غزہ کے معروف. کیتھولک چرچ العائلۃ المقدسۃ پر اسرائیلی حملہ
(Khursheed Alam Dawood Qasmi, India)
غزہ کے معروف کیتھولک چرچ: العائلۃ المقدسۃ پر اسرائیلی حملہ
از: خورشید عالم داؤد قاسمی
غزہ کے کیتھولک چرچ پر حملہ: غزہ گزشتہ اکیس مہینوں سے مسلسل خون میں نہایا ہوا ہے۔ امریکہ کی جانب سے صہیونی ریاست اسرائیل کو فراہم کیے گئے مہلک ہتھیاروں نے غزہ کے ہر فرد کو متاثر کیا ہے۔ ہزاروں افراد شہید ہو چکے ہیں؛ جب کہ لاکھوں زخمی اور معذور ہو چکے ہیں۔ یہ تباہی و بربادی بین الاقوامی قوانین اور جنگی ضوابط کو یکسر نظرانداز کرتے ہوئے جاری ہے۔ اس مسلسل جارحیت میں اسرائیلی حملے نے عبادت گاہوں کو بھی نشانے بنائے ہیں؛ جب کہ عبادت گاہیں مقدس مقامات سمجھے جاتے ہیں جو ہمیشہ امن، روحانیت اور پناہ کی علامت رہے ہیں۔ یہ نہ صرف جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے؛ بلکہ انسانی ضمیر کے لیے ایک کڑا امتحان بھی ہے۔ حالیہ حملے میں مشرقی غزہ کا معروف کیتھولک ہولی فیملی چرچ ایک بے رحم فضائی بمباری کا نشانہ بنا۔ اس حملے نے نہ صرف غزہ کی مسیحی برادری کو سوگوار کیا؛ بلکہ پوری دنیا میں انسانیت نواز حلقوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
حملے کی تفصیل: قابض صہیونی ریاست اسرائیل کی جانب سے اس وحشیانہ حملے کا تازہ واقعہ 17/ جولائی 2025 کو پیش آیا، جب اسرائیلی فضائیہ نے مشرقی غزہ میں واقع ایک معروف اور تاریخی کیتھولک چرچ: العائلۃ المقدسۃ کو نشانہ بنایا۔ یہ دل دہلا دینے والا حملہ عبادت کے اُس مرکز پر کیا گیا، جو نہ صرف مذہبی لحاظ سے اہم ہے؛ بلکہ غزہ کی محصور مسیحی برادری کے لیے امید، تحفظ اور روحانی سہارا بھی فراہم کرتا ہے۔ اس بمباری کے نتیجے میں تین فلسطینی شہری شہید ہو گئے؛ جب کہ کم از کم دس افراد شدید زخمی ہوئے، جن میں چرچ کے پادری، فادر جبرائیل رومانیلی بھی شامل ہیں۔
غزہ کے محکمہ شہری دفاع کے ترجمان، محمود بصل کے مطابق شہید ہونے والے بزرگوں کی شناخت 60 سالہ سعد سلامہ اور 80 سالہ فومیا عیاد کے طور پر کی گئی ہے۔ ترجمان محمود بصل نے غم و غصے سے بھرے بیان میں کہا: "قابض اسرائیل نہ مسلمانوں کو بخشتا ہے، نہ عیسائیوں کو، نہ مسجد کی حرمت کا خیال رکھتا ہے، نہ گرجے کی عظمت کا۔ اس کا ایک ہی ہدف ہے: فلسطینی، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا قوم سے ہو۔"
القدس میں لاطینی پادریوں کے دفتر نے بھی اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ چرچ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ محصور غزہ میں یہ واحد کیتھولک عبادت گاہ ہے، جو مذہبی اجتماع کے ساتھ ساتھ مسیحی برادری کی بقا اور حوصلے کی علامت بھی سمجھی جاتی ہے۔
ویٹی کن اور مسیحی قیادت کے بیانات: یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں گرجا گھر کو نشانہ بنایا ہو۔ اس سے قبل بھی "خاندانِ مقدس" اور "سینٹ پر فیریوس" جیسے تاریخی چرچ متعدد بار اسرائیلی بمباری کی زد میں آ چکے ہیں، جنھیں مقامی مسیحی برادری صدیوں سے عبادت، اجتماع اور پناہ کے مراکز کے طور پر استعمال کرتی رہی ہے۔ حالیہ حملے کے بعد ویٹی کن کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ کیتھولک چرچ کے سربراہ، پوپ لیو چودھویں نے اس واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسے "دل دہلا دینے والا اور غیر انسانی عمل" قرار دیا ہے۔ انھوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ فوری جنگ بندی کو یقینی بنائے اور شہریوں کے تحفظ کو اولین ترجیح دے۔ پوپ کے بیان میں غزہ کے نہتے شہریوں کے ساتھ ہمدردی اور مذہبی مقامات کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ ان کے الفاظ نے نہ صرف دنیا بھر کے مسیحیوں؛ بلکہ انسانیت سے جڑے ہر شخص کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے۔
مسیحی رہنماؤں کا غزہ کا ہنگامی دورہ: اس حملے کے محض ایک دن بعد، یروشلم کے دو اعلیٰ مسیحی مذہبی رہنماؤں: کارڈینل پیئر باتیستا بیتسابالا (رومن کیتھولک بطريرک) اور بطريرک تھیوفیلوس سوم (روم آرتھوڈوکس)نے ایک مشترکہ کلیسائی وفد کے ہمراہ غزہ کا ہنگامی دورہ کیا۔ یہ اقدام نہ صرف ان کی انسانی ہمدردی کا مظہر تھا؛ بلکہ مظلوموں کے ساتھ عملی یکجہتی کی ایک روشن مثال بھی تھا۔ دونوں رہنماؤں نے عربی اہلی اسپتال میں جا کر زخمیوں کی عیادت کی اور اسپتال کے اُن وارڈز کا دورہ کیا جہاں مسلمان اور مسیحی مریض ساتھ ساتھ زیرِ علاج تھے۔ ان کا یہ دورہ اس پیغام کا حامل تھا کہ ظلم و جبر کے خلاف کھڑا ہونا صرف مذہبی فريضہ نہیں؛ بلکہ انسانی ضمیر کی آواز بھی ہے۔
اس موقع پر کارڈینل پیئر باتیستا بیتسابالا نے جذباتی انداز میں کہا: "غزہ کے تمام شہری، چاہے وہ کسی بھی مذہب یا پس منظر سے تعلق رکھتے ہوں، انسانی وقار کے برابر حق دار ہیں۔ عبادت گاہوں کو نشانہ بنانا ناقابلِ قبول ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری مداخلت کرے اور ان انسانیت سوز حملوں کو روکے۔" انھوں نے مذہب سے بالاتر ہو کر بنیادی انسانی حقوق کی بات کی، جو ان کے بیان کو صرف ایک مذہبی موقف سے آگے لے جا کر ایک آفاقی انسانی مطالبہ بنا دیتا ہے۔
بطريرک تھیوفیلوس سوم نے بھی اپنے بیان میں انصاف اور انسانی اقدار کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا: "ہم یہاں صرف مسیحیوں کے لیے نہیں آئے؛بلکہ ہر اس انسان کے لیے آئے ہیں جو ظلم کا شکار ہے۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ نہ صرف انسانیت؛ بلکہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔" ان کے یہ الفاظ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ غزہ کا المیہ صرف ایک قوم یا مذہب کا مسئلہ نہیں؛ بلکہ پوری انسانیت کا مشترکہ زخم ہے، جس پر خاموشی خود ایک جرم ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا مذمتی بیان: اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے بھی اس حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ان کی ترجمان سٹیفنی ٹریمبلے نے پریس بریفنگ کے دوران بتایا: "عبادت گاہوں پر حملے ناقابلِ قبول ہیں۔ ان مقامات میں پناہ لینے والے شہریوں کو مکمل احترام، تحفظ اور سہولت دی جانی چاہیے۔ غزہ میں پہلے ہی بے پناہ جانی نقصان ہو چکا ہے۔ اب فوری جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی غیر مشروط رہائی ناگزیر ہے۔"
امریکہ کا ردعمل، دوغلی پالیسی کی ایک اور مثال: اس حملے کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیرِاعظم بن یامین نیتن یاہو کے درمیان گفتگو ہوئی، جس کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک حیران کن بیان جاری کیا گیا: "اسرائیل ان حملوں کا عادی مجرم ہے۔" یہ بیان اگرچہ الفاظ کے اعتبار سے چونکا دینے والا تھا، مگر امریکی پالیسی کے تاریخی رویے کو دیکھتے ہوئے اس میں تضاد صاف محسوس ہوتا ہے۔ ایک طرف اسرائیل پر تنقید اور دوسری طرف دہائیوں سے اس کی ہر جارحیت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر اندھی حمایت۔ یہی وہ دوغلا پن ہے جس نے امریکہ کو اس بحران میں غیر جانبدار ثالث کے بجائے متعصب شریکِ جرم بنا دیا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بار بار کی گئی جنگی کارروائیوں، مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی اور معصوم شہریوں کی ہلاکتوں کے باوجود امریکہ نے اکثر اوقات اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کیا یا ان پر خاموشی اختیار کی۔ ایسے میں موجودہ بیان امریکہ کے کسی اصولی موقف کا اظہار نہیں ہے۔
مسلم قیادت کہاں ہے؟ یہ ایک تلخ اور افسوسناک حقیقت ہے کہ غزہ میں اب تک تقریباً تمام بڑی مساجد اسرائیلی بمباری کی زد میں آ کر تباہ ہو چکی ہیں۔ نہ بچوں کے لیے کوئی محفوظ پناہ ہے، نہ بزرگوں کے لیے کوئی عبادت گاہ۔ لیکن اس ہولناک صورتِ حال کے باوجود، ایک بھی مسلم ملک کا سربراہ نہ غزہ پہنچا، نہ ہی کسی اعلیٰ سطحی نمائندے نے وہاں جا کر ہمدردی یا یکجہتی کا اظہار کیا۔ نہ کوئی رسمی تعزیت اور نہ ہی عالمی فورمز پر مضبوط مؤقف! مسلم دنیا کی قیادت صرف بیانات اور اجلاسوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ گویا فلسطین کے شہیدوں کے زخموں پر مرہم رکھنے سے بھی وہ عاجز ہیں۔ اس خاموشی نے نہ صرف اسرائیل کے حوصلے کو تقویت دی ہے؛ بلکہ عالمی سطح پر مسلم قیادت کی بے وزنی، بزدلی اور بےحسی کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ غزہ کے مظلوم مسلمان اور مسیحی بیک وقت اسرائیلی بمباری اور امتِ مسلمہ کی بے رخی کے دوہرے کرب میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر تاریخ بھی شرمندہ ہو گی۔
ابو عبیدہ کا بیان، امت کے ضمیر پر دستک: حماس کے عسکری ونگ، القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے غزہ پر جاری حملے کے تناظر میں، ایک سخت اور جذبات سے لبریز بیان جاری کیا۔ انہوں نے کہا: "ہم کسی کو بھی غزہ میں بہنے والے خون سے بری الذمہ نہیں سمجھتے۔ ہر وہ فرد، ادارہ یا حکومت، جو کچھ کر سکتی تھی مگر خاموش رہی، وہ اپنی استطاعت اور اثر کے مطابق اس جرم میں شریک ہے۔" ان کے مطابق دشمن نے اس اعتماد کے ساتھ قتلِ عام کیا کہ اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوگا؛ کیوں کہ اسے علم تھا کہ مسلم دنیا کی قیادت خاموشی کو شعار بنائے گی۔ انہوں نے مزید کہا: "وہ لوگ جن سے امیدیں تھیں، وہ اپنے مظلوم بھائیوں کو تنہا چھوڑ چکے ہیں۔" ابو عبیدہ نے اپنے اسی بیان میں، انتہائی جذباتی اور ایمان افروز انداز میں امتِ مسلمہ کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا: "قیامت کے دن ہم تمھارے خلاف دعویٰ دائر کریں گے۔" یہ الفاظ محض ایک عسکری ترجمان کا اعلان نہیں؛ بلکہ پوری امت کے ضمیر پر دستک ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جہاں سوال صرف یہ نہیں کہ ہم نے کیا کیا؛ بلکہ یہ بھی ہے کہ ہم نے کیا کچھ نہیں کیا؟
ظلم نے ہر حد پار کر لی ہے: غزہ کے "العائلۃ المقدسۃ" چرچ پر اسرائیلی حملہ محض ایک گرجے پر حملہ نہیں؛ بلکہ یہ انسانیت، مذہبی آزادی اور عالمی قوانین کی صریح پامالی ہے۔ جس طرح مساجد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، اسی طرح گرجا گھر بھی اب اسرائیلی جارحیت کی زد میں آ چکے ہیں۔ یہ حملہ اس بات کا اعلان ہے کہ ظلم، سفاکی اور مذہبی عدم رواداری نے تمام حدیں پار کر لی ہیں۔ غزہ میں نہ صرف مسلمان؛ بلکہ عیسائی اقلیت بھی بمباری، جبری نقل مکانی اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی کا شکار ہے۔ اسرائیل کی جارحیت اب کسی ایک مذہب یا طبقے تک محدود نہیں رہی؛ یہ ایک مکمل انسانی بحران میں بدل چکی ہے، جس پر عالمی ادارے صرف رسمی بیانات جاری کرنے تک محدود ہو گئے ہیں۔
اس ساری تباہی کے دوران مسلم دنیا کی بےحسی، مجرمانہ خاموشی اور قیادت کی عملی ناکامی مزید دل دہلا دینے والی ہے۔ بیانات کی تکرار، کانفرنسوں کے اعلانات اور مذمتیں غزہ کے معصوموں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا، خاص طور پر امتِ مسلمہ، خوابِ غفلت سے بیدار ہو۔ ظلم کے خلاف صرف الفاظ نہیں؛ بلکہ جرات مندانہ، منظم اور عملی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ خاموشی کی جگہ آواز، بے عملی کی جگہ اقدام اور بے حسی کی جگہ ضمیر کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے؛تاکہ غزہ کے بے گناہ بچوں، خواتین اور بزرگوں کے لیے امن، تحفظ اور انصاف کی کوئی حقیقی سبیل نکل سکے۔ ورنہ یاد رکھیں! تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اور آنے والی نسلیں ہمارے اس جرمِ خاموشی پر ہمیں کبھی نہیں بخشیں گی۔••••
|
|