تحریر: نور بخاری
عالمِ نَو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحَر بے حجاب
پردہ اْٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
علامہ اقبال (بال جبریل)
جب برصغیر میں مسلمان اپنے عقائد کی ادائیگی میں مشکل محسوس کرنے لگ گئے
تھے اور ہندووں کے ظلم و ستم اور انگریزوں کی ناانصافیوں سے بری طرح پس رہے
تھے تب مسلمانوں کے رہنماوں نے ایک نظریہ پیش کیا۔ ایک ایسا نظریہ جس کے
تحت مسلمان اپنی زندگی گزار سکیں۔ اس نظریے کو نظریہ پاکستان کے نام سے
منسوب کیا گیا۔
نظریہ پاکستان ایک ایسا نظریہ ہے جس کے تحت مسلمان اپنی زندگی اپنے دین کے
اصولوں پر آزادانہ طور پر عمل کر کے گزاریں۔ سو اسی نظریے کے تحت مسلمانوں
نے الگ وطن کے لیے جدوجہد شروع کی۔ انتھک محنت اور بہت سی قربانیوں کے بعد
کہیں جاکر مسلمانوں کے حصے میں کامیابی آئی۔
اْمید کیا ہے سیاست کے پیشواؤں سے
یہ خاک باز ہیں، رکھتے ہیں خاک سے پیوند
مسلمانوں کے رہنما قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دوقومی نظریہ کے حوالے سے
انتھک محنت کی اور مسلمانوں کی بہترین رہنمائی کرتے ہوئے علیحدہ وطن حاصل
کیا۔ ایک طرح سے علامہ اقبال کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ قائداعظم
محمد علی جناحؒ پاکستان کے پہلے گورنرجنرل منتخب ہوئے۔ وہ دن رات محنت کرنے
کی وجہ سے بے حد بیمار ہوگئے تھے پاکستان بننے کے تقریبا سال بعد ہی ان کا
انتقال ہو گیا۔ ان کے بعد بہت سے حکمران آئے پر وہ صحیح سے پاکستان میں
اسلام کا نفاذ نہیں کرسکے۔ پاکستان کے مسلمان عرصہ دراز سے ہندووں کے ساتھ
رہنے سے ان کے بہت سی روایات اپنا چکے تھے۔آج تک ان روایات کو ختم کرنے کے
لیے اسلام کے نفاذ کی بے حد ضرورت رہی ہے۔
پر ابھی تک اسلامی تعلیمات سے ملک کے بہت سے لوگ کوسوں دور ہیں۔ مسلمانوں
نے الگ وطن تو لے لیا پر ہندووں نے اس بات کو ابھی تک دل سے تسلیم نہیں کیا۔
وہ میڈیا کا سہارا لے کر پاکستان کے نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنانے کی
کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایک قسم کا مسلمانوں کو بے راہ روی کا شکار بنا رہے
ہیں۔
اسلامی تعلیمات کا نفاذ:
نظریہ پاکستان کی بقا کے لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جتنا ممکن ہو سکے
ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں اسلامی تعلیمات کا نفاذ کیا جائے۔ جب
مسلمانوں کو اپنے دین کو سمجھنے کا اور عمل کرنے کا موقع ملے گا تو ملک میں
پھیلے انتشار میں خاطرخواہ کمی دیکھنے کو ملے گی۔ دین سے دوری بھی پاکستان
کے زوال کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اسلامی تعلیمات پرائمری حصے سے ہی لازمی قرار
دی جانی چاہیے۔ گریجویشن تک اسلامیات کی کتاب لازم ہو۔ ہوسکے تو قومی زبان
کو فروغ دیا جائے۔ یہ بھی ازحد ضروری ہے اس سے تعلیم سے بھاگنے والوں میں
کمی ہو گی۔ کیونکہ انگلش ایک اجنبی زبان ہے جس سے طلبا گھبرا جاتے ہیں اور
تعلیم سے ان کا دل اچاٹ ہو جاتا ہے۔
میڈیا کا رول:
اے کہ غلامی سے ہے روح تری مضمحل
سینہ بے سوز میں ڈھونڈ خودی کا مقام
نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے پاکستان میں سب سے پہلے انڈیا کی فلم و ڈرامہ
انڈسٹری کو بین کر دیا جانا چاہیے۔ اس سے ایک واضح مثبت فرق دیکھنے کو ملے
گا۔ کیونکہ وہ لوگ میڈیا کے ذریعے آنے والی نسل میں ایسا زہر بھرنا چاہتے
ہیں تاکہ ان کو ذہنی غلام یا بیمار بنا سکیں۔نامحسوس انداز میں وہ ہمارے
بچوں کو مادیت پرست بناتے ہوئے ہمارے خلاف کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی میڈیا
کا صحیح استعمال یہ ہے اس کے ذریعے اصلاحی پروگرام کیے جائیں تا کہ ہر کوئی
آگاہی حاصل کرئے۔
ورنہ جو حال ہے اس سے نظریہ پاکستان کی بقا خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔ جس
نظریے کے تحت ہم نے یہ ملک حاصل کیا تھا افسوس کہ اس نظریہ کا نفاذ کرنے
میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔
افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تْو
دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات
اقبال کے شاہین اب فلم و موسیقی کی طرف راغب ہو چکے ہیں اور اپنے بڑوں کی
قربانیوں کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ آہستہ آہستہ دین سے بھی دور ہوتے جارہے
ہیں۔ اگر تو نوجوانوں کو نئی آنے والی نسل کو اچھے رہنما نہ ملے تو تباہی
کی طرف بڑھتے قدموں کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ جیسے بھی ہو نظریے کی بقا کے
لیے بیداری کی ضرورت ہے ورنہ غفلت تو اکثر نقصان کا باعث بنتی ہے۔
گزر جا بن کے سیل تند رو کوہ و بیاباں سے
گلستاں راہ میں آئے تو جوئے نغمہ خواں ہوجا
اﷲ اس وطن کا حامی و ناصر ہو۔ اﷲ مسلمانوں میں احساس بیداری پیدا فرمائے۔
اﷲ پاکستان کو پھر علامہ
اقبال اور قائد اعظم جیسے مخلص رہنما عطا فرمائے۔آمین
نظریہ پاکستان کی بقا کے حوالے سے بہت ہی گہرائی لیے ہوئے
علامہ اقبال کی ایک نظم: جس میں بہت سے اسرار پوشیدہ ہیں۔
۔ اِمامت
تْو نے پْوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئِنے میں تجھ کو دکھا کر رْخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دْشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہْو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتن ملّتِ بیضا ہے امامت اْس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے!
ضرب کلیم سے انتخاب۔ |