22فروری جمعرات کے دن سن1990ءکو
جھنگ کی سرزمین میں 38سال کے ایک جوان عالم دین کو بڑی بے دردی سے شہید کیا
گیا،گھر کی دہلیزپر جب اس کا لاشہ تڑپ رہا تھا تو لہو کی ہر ایک بوند سے
یہی صدا بلند ہو رہی تھی!
سادہ سا ہے اپنا اصول دوستی کوثر
جو صحابہؓ سے ہو بیگانہ ہمارا ہو نہیں سکتا
وہ عالم دین جسے حضرت بلال حبشیؓ کی طرح گلیوں میں گھسیٹا گیا،جسے حضرت
خبابؓ اور حضرت حذافہ سہمی ؓ کی طرح ستایا گیا،جسے حضرت عثمانؓ کی طرح اپنے
اہل وعیال کے سامنے ذبح کیا گیا اور اس جوان نے اپنی قربانی پیش کرنے کے
بعد اپنے خون کے قطروں سے یہی پیغام دیا، کہ
حق بات کہو پھر ڈٹ جاﺅ چاہے گردن بھی کٹ جائے
خون بہے دشمن بھی کہے کردار صحابہؓ زندہ ہے
اس جوان عالم دین سے جب پوچھا گیا کہ حضرت اتنی کم عمری ہی میں بالوں میں
سفیدی کیسے آ گئی؟تو جواب ملتا ہے کہ ”یہ بات حقیقت ہے کہ دو دریاﺅں کے
حسین امتزاج کے درمیان،دیہاتی ماحول میں تندرستی کی حالت میں پروان چڑھا
ہوں،لیکن امی عائشہ صدیقہؓ کی خاطر اس ملک عزیز کے اندر جسے لاالہ الااللہ
کی بنیاد پر حاصل کیا گیا،اصحاب ؓ رسول کا دفاع کرتے ہوئے اپنے کمزور اور
ناتواں جسم کے اوپر اتنے مظالم سہے ہیں کہ ظلم وتشدد برداشت کرتے کرتے میری
داڑھی کے اندر سفیدی آچکی ہے۔“وہ جوان عالم دین جو مجذوبانہ انداز میں جب
اپنی اور تمام مسلمانوں کی ماں سیّدہ عائشہ صدیقہؓ کو بے اختیار لہجے میں
امی امی پکارتا تھا تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ کائنات کی ہر چیز اس ہی امی
کا نام بلند کر رہی ہے۔
آج اس کے دنیا سے جانے کے اتنے سالوں کے بعد بھی بہت سارے سوالات ایسے ہیں
جو لوگوں کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں کہ آخر اس عالم دین کو ایسی کون سی
ضرورت پیش تھی کہ مصلحت پوشی کے اس دور میں جب ہر کوئی اپنا اپنا پیٹ پالنے
اور پیسہ اکٹھا کرنے کی فکر میں تھا تو اس نے وقت کے ایک انٹرنیشنل فتنے کے
ساتھ بے سروسامانی کے ساتھ ٹکر کیوں لی؟اس کو ایسی کون سی مجبوری تھی جب ہر
کوئی اپنی آواز کو بیچ رہا تھا تو اس نے زمانے سے ہٹ کر اپنی خطابت کو
کاروبار بنانے کے بجائے اپنا دین کیوں سمجھا؟اس پر ایسی کیا افتاد ٹوٹ پڑی
تھی کہ جب ہر خوش الحان عالم دین کے پاس کار ،کوٹھی اور بہت سی جائیداد تھی
تو اس نے اپنے بچوں کے لئے بھی اپنا ذاتی مکان نہ بنایا؟کیوں؟اس کو ایسی
کیا پریشانی اور فکر تھی کہ جس نے چودہ سو سال کے علماء کرام کے فتاویٰ جات
جو کل تک مساجد اور حجروں میں بیان ہوتے تھے اور جو صرف اپنے قریبی و معتمد
ساتھیوں ہی کو بتائے جاتے تھے یا کتابوں میں درج کئے جاتے تھے، اس نے ان
فتاویٰ جات کو گلی ،چوکوں اور چوراہوں میں ببانگ دہل بیان کر دیا ،اس تمام
کام کا اس کو انجام بھی پتا تھا لیکن پھر بھی اس نے اپنے آپ کو دوسرے کی
طرح چھپا کر نہ رکھا ،اس نے جب اسلام کے خوبصورت لبادے میں لپٹے ہوئے بین
الاقوامی کفر کو ساری دنیا کے سامنے آشکارا کیا اور دین اسلام کے حقیقی
ہیرو صحابہؓ کرام کی ذات کو لوگوں کے سامنے متعارف کرایا تو اس کی شرم گاہ
کے اندر مرچیں ڈالی گئیں،جب اس عالم دین نے صحابہؓ کا دفاع کیا تو اسے اپنے
ہی گھر کی دہلیز پر ذبح کر دیا گیا۔
اس عالم دین کے اندر اک فکر،اک کڑھن تھی کہ پاکستان کی سرزمین کے اوپر
اسلام کے غلبہ کے لئے ،پاکستان کی سرزمین پر نظام مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے عملہ نفاذ،اسلام کے عادلانہ نظام کو قائم کرنے کے لئے سب سے بڑی
رکاوٹ کو جب تک دور نہ کر دیا جائے،تب تک خلفائے راشدینؓ کا نظام نافذ نہیں
ہو سکتا۔وہ رکاوٹ کون سی تھی۔جس کے لئے اس نے سارے زمانے سے بغاوت کی اور
اپنے آپ کو اپنے گھر اور اپنے چاہنے والوں کو مصیبت میں ڈالا؟وہ رکاوٹ ایک
ہی تھی کہ جب کوئی یہ بات کرتا کہ پاکستان میں وہ نظام صدیقؓ اکبر نافذ کیا
جائے جس کے لئے ہمارے آباﺅاجداد نے قربانیاں دی،تو سامنے سے ایک ٹولہ،ایک
گروہ،ایک فرقہ اس بات کے اوپر اپنے آپ کو تیار کرتا،اصرار کرتا کہ کس صدیقؓ
کی بات کرتے ہوتے ہو(نعوذباللہ)جو غاصب تھا،جب بات کی جاتی کہ
کہہ رہا ہے ٹوٹا پھوٹا نظام زندگی
صدیقؓ تیرا طرز حکومت عظیم ہے
جب کہا جاتا کہ صدیق اکبرؓ کے اس نظام حکومت کو نافذ کیا جائے تو سامنے سے
ایک گروہ، بیورکریسی، وقت کے نام نہاد دانشور، اخبار کے ایڈیٹر اور کتابوں
کے مصنف اس بات کو ببانگ دہل کہنا شروع کر دیتے کہ تم اس صدیق اکبر ؓ کے
بارے میں بات کرتے ہو،اس فاروق اعظمؓ کے نظام عدالت کے بارے میں بات کرتے
ہو جسے اسلام کی ایک نام لیوا حکومت سرکاری طور پر لکھ چکی ہے کہ فاروق
اعظمؓ (نعوذباللہ) مسلمان نہ تھا،تم کس عثمان غنیؓ کی بات کرتے ہو (نعوذباللہ)
جس نے پیغمبر اسلام کی شریعت کو تبدیل کر دیا تھا،تو اس عالم دین نے
مخلصانہ طور پر اس بات کا اظہار کیا کہ جب تک صحابہ کرامؓ کے گستاخ و
منکر،صحابہؓ کے محب،نور اور ظلمت،کفر اور اسلام کے درمیان تمیز نہ کر دی
جائے،جب تک لوگوں کے سامنے اس بات کو بیان نہ کر دیا جائے کہ قرآن کا ماننے
والا کون ہے اور قرآن کو جلانے والا کون ہے؟، صحابہؓ کا محب کون ہے اور
منکر کون ہے؟،جب تک یہ واضح نہ کر دیا جائے کہ اصلی کلمہ اسلام کے ماننے
والے کون ہے اور جعلی کلمہ پڑھنے والے کون ہیں؟جب تک یہ تفریق نہ کر دی
جائے کہ!حقیقی بیت اللہ کے پاسدار کون ہیں اور بیت اللہ کے اندر جا کر
دھینگا مشتی اور تخریب کاری کرنے والے کون ہیں؟تب تک پاکستان کی سرزمین پر
اسلام کا نظام نافذ نہیں ہو سکتا اور وہ عالم دین یہی بات قرآن سنت اور
دلائل کی روشنی میں کرتا رہا،بالآخر باطل نے دلائل نہ ہونے کی وجہ سے گولی
کا سہارا لیا اور جھنگ کی سرزمین پر اس جوان عالم دین کو ابدی نیند سلا دیا
اور سمجھنے لگا کہ اب اس کے راستہ کی رکاوٹ کوئی نہ رہی لیکن اس کا دشمن یہ
بھول بیٹھا کہ اس نے مال و جائیداد تو نہ بنائی لیکن اپنے پیچھے ایک ایسی
قوم تیار کر گیا کہ اس کے ذہن میں گولی، ہتھکڑی اور جیل کا کوئی خوف نہیں،
اس کے روحانی فرزند اس کے مشن کو لے کر پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں اور
عنقریب اس کے خواب کو عملی جامہ پہنا دے گے۔(انشاءاللہ) |