پانی کے عالمی دن22 مارچ 2019ء کے موقع پرایک خصوصی تحریر
’اﷲ نے ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا ‘القرآن ۔پانی کے بغیر زندگی کا تصور
ممکن نہیں ہے ۔زراعت وصنعت کا پہیہ اسی ایندھن یعنی ’’پانی ‘‘کے دم سے رواں
دواں ہے ۔ اسی کے دم سے زندگی ہے ۔یہ بات اہم ہے کہ زمین کا تین چوتھائی
پانی پر مشتمل ہے اس کے باوجود انسان کی اپنی کوتاہیوں کے سبب دنیا صاف
پانی کی کمی کا شکار ہو رہی ہے ۔اس وقت دنیا بھر میں کروڑوں افراد ایسے ہیں
جنہیں پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے ۔ایشیا اور افریقہ میں تو
کئی علاقے ایسے بھی ہیں، جہاں خواتین و حضرات کو کسی بھی معیار کا پینے کا
پانی حاصل کرنے کے لئے چھ سے آٹھ کلومیٹر تک پیدل چلنا پڑتا ہے ۔
پاکستان میں پانی کی صورت حال بڑی چونکا دینے والی ہے ۔پاکستان کے شہروں
اور دیہاتوں میں رہنے والے پاکستانی اپنی بقاء کے لیے مضر صحت پانی استعمال
کرتے ہیں۔اسی وجہ سے ہرسال ہزاروں افراد اسہال، ہیضہ، یرقان اور ان جیسی
دیگر موذی بیماریوں کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ایک رپورٹ کی مطابق
پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جو تیزی سے پانی کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے
۔لیکن ہمارے ارباب اختیار کا اس طرف دھیان بھی نہیں ہے ۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2025 ء تک
ملک پانی کی شدید قلت سے دوچار ہو سکتا ہے۔اس کی وجہ آبادی میں تیزی سے
اضافہ اور ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں کمی ہے۔ملک کے دو بڑے ڈیم
صرف ایک ماہ تک کے لیے پانی ذخیرہ کر سکتے۔اقوام متحدہ کا ایک سابقہ رپورٹ
میں کہنا ہے کہ پانی کا بحران پاکستان کے لیے دہشت گردی سے بڑا خطرہ
ہے۔بلکہ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ جی ہاں جنگ سے بھی بڑا خطرہ ۔ملک کو بنجر
کر دینے والا خطرہ ۔ عالمی ادارے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پندرہ
ممالک پانی کی شدید کمی کا شکار ہیں ۔ان میں سے ایک پاکستان ہے ۔کیا آپ نے
توجہ فرمائی ایسے پندرہ ممالک جو پانی کی کمی کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں
ان میں سے ایک اپنا پاکستان بھی ہے ۔
ماہرین کے مطابق دنیا کو اگلے 20برسوں میں پانی کے حوالے سے مزید مشکلات کا
سامنا کرنا ہو گا، کچھ کا کہنا ہے کہ تیسری عالمی جنگ پانی کی کمی کا بھی
باعث بن سکتی ہے ۔پانی جیسی بنیادی ضرورت بلکہ بنیاد زندگی کی اہمیت کو
اجاگر کرنے کے لیے ہر سال بائیس مارچ کو پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس
کی ابتدا ء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے93 ویں اجلاس منعقدہ 22 دسمبر
1992 ء کوایک قرار داد پر فیصلہ کرتے ہوئے کی گئی۔
دنیا بھر میں 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن( ورلڈ ڈے فار واٹر )کے طور پر
منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے ماحولیات و ترقی کی
تصدیق و تائید کے بعد 1993ء میں پہلی بار 22 مارچ کو پانی کا عالمی دن
منایا گیا۔کسی بھی ملک کی ترقی ،معاشرے کے افراد کی زندگی اور صحت کا
دارومدار پانی پر ہے ۔بارش ،چشموں، ندی نالوں اور دریاؤں کے پانی کو کام
میں لا کر یعنی اس سے فصلیں اگا کریابجلی بنا کر ترقی کر سکتا ہے ۔
ہر ملک میں کئی محکمے اسی مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں ۔ بارش گلشیئرز، دریا
، چشمے ، ندی نالے ، اور زیر زمین پانی،تقریبا ہر ملک کے پانی کے وسائل ہیں۔
پانی نے کرہ ارض کے70.9 حصے کو گھیرا ہوا ہے ۔ اسی طرح جاندار اشیاء بشمول
انسان تقریبا 70 فیصد حصہ پانی پر ہی مشتمل ہے ۔اس وقت ہمارے ملک کی آبادی
لگ بھگ22 کروڑ تک پہنچ چکی ہے اور حال یہ ہے کہ کثیر آبادی کو پینے کا صاف
پانی دستیاب نہیں۔بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت اور آلودہ پانی نے عوام
میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔
پاکستان میں پانی کی کمی کا ذمہ دار مختلف عوامل کو ٹھہرایا جاتا ہے مثلاََ
بھارت کاپانی کا روک لینا ،یعنی سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی، اس
وقت دشمن ملک انڈیا دریائے ستلج، دریائے راوی اور بیاس کا سارا پانی بند کر
چکا ہے۔ اور لاتعداد ڈیم بنا چکا ہے ۔جوسندھ طاس معاہدہ کے سر ا سر خلاف
ورزی ہے ۔ بھارت ان الزامات کو مسترد کرتا ہے ۔اس پر صدر مملکت جناب عارف
علوی صاحب نے کہا ہے کہ اس معاہدے پر نظر ثانی ہونی چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پانی کی قلت پر قابو پانے،پانی کے ضیاع کو روکنے اور
پانی کے ذخائر کو بہتر بنانے کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ حکومت اپنی
ذمہ داریوں کو سمجھے ۔ لہٰذا صدر مملکت ،وزیر اعظم،چیف جسٹس ،وزارت
خارجہ،انڈس واٹر کے ہائی کمشنر اور دیگر متعلقہ حکام و ادارے وغیر ہ مل
بیٹھیں اور اس مسئلہ کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کریں۔ |