑ تھی۔ جمیعت العلمائے ہند کی اکثریت مخالف چند اور
اسلام پسند گروہ بھی قائداعظم ؒ پر رکیک حملوں سے باز نہ آرہے تھے۔ اکثر
مسلمان اکابرین جو کانگریس کے متاثرین میں سے تھے یہ تقسیم پسند نہیں فرما
رہے تھے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی خاص طور
پر شامل تھے۔ یہ حضرت قائد اعظم ؒ کی سیاسی صداقت اور ولولہ انگیز قیادت
اور مومنانہ شان و شوکت کا اعجاز تھا کہ بڑے بڑے برج گرتے چلے گئے بڑے بڑے
طوفان اپنی اپنی راہ لیتے رہے بڑے بڑے پہاڑ چکنا چور ہو جاتے رہے۔ اور وہ
سرحدیں قیام پزیر ہوئیں جنھوں نے معرکہ بدرو حنین کی یاد دتازہ کردی۔ یہ
سرحدیں کچے دھاگے کی سرحدیں نہیں یہ اینٹوں گارے، سیمنٹ اور ماربل کی بنائی
ہوئی دیوار نہیں ’’لاالہٰ الاﷲ محمد الرسول اﷲ‘‘ کے اسلامی اور قرآنی نظریے
اور ایمان پر قائم کردہ دیواریں ہیں۔ جو قیامت تک قائم رہیں گی۔
پاکستان اُس وقت تک نامکمل ہے جب تک کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتا۔
جغرافیائی ، سماجی، مذہبی عمرانی طور پر کشمیر پاکستان کا پاکستان کا حصہ
ہے۔آج 23 مارچ کو یوم پاکستان مناتے ہوئے ہمیں تحریک پاکستان کے شہداء کو
اپنی دُعاؤں میں یاد رکھنا ہے۔ اِسی طرح پاکستان کی بقاء کے لیے پاک فوج
پاک پولیس اور سویلین نے جو لازوال قربانیاں دی ہیں اُنھیں ہمیشہ یاد رکھا
ہوا گا۔ پاک فوج زندہ آباد۔ پاکستان زندہ آباد۔ |