23مارچ پاکستان کے لیے ایک یوم عزم ہے۔ یقینا یہ ایک
اسلامی فلاحی ریاست کی تاسیس و تشکیل کے عزم کا دن تھا۔ یہ ایک ایسے خطے
میں اسلامی ریاست کی تشکیل کا عزم تھا جہاں برطانوی استعمار اور ہندو مت کے
تعصب نے مسلمانوں کے لئے اسلامی شناخت کو عیب اور جرم بنا رکھا تھا۔مسلمان
اپنی ہی بستیوں میں بیگانے اور اپنی ہی سر زمین میں غلام تھے۔ در حقیقت اگر
تاریخ کے اوراق کا پلٹ کر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بلکل واضح ہو
جاتی ہے کہ برصغیر میں اسلامی ریاست کا تصور تو اسی دن پیش کر دیا گیاتھا
جب محمدبن قاسم نے سندھ کی سر زمین پر قدم رکھا تھا اور پاکستان کا تصور
یقینا اس نام کے ساتھ تو نہیں لیکن اس تقسیم کے ساتھ تو یقینا اسی دن پیش
کر دیا گیا تھا جس دن پرتھوی راج کے مقابلے میں شہاب الدین غوری نے
1192ئمیں اپنی فوجیں اتارنے کا فیصلہ کیا تو جنگ سے پہلے ایک تحریر جو
پرتھوی راج کے سپہ سالار کو بھیجی اس میں یہ درج تھا کہ مجھے پنجاب سندھ
اور سرحد کے علاقے دے دو اور باقی علاقے تم اپنے پاس رکھو ورنہ جنگ کے لئے
تیار ہو جاؤ۔بلوچستان کا تقاضا اس لئے نہیں کیا گیا کہ وہاں مسلمانوں کی
حکومت پہلے سے موجود تھی دوسری طرف بنگلہ دیش کا ذکر تو 23مارچ 1940ء والی
قراداد پاکستان میں بھی موجود نہیں تھا۔ اس کو بعد ازیں بنگالیوں کے مطالبے
پہ پاکستان کے ساتھ شامل کر لیا گیا تھا۔ برصغیر نطریاتی اور فکری اعتبار
سے دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ یہ نعرہ صرف محمد علی جناح یا تحریک
پاکستان کے چند لیڈروں کا نہیں تھا بلکہ یہ فکر برصغیر میں بہت پہلے سے
مضبوط ہو چکی تھی لیکن اس سوچ کے علم کو اٹھانے والے، اس خواب کو تعبیر میں
بدلنے کے لئے، اس تصور میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لئے اور اس نظریہ کو عملی
جامہ پہنانے کے لئے جس شخصیت نے امت و ملت کا یہ بوجھ اپنے کندھوں پہ
اٹھایا۔ یقینا یہ قرارداد 1940ء کو ہی نہیں بلکہ 1930ء میں محمد علی جناح
نے اپنے دل میں پاس کر دی تھی کہ اب ایک ایسی ریاست کا قیام ناگزیر ہے جس
کی بنیاد صرف وہ کلمہ ہو گا جس کے حق ہونے میں کسی کو شک نہیں اور یہ بات
ایک برطانوی مصنف نے اپنی کتاب میں لکھی ہے کہ اس نے محمد علی جناح سے
انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے پہلی دفعہ پاکستان بنانے کا کب سوچا تو
جناح نے جواب دیا 1930ء میں۔
یہ قرارداد جو 1940ء کو منظور ہوئی اس قراداد کا دن مناتے ہوئے یاد رکھئیے
کہ یہ یوم عزم ہے ایک ایسی ریاست کا جہاں کلمہ توحید کی سر بلندی ہوگی۔
یہ یوم عزم ہے ایک ایسی ریاست کے قیام کا جس کی سیاست کے اصول عین اسلامی
ہوں گی۔ یہ یوم عزم ہے ایک ایسی ریاست کی تاسیس کا جس میں مسلکوں اور فرقوں
پر نہیں بلکہ اسلام کی بنیاد پر ایک خوبصورت دینی ماحول میسر کیا جائے گا۔
یہ یوم عزم ہے ایک ایسی ریاست کے قیام کا جس میں اخوت ومودت کی مثال قائم
کی جاسکے۔
یہ یوم عزم ہے ایک ایسی ریاست کی تشکیل کا جہاں اپنا سب کچھ ملک و ملت کے
لئے قربان کرنے والوں کو عزت مل سکے گی۔ یہ یوم عزم ہے ایک ایسی ریاست کی
بنیاد رکھنے کا جو اپنے دین و دنیا میں اسلام کی بہترین مثال ہو۔
یہ یوم عزم ہے ملک کے عوام کے لئے کہ وہ اس ملک کی تعمیر وترقی میں کردار
ادا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔اپنی ریاست کے ساتھ کھڑے رہیں اور اس
ملک کو توڑنے اور کمزور کرنے کی دشمن کی ہر کوشش کو ناکام بنا دیں۔ یہ یوم
عزم ہے اس ملک کے تاجروں کے لئے کہ وہ محمد علی جناح کے عزم کو تکمیل تک
پہنچانے کے لئے اپنے مال میں سے اﷲ کا اور ملک اور عوام کا حق ادا کریں
تاکہ یہ ملک دنیا کی اقتصادی قوتوں کو مات دے کر اہل اسلام کا قلعہ بن سکے۔
یہ یوم عزم ہے اس افواج پاکستان کے لئے کہ اس ملک کے دفاع کو ناقابل تسخیر
بنانے میں اپنی تاریخ کو یاد رکھیں۔یہ در اصل یوم عزم ہے اس ملک کے مقتدر
طبقے کے لئے کہ پاکستان کے عوام اور دنیا بھر کے مسلمان اس ملک کو اس تصویر
میں دیکھنا چاہتے ہیں جس میں خون کے ساتھ رنگ بھرا گیا۔ اس ملک کو اس شکل
میں دیکھنا چاہتے ہیں جس کے لئے قربانیوں کی ایک بے مثال داستان پیش کی گئی۔
اس ملک کی فضاؤں اور ہواؤں میں وہ سکون و اطمینان دیکھنا چاہتے ہیں جس کی
تلاش میں یہ لوگ ہندوستان سے پاکستان چلے آئے تھے۔
یاد رکھنا یہ ملک کسی موروثی سیاست کے ساتھ کبھی نہیں چل سکے گا کیونکہ یہ
جاگیروں کی ملکیت یا وڈیروں کی حویلی نہیں اس کی قیمت میں کلمہ طیبہ کے لئے
بہنے والا مقدس و مخلص خون ہے۔جو اس کے ساتھ مخلص رہے گا وہ محفوظ رہے گا
ورنہ تاریخ میں وہ ملک و ملت کا غدار لکھا جائے گا۔ آئیے اج اس دن اسی عزم
کو دہراتے ہوئے اپنے ملک کی از سر نو تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا
کیجئیے کسی کے کردار پر تبصرہ کرنے کی بجائے ملک و ملت کے لئے اپنا کردار
ادا کیجئیے اور محمد علی جناح کے اس عزم کو مکمل عملی جامہ پہنانے کے لئے
خود بھی تیار رہئییاور اپنی آنے والی نسلوں کی بھی اسی بات پہ تربیت کیجیئے۔
اسلام زندہ باد۔
پاکستان پائندہ باد۔ |