22فروری کا دن ہمیں مولانا حق
نوازؒ کی لازوال جد و جہد اور عظیم مشن کی یاد دلاتا ہے ،امیر عزیمت مولانا
حق نواز شہیدؒ اپنے وقت کے بہت بڑے جید عالم دین اور دنیائے اسلام کی ایک
نابغہ روزگار شخصیت تھے ۔ آپ کی ساری زندگی اسلام کی خدمت میں گزری ،آپ عمر
بھر اسلام مخالف قوتوں کے خلاف سر گرم عمل رہے اور اہالیان وطن کے سینوں
میں حب اصحاب رسول ﷺکی شمعیں فروزاں کرتے رہے ۔ ، آپ ایک سچے عاشق رسولﷺ ،
ناموس صحابہ ؓ کے پاسبان ، خطابت کے بادشادہ ، علم وفضل ، زہدو تقویٰ کے
پیکر اور اتحاد امت کے علم بردار تھے ۔ باری تعالیٰ نے آپ کو خطابت کے بے
پناہ فن سے نوازا تھا آپ لاکھوں کے مجمع میں سحر انگیز تقریر کے ذریعے سے
سامعین کو مبہوت کر کے رکھ دیتے تھے ، دوران تقریر لگتا کہ سامعین کے دل ان
کے پہلو سے نکل کر آپ کی مٹھی میں بند ہو گئے ہیں۔آپ کا اہم اثاثہ دلیل کی
قوت اور وسیع مطالعہ تھا ، مولانا شہید کی فصاحت ، بلاغت ، سلاست ، شرافت
اور شائستگی سے ہر بندہ متاثر ہوتا تھا ، بلاشبہ آپ کا شمار ایسی شخصیات
میں ہوتا ہے جنہیں ہم عبقری (Genious)کہتے ہیں ۔ مدت قلیل میں ہی آپ کا
شہرہ چہار دانگ عالم میں پھیل گیا تھا ، مولانا بہت گہرے انسان تھے، ان کی
شخصیت کی گہرائی کی چھاپ آج بھی اہالیان پاکستان کے اذہان پر نقش ہے ۔ آپ
کی حیات ایک مکمل تگ و تاز اور جدو جہد سے عبارت تھی ، مولاناشہیدؒ نے قرآن
وسنت کے ذریعے سے علم و عرفان کی روشنی دور دور تک پھیلائی ، ان کا پڑھایا
ہوا سبق آج بھی بھلایا نہیں جا سکا ہے بلکہ گردش ِ لیل ونہار اور حوادث
زمانہ کے باوجود اس کی سرمستیاں بڑھتی ہی جارہی ہیں اور اس کی آب و تاب میں
اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ خداو ند تعالیٰ نے انہیں بلا کی شان دلربائی
عطاءفرمائی تھی ۔
اس مرد درویش کی ولادت باسعات پاکستان کے ایک پسماندہ خطے میں ہوئی تھی مگر
ایک عالم ان کے علم وفضل اور زہدو تقویٰ سے فیض یاب ہوا تھا۔ عجزو انکساری
آپ کا شعار ٹھہرا ، آپ ایک صاحب دیدہ و بیدار اور عشق رسالتﷺ و عشق صحابہؓ
سے مکمل سر شار تھے ۔ آپ نے حق اور سچ کے مشن کی خاطر تمام تر تکالیف اور
صعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں ، آپ حقیقی معنوں میں پیکر تقویٰ و تورع
اور تمام اسلامی فضائل سے مرصع تھے ، آپ فن خطابت میں بے مثل اور بیمثال
تھے ، بارہا انہیں حق بات کہنے کی پاداش میں جیل کی اونچی دیوارروں کے اس
پار دھکیل دیا گیا ، جیل کا پھاٹک ان کے لیے کئی بار کھلا اور کئی بار بند
ہوا مگر ان کے پایہ استقلال میں کمی ،لرزش اور لغزش تک نہ آسکی۔ جس دور میں
مولانا نے کلمہ حق ادا کرنے کا فن سیکھا تھا اس دور میں حق سچ کا پرچار
کرنے والوں کی زبان کاٹ دی جاتی تھی اور سچ لکھنے پر ہاتھوں سے قلم چھین کر
انہیں پہنچوں سے قطع کر دیا جاتا تھا ، حق بات کہنے سے قبل انسان کو ہزار
بار سوچنا پڑتا تھا ۔ مولانا شہید ؒ نے خطابت کے زمزمے اور معرکے حضرت امیر
شریعتؒ اور آغا شورش کاشمیریؒ سے حاصل کیے تھے ، ان کے لہجے کی کاٹ میں
مولانا ظفر علی خانؒ کا رنگ نمایاں تھا ، آپ کے لہجے کی للکار میں صدیق
اکبر ؓکی للہیت ، فاروق اعظمؓ کی سطوت ، عثمان غنی ؓکی حیاء، حیدر کرارؓ کی
شجاعت اور خالد بن ولیدؓ کی جوانمردی پائی جاتی تھی ۔ آسمان اس لحد پر شبنم
افشانی کرے جہاں پر یہ سچا عاشق رسولؓ اور صحابہ ؓ کا شیدائی ابد کی نیند
سوتا ہے باری تعالیٰ نے انہیں بے پناہ قسم کے اوصاف حمیدہ سے نوازا تھا ۔
مولانا حق نواز شہید ؒ نے پاکستان کے کونے کونے میں لاتعداد جلسوں ، عوامی
اجتماعات سے خطاب کر کے پاکستان کے غیور مسلمانوں تک اپنا پیغام پہنچایا ،
ان کا پڑھایا ہوا مہر و وفا کا سبق آج بھی دھرتی کے لوگوں کو یاد ہے ، امیر
عزیمت ؒ کی ساری زندگی احکام الہیٰ اور عشق رسالت ؓ ،ناموس صحابہؓ کی سر
شاری و بے قراری میں گزری اور آپ صحیح معنوں میں عشق رسالت ﷺ کے آسمان پر
مثل آفتا ب اور ماہتاب بن کر چمکے ۔آپ کے پر خلوص اور مضبوط دلائل و براہین
لوگوں کو کفر و ضلالت کی دلدل سے نکال کر جادہ مستقیم پر گامزن کرتے رہے ۔
آپ نے بالکل صحیح معنوں میں اسلامیان پاکستان کے دلوں کو فتح کیا اور مذہب
اسلام پر حملہ آور طاقتوں کے خلاف ہمیشہ سینہ سپر رہے ۔ جہالت و گمراہی کے
خاتمے کے لیے آپ کی مساعی جمیلہ اور گرانقدر خدمات کو تاصبح قیامت یاد رکھا
جائے گا ۔ جب جیل کی چار دیواری ، دارو رسن کی صعوبتیں ، ہتھکڑی و بیڑی کی
مہیب کھنک ، پاکستان کے حکمرانوں کی چیرہ دستیاں بھی آ پ کو اپنے مشن سے
باز نہ رکھ سکیں تو آخر کار باطل قوتوں نے انہیں راستے سے ہٹانے کا وہی
طریقہ اختیار کیا جو اس کے آباﺅ اجدا د صدیوں سے حق پرستوں کے خلاف اختیار
کر تے چلے آئے ہیں ۔ اس مرد حر ،مجاہد اسلام کو مورخہ 22فروری 1990ءکو سر
زمین جھنگ میں اپنے گھر کے قریب حق بات کہنے کے جرم میں فائرنگ کر کے شہید
کر دیا گیا اور یوں آسمان عشق رسالتﷺ کا یہ روشن ستارہ سرزمین جھنگ پر
ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا ۔
مجھ کو معلوم نہ تھا تیری قضاء سے پہلے
نجم تاباں بھی زمین دوز ہوا کرتے ہیں |