ہر گزرتے دن کیساتھ روپے کی قدر میں کمی ، بجلی ،
گیس سمیت اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ہونے والی مہنگائی
نے غریب اور متوسط طبقے کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ روز بروز بڑھتی غربت و
مہنگائی کی وجہ سے لوگ افسردہ ہیں اور حالات سے تنگ آ کر خودکشی تک کرنے پر
مجبور ہیں۔ مذید یہ کہ مرکزی بینک نے بھی نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے
ہوئے مہنگائی کی صورتحال کے پیش نظر شرح سود میں اضافہ کردیا ہے۔ دوسری طرف
روپے کی قدر میں کمی کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوچکا ہے ، اور انٹر بینک میں
ڈالر کی قدر 141 روپے کی نئی بلند ترین سطح تک جا پہنچی ہے جبکہ اوپن
مارکیٹ میں ڈالر 142 روپے کا ہو گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف سے
قرض لینے کے لئے روپے کی قدر میں مذید کمی کرنا ہوگی، اور حکومت نے روپے کی
قدر یکدم کم کرنے کی بجائے ڈالر آہستہ آہستہ مذید مہنگا کرنے کا فیصلہ کیا
ہے۔ جبکہ یکم اپریل سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ بھی
ملک میں گرانی کے نئے طوفان کا باعث بنے گا۔پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے
کے لیے مہنگائی اور گرانی کی موجودہ صورتحال باعث تشویش ہے۔ اور یہ حقیقت
ہے کہ جب بھی کوئی نئی سیاسی جماعت اور پرانے سیاسی چہرے بھیس بدل کر نئے
روپ میں جلوہ گر ہوتے ہیں تو عوام پاکستان نئی قیادت سے امیدیں باندھ لیتے
ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے انتخابات سے قبل بڑے بڑے دعوے کئے گئے،آئی
ایم ایف کے پاس جانے والوں کو فقیر کہا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ پی ٹی
آئی حکومت کے آتے ہی دودھ و شہد کی نہریں بہنا شروع ہوجائیں گی۔ قرضوں میں
ڈوبی قوم کو جب عمران خان نے برسراقتدار آنے کے بعد مہنگائی اور ٹیکسوں کی
بھر مار ختم کرنے کے خواب دکھائے تو قوم کو ان کے روپ میں ایک مسیحا نظر
آیا ۔ پاکستانی قوم نئے پاکستان میں سنہرے دور کے خواب دیکھنے لگی اور
عمران خان سے خوشحالی کی نہ جانے کتنی توقعات وابستہ کرلیں، غربت و مہنگائی
کے خاتمے کے لئے نہ جانے کتنی امیدیں باندھ لیں۔ کیونکہ پاکستانی قوم گزشتہ
72 سالوں سے کبھی کسی فوجی ڈکٹیٹر تو کبھی کسی جمہوری حکومت کے دعوؤوں اور
وعدوں کے سہارے محض جوتیاں گھساتی چلی آئی ہے ۔
مگر پی ٹی آئی کی حکومت بھی جس رفتار سے چل رہی ہے اس میں کردار سے زیادہ
گفتار سے کام لیا جا رہا ہے اور برسر اقتدار آنے کے بعد سے حکومتی اقدامات
محض ہاتھ باندھنے، اور اپوزیشن جماعتوں پر کڑی تنقید کی حکمت عملی سے زیادہ
کچھ نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج مہنگائی و بے روز گاری اور ملکی
قرضوں میں مذید اضافہ ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے باوجود
موجودہ حکمران بھی کشکول تھامے آئی ایم ایف کے در پے ہیں۔ جبکہ ڈالرکی
مسلسل اڑان کی وجہ سے عام عوام کی مشکلات مزیدبڑھ گئیں ہیں۔ اب جبکہ چین نے
بھی 2 ارب 10 کروڑ ڈالر پاکستان کو بھیج دئیے ہیں،اس سے پہلے سعودی عرب،
قطر، امریکہ، ورلڈ بنک سے بھی امدادیں مل چکی ہیں۔ اگر دیکھاجائے تو
پاکستان کو لگ بھگ دس ارب ڈالر مل چکے ہیں جبکہ پاکستان سے جمع ہونے والا
ریونیو بھی کھربوں روپے اکٹھا ہوتا ہے۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ ابھی تک
اتنی رقم اکٹھا ہونے کے باوجود پورا ملک نحوست کے بادلوں میں گھرا ہوا ہے
اورحکومت نے نئے ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کو مخبوط الحواس بنا دیا ہے،
مہنگائی اور بے روزگاری کے سبب ہر شخص پریشان اور مضطرب ہے جبکہ ملک میں
ترقیاتی کام بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان حالات میں قوم سوال کررہی ہے کہ
آخر پیسہ کہاں جارہا ہے ، حکومت کیوں اب تک ڈالر کی قیمت کنٹرول نہ کرپائی
جو کہ مہنگائی میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔ جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے
چیئرمین عمران خان عوام پاکستان سے معاشی و اقتصادی ترقی کے جو وعدے اور
دعوے کرتے رہے ہیں اب برسراقتدار آنے کے بعد ان کے برعکس اقدامات اٹھا تے
دکھائی دیتے ہیں، گزشتہ حکمران جماعتوں نے بھی ایسا قتل عام نہیں کیا جیسا
کہ ٹیکسوں اور قیمتوں میں اضافے کے نام پر عوام کو نشانہ ستم بنانے کی
تیاری کی گئی ہے۔ ہوناتو یہ چاہئے تھا کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے وعدوں کو
پوراکرتی اورعوام کوریلیف فراہم کیاجاتامگرافسوسناک امر یہ ہے کہ ریلیف کی
بجائے عوام کو تکلیف دی جارہی ہے۔
موجودہ حکومتی اقدامات سے غریب عوام کے مسائل حل ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے
ہیں جس سے لوگوں میں مایوسی پھیل چکی ہے، آج عوام کو کسی بھی قسم کاکوئی
ریلیف میسر نہیں۔دعوؤں کے برعکس ڈالر، گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ
کردیا گیا، اس صورتحال پر شہری چیخ رہے ہیں کہ اس نوع کے فیصلے کرنے میں
اسحاق ڈار تو کہیں بہت پیچھے رہ گئے، اسد عمر رفتار اور قد میں ان سے بہت
آگے نکل گئے ہیں۔ اگر موجودہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم نہیں کرسکتی تو اس
کوعوامی مسائل میں اضافہ کرنے کابھی کوئی حق حاصل نہیں۔ اگر غریب
پاکستانیوں کے زخموں کا مداوا کرنے کی بجائے مہنگائی و گرانی کا سونامی ہی
لانا تھا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومت ان سے کہیں بہتر تھی۔
جبکہ ملک کے سیاسی حالات بھی کچھ اچھے نہیں ، پاکستان کو آگے بڑھانا حکومت
اور اپوزیشن دونوں کا ہی فرض ہے لیکن کلیدی کردار ہمیشہ برسراقتدارسیاسی
طبقات کا ہوتا ہے۔ حکومت کو ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپوزیشن کو گلے سے
لگانا اور یہ باور کرانا چاہیے کہ پاکستان کو بلندی کی طرف لے جانے کے لیے
حکومت کو اپوزیشن کے متحرک کردار کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ معاشی استحکام براہ
راست سیاسی استحکام سے جڑا ہوتا ہے، وزیراعظم عمران خان کو علم ہونا چاہئے
کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں۔آج پاکستان معاشی طورپر
ایک نازک موڑ پر آن کھڑا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کو
بہتربنانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کی جائے ۔ اور عام آدمی
کو مہنگائی کے بوجھ سے بچانے کی تدابیر اختیار کرکے اشرافیہ کو براہ راست
ٹیکس کے نیٹ میں لایا جائے۔اگر تحریک انصاف کی حکومت غریب عوام کے حالات
زندگی بہتر بناناچاہتی ہے تو اسے آئی ایم ایف کے چنگل سے نکل کر ملکی وسائل
پر انحصار کرنا ہوگا، کیونکہ قرضے حاصل کرنے والے ملک کبھی بھی اپنے پاؤں
پر کھڑے نہیں ہوسکتے۔ |