یہ 24 فروری بروز اتوار کی ایک اجاڑ صبح تھی ۔ وہ ایسے کہ
ہمیں پچھلے دو روز سے فلو چل رہا تھا بخار اور درد نے نڈھال کر رکھا تھا ،
کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا دل پر ایک عجیب نا مرادی سی چھائی ہوئی تھی ۔ دن
کے ساڑھے گیارہ بجے کے قریب پاکستان سے وڈیو کال آئی ، دیکھا تو چھوٹے
بھائی کی بیوی کے چہرے پر ایک گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی ۔ ہمارے دل سے
بےاختیار یہی نکلا کہ اللہ رحم کرے پتہ نہیں اب یہ کیا بولے گی؟ اور وہی
ہؤا سلام دعا کے بعد اس نے کہا ابو کا انتقال ہو گیا ہے ابھی پندرہ منٹ
پہلے ۔
پاکستان میں اس وقت رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے ۔ معلوم ہؤا کہ آدھا گھنٹہ
پہلے تک ابو بالکل ٹھیک تھے ، انہیں ویسے بھی کسی بھی قسم کی کوئی بیماری
نہیں تھی کوئی دوا لیتے تھے نہ کوئی پرہیز تھا ۔ ہاں گذشتہ چند روز سے سردی
لگ جانے کے باعث ان کی طبیعت ناساز ضرور چل رہی تھی مگر اب سنبھل گئی تھی ،
کمزوری کے باعث زیادہ تر بستر پر ہی رہتے تھے ۔ ابھی تقریباً آدھا گھنٹہ
پہلے بھائی نے انہیں خود اپنے ہاتھ سے دلیہ کھلایا تھا اور یہ کہہ کر باہر
چلا گیا تھا کہ ابھی دس منٹ بعد واپس آ کر انہیں دودھ پلاؤں گا ۔ اور وہ
واقعی میں دس منٹ بعد آ بھی گیا تھا مگر ابو چلے گئے تھے ۔
ہؤا یہ تھا کہ اس بھائی کے جانے کے بعد سب سے چھوٹا والا بھائی آ کر وہیں
ابو کے برابر والے پلنگ پر لیٹ گیا تھا اور فون میں مصروف ہو گیا تھا ۔
پانچ سات منٹ گذرے ہوں گے کہ اسے محسوس ہؤا کہ ابو بالکل ساکت پڑے ہیں کسی
قسم کی کوئی جنبش یا حرکت نہیں ہے ۔ اس نے اٹھ کر دیکھا تو ابو بالکل بےحس
و حرکت تھے سب گھر اکٹھا ہو گیا برابر میں ہی واقع کلینک سے فوری طور پر
ڈاکٹر کو بھی بلا لیا گیا اس نے معائنہ کیا اور ان کے انتقال کی تصدیق کر
دی ۔ ابو کسی کو بھی کسی زحمت میں ڈالے بغیر بہت خاموشی کے ساتھ دنیا سے
رخصت ہو گئے ۔
ہمارے ابو کا نام پاشا تھا خاندان بھر میں وہ اسی نام سے پکارے جاتے تھے
ساتھ ہی وہ پورے شہر میں بادشاہ کے نام سے مشہور تھے ۔ یہ نام انہیں ان کے
بچپن کے دوستوں نے دیا تھا جو اتنا معروف ہؤا کہ اصلی نام قدرے پس منظر میں
چلا گیا ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم وہیں کے پرائمری اسکول سے حاصل کی تھی
پھر اس زمانے میں وہاں مڈل یا ہائی اسکول نہ ہونے کے باعث وہ مزید آگے نہ
پڑھ سکے ۔ مگر ان کی اردو لکھائی اتنی خوبصورت تھی کہ دیکھ کر یقین کرنا
مشکل کہ یہ بندہ صرف پرائمری پاس ہے ۔ پتہ نہیں کیسے انہوں نے تھوڑی بہت
انگریزی بھی سیکھ لی تھوڑا بہت پڑھنا انہیں آتا تھا ضرورت پڑنے پر کام چلا
لیتے تھے ۔ سندھی فرفر بولتے تھے اور پڑھ بھی لیتے تھے ۔
وہ اندرون و بیرون علاقہ کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھے ، وجہ اس کی یہ تھی
کہ وہ دانت اور سر کے درد ، یرقان اور سانپ بچھو کے کاٹے کے اُتارے کا دم
جانتے تھے ۔ بےشمار متاثرین کو اللہ تعالیٰ نے ان کے وسیلے سے شفا عطا
فرمائی ۔ اور دلچسپ بات یہ تھی کہ وہ قطعاً کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے ان
کا کہنا تھا کہ اس عمل کے کارگر رہنے یعنی اپنے قابو قبضے میں رہنے کی شرط
ہی یہی ہے کہ کسی سے کچھ نہ لیا جائے ۔ لہٰذا کبھی کسی سے ایک پائی بھی
نہیں لی کوئی زیادہ اصرار کرتا تھا تو کہتے تھے کہ یہ رقم کسی مسجد یا
مدرسے میں عطیہ کر دی جائے ۔
پچھلے سال ہم جا کر ان سے مل بھی آئے تھے ہماری کئی سالوں بعد وطن آمد پر
بےحد خوش تھے وہ جسمانی طور پر کمزور مگر بہت چاق و چوبند تھے ٹک کر تو
بیٹھتے ہی نہیں تھے بس ہر وقت کچھ نہ کچھ کرتے رہتے تھے بہت محنت و مشقت سے
پُر زندگی گذارے ہوئے تھے تو مصروف رہنے کی عادت اب بھی نہیں گئی تھی
حالانکہ اب اس کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی ۔ ہم نے تقریباً تین ہفتے ان کے
ساتھ گذارے اور یہی ان سے ہماری بالمشافہ آخری ملاقات تھی ورنہ تو وڈیو کال
پر بات ہوتی ہی رہتی تھی ۔ پھر یہ وقت بھی آیا کہ ان کا ساکت و جامد وجود
نظروں کے سامنے تھا اور ساری بات آنسوؤں کی زبان میں ہو رہی تھی رات وہاں
تھی یہاں دن اندھیر ہو گیا تھا ۔ جنازہ اٹھا تو ایسا لگا جیسے دل بھی اس کے
ساتھ ہی اٹھ گیا ۔ بس ہم پردیسیوں کی سب سے بڑی بد نصیبی یہی ہوتی ہے کہ
اکثر ہی اپنوں کی خوشی میں شریک ہو پاتے ہیں نہ غمی میں ۔ خاص طور پر جب ہم
دور رہ کر اپنے ماں باپ کو کھوتے ہیں تب ہم سے زیادہ غریب کوئی نہیں ہوتا- |