شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی پیدائش
۲۷ اکتوبر ۱۹۴۳ء میں ہوئی ،آپ عالم اسلام کے مشہور عالم اور جید فقیہ ہیں ،آپ
کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے ،آپ ۱۹۸۰ ء سے
۱۹۸۲ ء تک وفاقی شرعی عدالت اور ۱۹۸۲ ء سے ۲۰۰۲ ء تک عدالت عظمیٰ پاکستان
کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں ۔آپ اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ کے نائب صدر
اور جامعہ دارالعلوم کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں ،اس کے علاوہ آپ آٹھ
اسلامی بینکوں میں مشیر کے طور پر کام کررہے ہیں ۔
یہ وہ شخصیت ہے جن کی تواضع کی سند علامہ محدث بنوری رحمہ اﷲ علیہ ـ’’ مسکن
ابن مسکین ‘‘ فرماکر دیا کرتے تھے اور کبھی ’’ الشیخ الشاب ‘‘ فرماکر محبت
کا اظہار کرتے تھے ۔جب معارف السنن کا سیٹ بطور انعام دیا تو اس کی پہلی
جلد پر جلی حروف میں لکھا ’’ اقدم ھذا الکتاب باجذاۂ الستۃ الی اخیہ فی اﷲ
الاستاذ الزکی العالم الزکی الشاب التقی محمد تقی اعجابا بنبوغۃ فی کتا بات
مجلۃ الشھیریۃ البلاغ خصوصا فی ردہ علی کتاب خلافت وملوکیت ردا بلیغا ناجحا
حفظہ ووفقہ لا مثال امثالہ وھو الموافق ‘‘ جن کے بارے میں مفتی اعظم
پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب فرماتے تھے کہ ’’دیکھنا تقی ایک دن مجھ سے بھی
آگے نکل جائے گا ‘‘
جنہیں شیخ عبدالفتاح ابوغدہ ’’ تفاحۃ الھند وباکستان ’’ کے لقب سے یاد کرتے
تھے ۔اور ایک مرتبہ ازرہ محبت فرمایا ’’ لوکنت تفاحۃ لاکلتک ‘‘جنہیں شیخ
یوسف القرضاوی نے ’’ الشیخ القاضی المحدث الفقیہ الاریب الادیب الکامل ‘‘
جیسے القابات سے نوازا ۔شیخ یاسین الفادانی المکی رحمہ اﷲ نے اپنی تمام
اسناد آپ کو دیکر آپ کے نام کتابی شکل میں شائع کی ہے ،جس کا نام ’’ الفیض
الرحمانی باجازۃ فضیلۃ الشیخ محمد تقی العثمانی ‘‘ ہے۔جس کے مقدمے میں آپ
کا تذکرہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔’’حضرت الشیخ الاجل الابر الفائق فی کل
فن علی اقرانہ والسامی فی اندیۃ الخیر علی اخدانہ محمد تقی العثمانی ‘‘
جن کو شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اﷲ علیہ نے ایک خط کے جواب میں لکھا کہ
’’مجھے تو خود تمہیں خط لکھنے کو کھاج (خواہش) اٹھے‘‘۔
جن کو مفتی سیاح الدین کاکا خیل رحمہ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ ’’ الولد
سرلابیۃ کا مقولہ آپ کے حق میں بالکل صحیح ثابت ہوا‘‘۔
مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اﷲ علیہ کاروان زندگی میں لکھتے ہیں ’’
مولانا تقی عثمانی صاحب کی راقم کے دل میں جو قدر ومنزلت ہے اس سے اس کے
احباب بخوابی واقف ہیں اور ان کو بھی غالبا اس کا احساس ہے ۔حضرت مولانا
شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اﷲ علیہ آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ
’’آپ ہمارے پاکستان کے علی میاں (ابو الحسن علی ندوی ) ہیں ۔دارالعلوم
دیوبند میں آپ کے استقبالیہ جلسے میں منتظم نے کہا کہ ’’ مفتی صاحب پوری
دنیا میں دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ہیں ‘‘۔
ایں سعادت بزور بازو نیست
|