علامہ احسان الہی ظہیر اسم با مسمی شخصیت کے حامل اور
حقیقی معنوں میں وطن عزیز پاکستان میں اللہ تعالیٰ کا ایک عظیم احسان تھے
جنھوں نے ملک و ملت کا نام خوب روشن کیا اور ملکی داخلی سیاست میں بد
انتظامی اور بد دیانتی پر ببانگ دہل آواز اٹھائی۔ یقیناً ایسی نابغہ روزگار
شخصیات روز پیدا نہیں ہوتیں اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 32 برس گزر جانے کے باوجود لوگ ان کو یاد کرتے ہیں اور ان کا
ذکر علمی اور سیاسی میدان میں ایک با اثر شخصیت کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔
وہ سیالکوٹ کے ایک دین دار گھرانے میں 31مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ بچپن ہی
سے پڑھنے لکھنے کی طرف راغب تھے ۔ ساڑھے آٹھ یا نو برس کی عمر میں قرآن
مجید حفظ کر لیا۔ابتدائی تعلیم جامعہ شہابیہ سیالکوٹ سے حاصل کرنے کے بعد
گوجرانوالہ کے جامعہ اسلامیہ میں داخلہ لے لیا۔ اور وہاں سے درس نظامی کی
تکمیل کی۔ صرف، نحو، منطق، اصول حدیث اور اصول فقہ کی بنیادی کتابیں حفظ
کیں۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا ابو البرکات احمد مدراسی رحمہ اللہ، محدث
العصر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ اور مولانا شریف خان رحمہ اللہ شامل ہیں۔
طلب علم کے ذوق کی تسکین کے لیے آپ نے مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور
بڑی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسباق کی تکمیل کی۔ آپ کی علمیت
اور زبان پر دسترس سے متاثر ہو کر اساتذہ نے رد قادیانیت پر لیکچر دینے کی
ذمہ داری سونپی آپ کے ان دروس کو مدینہ کے ایک مکتبہ نے آپ کے پاکستان
لوٹنے سے پہلے مرتب کر کے شائع بھی کیا۔
1970ء میں مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد انہوں نے سعودی عرب اور پاکستان
کے علاوہ بعض دوسرے ممالک سے آنے والی اعلیٰ عہدوں کی پیشکشوں کو ٹھکراتے
ہوئے تبلیغ وتحریر کے مشن کو اپنایا اور تادمِ آخر اسی سے وابستہ رہے۔
علامہ شہیدؒ نے 1968ء میں باقاعدہ سیاست کا آغاز اقبال پارک میں خطبہ عید
کے دوران کیا اس وقت کیا جب جنرل ایوب خان کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔
ابتداء میں علامہ ظہیر ؒ تحریکِ استقلال سے وابستہ ہوئے تو انہیں تحریک کا
مرکزی سیکرٹری اطلاعات بنا دیا گیا۔بعد ازاں قائم مقام سربراہ بھی رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی نام نہاد عوامی حکومت کے خاتمے کے لئے علامہ نے
تحریک ختم نبوت میں بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا اور تحریک کے اہم مرکزی
قائدین میں شمار ہوئے۔ 1977ء کی تحریک میں بھی سرگرم رہے ،قید وبند کی
صعوبتیں برداشت کیں،مقدمات جھیلے، ان پر بھٹو حکومت کے دوران 95 سیاسی
مقدمات قائم کے گئے۔ جن میں قتل کے مقدمات بھی شامل تھے بعدازاں تحریک
استقلال کے سربراہ اصغر خان سے اختلافات کی وجہ سے انہوں نے تحریک استقلال
سے علیحدگی اختیار کرلی۔ وہ ایم آر ڈی کی رونق تھے لیکن ایم آر ڈی میں
باقاعدہ شامل نہ ہوئے۔ پنجاب میں وہ جنرل ضیاء الحق کے سب سے بڑے مخالف
خیال کئے جاتے تھے۔ وہ مارشل لاء نظام حکومت کو اسلام کے منافی قرار دیتے
تھے۔ انہوں نے ایک سہ جماعتی اتحاد بھی بنایا جو عام اتحادوں کی طرح زیادہ
دیر نہ چل سکا پھر انہوں نے اپنی جماعت کو سیاسی قوت بنانے کا فیصلہ کر لیا
یہ فیصلہ انہوں نے اس وقت کیا جب ان کی اپنی جماعت کے بہت سے علماء حضرات
مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے۔
انہوں نے جماعت کے بزرگوں میاں فضل حق مرحوم ، معین الدین لکھوی سابق ایم
این اے، عبدالقادر روپڑی مرحوم اور مولانا محمد حسین شیخوپوری سے درخواستیں
کرنے کے بعد جمعیت اہل حدیث کے نام سے الگ جماعت بنا لی۔ جس کے سربراہ
مولانا محمد عبداللہ مرحوم پرنسپل جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ منتخب ہوئے اور
علامہ ظہیر ناظم اعلیٰ ، انہوں نے اہل حدیث نوجوانوں کو اہل حدیث یوتھ فورس
کے پلیٹ فارم پر جمع کرنا شروع کردیا اور براہِ راست نوجوانوں کی تربیت
شروع کی دوسری طرف ان کی یہ کوشش رہی کہ وہ تمام اہل حدیث جو دوسری جماعتوں
میں شامل ہیں ان کو واپس لایا جائے۔ علامہ شہیدؒ کی کوششوں سے بہت جلد
جمیعت اہل حدیث ملک کی صفِ اول کی سیاسی جماعتوں کے شانہ بشانہ آ کھڑی
ہوئی۔ موچی دروازہ ، لیاقت باغ، نشتر پارک ، قلعہ کہنہ، قاسم باغ، دھوبی
گھاٹ فیصل آباد ، شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں ہونے والے فقءد المثال
جلسے اور وائس آف جرمنی، وائس آف امریکہ اور بی بی سی کے تبصرے اس بات کے
واضح گواہ ہیں کہ مارشل لاء کے حواریوں کو علامہ مرحوم خار کی مانند کھٹکتے
تھے۔ شریعت بل پیش ہوا تو مختلف فورموں میں بالخصوص اور عوامی جلسوں میں
بالعموم انہوں نے نام نہاد شریعت بل کے پرخچے اڑا دئیے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ
اہلِ حدیثوں اور بالخصوص میرے ہوتے ہوئے کوئی عوام کو بیوقوف نہیں بنا سکتا۔
سیاسی کیریئر میں بھٹو کے شدید مخالف رہے۔ ضیاء الحق سے ابتدا میں پر امید
تھے کہ وہ پاکستان میں نفاذ اسلام میں سنجیدگی دکھائیں گے مگر جب ضیاء الحق
حکومت بھی نفاذ شریعت میں ناکام رہی تو کھل کر اس کی مخالفت کی۔
علامہ احسان ایک دلپذیر شعلہ بیاں مقرر بھی تھے جو سامعین کو اپنے سحر میں
لے لیتے۔ 20 مارچ 1987 کو چنیوٹ میں خاتم النبیین کانفرنس تھی۔ علامہ مرحوم
سب سے آخر میں خطاب کرنے کے لیے تشریف لائے کہ بوندا باندی شروع ہو گئی اور
اور دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ جب علامہ نے دیکھا کہ
لوگ بارش کی وجہ سے اضطراب کا شکار ہیں تو آپ نے کمال حکیمانہ انداز سے
حاضرین کو مسحور کر دیا۔ آپ نے سر سے جناح کیپ اتار دی، آستینیں چڑھا لیں
اور فرمایا:
"تم بارش سے بھاگتے ہو، مجھے تو وہ دیوانے چاہییں جو گولیوں کی بوچھاڑ کے
سامنے سینے کے بٹن کھول دیں۔"
یہ سننا تھا کہ جو کوئی جہاں کھڑا یا بیٹھا تھا، وہیں جم گیا۔
عالم باعمل، محدث العصر، مفتی دوراں، شعلہ نوا مقرر ، نامور ادیب ،عظیم
صحافی، اعلیٰ مبلغ اور کئی دینی کتابوں کے مصنف علامہ احسان الٰہی ظہیر
23مارچ 1987ء بروز پیر قلعہ لچھمن سنگھ لاہور کے مین بازار کے فوارہ چوک
میں جلسہ تھا۔ علامہ صاحب مسلسل جلسوں اور طبیعت کی ناسازی کے باعث رات
10:40 پر جلسہ گاہ تشریف لائے اس وقت آپ کے رفیق کار علامہ حبیب الرحمن
یزدانی خطاب فرما رہے تھے۔ 11:05 پر علامہ صاحب مائیک پر جلوہ افروز ہوئے۔
علامہ صاحب کے خطاب کا مرکزی نکتہ ملت اسلامیہ کا اتحاد و اتفاق تھا۔ انھوں
نے کہا کہ اگر پاکستان کے دس کروڑ مسلمان مرنے کا عزم کر لیں تو رب کعبہ کی
قسم ساری کائنات انھیں ختم نہیں کر سکتی۔ 11:35 پر علامہ صاحب نے حکیم
الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا یہ شعر پڑھا
کافر ہےتو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی.....
ابھی اتنے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ سٹیج پر ان کی بائیں ٹانگ کے قریب سے
ایک بم پھٹا اور ایک کہرام بپا ہو گیا۔ علامہ حبیب الرحمن یزدانی سمیت آٹھ
افراد موقع پر شہید ہو گئے اور علامہ احسان الہی ظہیر سمیت 90 سے زائد
افراد زخمی ہوئے۔ علامہ صاحب کو شدید زخمی حالت میں لاہور کے میو ہسپتال
میں لایا گیا۔ 28 مارچ تک آپ کا علاج جاری رہا مگر حالت تشویشناک رہی۔ ملت
اسلامیہ کے اس شہیر علامہ کو علاج کے لیے سعودی عرب اور عراق سے پیشکش ہوئی
آپ نے سعودی عرب کی پیشکش قبول کر لی اور اسی رات سعودی عرب روانہ کر دیا
گیا۔ 29 مارچ کو سعودی عرب پہنچتے ہی علامہ صاحب کو ریاض کے جدید ترین
ملٹری ہسپتال میں داخل کر دیا گیا جہاں انتہائی جانفشانی سے علامہ کا علاج
جاری رہا۔ 30 مارچ کی رات علامہ صاحب اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ علامہ
صاحب کس قدر رشک آفریں قسمت کے مالک تھے کہ ان کو جنت البقیع میں صحابہ،
تابعین، تبع تابعین، محدثین و مفسرین کے درمیان دفن کیا گیا۔
و حسن أولئك رفيقا |