میرا سوال بہت سنجیدہ ہے، آپ کی طنزیہ مسکراہٹ میرے سوال
کا جواب نہیں. وہ اپنی آرام دہ کرسی سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے، چاۓ کے
چند گھونٹ لینے کے بعد کھڑکی سے باہرکے منظر میں گویا غرق ہو گئے، طویل
ہوتی ہوئی خاموشی کو ان کی با رعب آواز نے بلآخر توڑا. فرمایا، کوئی معاملہ
اتنا آسان اور سیدھا نہیں ہوتا جتنا دکھایا اور سمجھایا جا رہا ہے اور نا
اتنا مشکل اور دقیق ہوتا ہے جتنا بنا دیا جاتا ہے. اعتدال کا راستہ ہی
بہترین راستہ ہے، نا اندھی عقیدت بھلی ہوتی ہے اور نا بے مقصد دشمنی
کوپالنا دانشمندی قرار دیا جا سکتا ہے.
تمہارا سوال نیوزی لینڈ میں ہونے والے واقعے سے متعلق ہے، بلا شبہ یہ واقعہ
بہت اندوہناک تھا اور اس کی جتنی بھی مذمّت کی جائے کم ہے. جس طرح نیوزی
لینڈ کی حکومت نے ذمے دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا وہ نا صرف قابل ستائش
اور قابل تقلید ہے بلکہ جس طرح حکومت نے شہیدوں اور زخمیوں کی دادرسی کی ہے
اس کی مثال کم از کم جدید تاریخ میں ملنا مشکل ہے. اس واقعہ کے کچھ بنیادی
پہلو توبہت واضح ہے، جیسے کے، یہ حملہ غیر مسلّح افراد پر تھا، ایک خاص
مذہبی گروہ کو ان کی عبادت گاہ میں نشانہ بنایا گیا اور اس واقعہ میں جاں
بحق اور زخمیوں کا تعلق غیر مقامی آبادی سے تھا. کیوں کہ یہ اپنی نوعیت کا
پہلا واقعہ نہیں ہے اور اس حملے کے پیچھے کیا وجوہات ہو سکتی ہے یہ ایک الگ
بحث طلب عالمگیری موضوع ہے جس پرپھر کبھی بات ہوگی لیکن ابھی ہم صرف ان
پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرے گے جو یا تو واہ واہ کی دھول میں کہیں
دب گئے یا جذبات میں رو میں بہہ کر نظر انداز کر دیئے گئے.
کیا تمہیں نیوزی لینڈ کی حکومت کا ردعمل کچھ حد سے بڑھا ہوا اور غیر فطری
نہیں لگا؟ کیا یہ وہی نیوزی لینڈ نہیں جس کی فوج تقریباً دو دہائیوں سے
افغانستان میں نیٹو کا حصّہ ہے اور کیا نیٹو فوج کی کارستانیوں میں نیوزی
لینڈ کی فوج حصّہ دار نہیں؟ پھر اچانک مسلمانوں کا خون اتنا بیش قیمتی کیسے
ہو گیا؟ جن مسلمانوں کا لہو افغانستان میں قابل توجہ اور قابل رحم نہیں
ہوتا انہی مسلمانوں کے غم میں نیوزی لینڈ کے لوگوں اور خصوصاً حکومت کا
سینہ درد سے کیوں پھٹا جا رہا ہے؟
دراصل اس واقعہ کے دو پہلو ایسے ہے جن پر اب تک شاید غلبہ جذبات کے باعث
سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا گیا ہے. پہلا یہ کہ اس حملے نے نیوزی لینڈ کی
ساکھ بحیثیت پرامن ملک کو بری طرح مجروح کیا ہے اور عرصہ دراز سے جس امن و
آشتی کونیوزی لینڈ کی کامیابی کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا وہ امن کی
عمارت ایک جھٹکے میں گرا دی گئ اور یہ کوئی معمولی بات نہیں جسے آسانی سے
صرف نظر کر کے آگے بڑھا جائے. آتشیں اسلحہ پر پابندی بھی اسی سلسلے کی کڑی
ہے کیوں کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اور حکومت کسی بھی ممکنہ ردعمل سے
خوفزدہ ہے اور جلد از جلد کسی بھی قیمت پر حالات کو معمول پر لانے کی
جدوجہد کر رہی ہے تاکہ ایک حادثہ کسی نۓ طوفان کی صورت اختیار نا کرے کیوں
کے مغربی ممالک کا یہ خاصہ رہا ہے کہ وہ ہر قسم کے تشدد، دہشت گردی اور
جارحیت کی آگ کو اپنی سرحدوں سے ہر ممکن دور رکھنا چاہتے ہے بھلے باقی دنیا
خاک و خون کے سمندر میں غوطے لگاتی رہے.
دوسرا پہلو، جو انتہائی گہرا اور خطرناک ہے جس کو وقت پر سمجھنا بہت ضروری
ہے ورنہ مستقبل قریب میں مسلمانوں کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی. آج آپ
کا سینہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہا، آپ کی خوشی دیدنی ہے کہ نیوزی لینڈ کی
مجلس قانون سازی میں قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی ہے، ملک کی وزیراعظم اپنے
خطاب کا آغاز السلام علیکم سے کر رہی ہے، سرکاری طور پر آذان نشر کی جا رہی
ہے،مقامی خواتین مسلمانوں کا روایتی لباس اور سکارف پہن کر اظہار یکجہتی کر
رہی ہے اور جائے واقعہ پر گلدستے اور پھولوں کے ڈھیر لگاۓ جا رہے ہے. آپ
کی خوشی جائز ہے اور مقامی لوگوں اور حکومت کی نیک نیتی بھی قابل تحسین ہے
لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ
نیوزی لینڈ کی حکومت نے اپنے طرزعمل سے ایک پیمانہ یا سٹینڈرڈ مقرر کر دیا
ہے اور اب دنیا مسلمانوں کو اسی پیمانے کے تناظر میں دیکھنا چاہے گی. دہشت
گردی سے اب کوئی ملک محفوظ نہیں اور کہیں بھی ایسے واقعات کا ظہور ممکن ہے
لیکن کیا اب کسی بھی ناپسندیدہ واقعے کے بعد مسلمان حکومتیں اور معاشرے
ویسا طرزعمل اختیار کر پاۓ گے جیسا نیوزی لینڈ کی جانب سے اپنایا گیا؟ کیا
قادیانیوں پر حملے کی صورت میں وزیراعظم پاکستان ویسی ہی پگڑی پہنے گے جیسی
قادیانیوں کے خلیفہ پہنتے ہے؟ کیا ہندوؤں پر حملے کی صورت میں بھگوت گیتا
پڑھی جائے گی پارلیمان میں؟ کیا عیسایئوں کو نشانہ بناۓ جانے پر راہبوں
جیسا لباس زیب تن کیا جائے گا؟ اگر یہ سب آپ لوگوں کے لیۓ قابل عمل ہے تو
پھر تعریف کے ڈونگرے ضرور برساۓ لیکن اگر آپ دنیا کی توقعات پر پورا نہیں
اتر سکتے اور دنیا کو وہ نہیں دے سکتے جس کی امید آپ دنیا سے رکھتے ہے تو
براہ مہربانی اعتدال کا راستہ اختیار کیجیۓ ورنہ کہیں ایسا نا ہو کہ آج
نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو مسلمان ہونے کی دعوت دینے والے کل اس بات پر
تلملاتے نظر آۓ کہ ان کے حکمرانوں کو کسی نے مذہب بدلنے کی دعوت دے ڈالی ہے.
دنیا سے اتنا ہی لیجئیے جتنا لوٹا سکے کیوں کہ اب دنیا نے توقعات کا پیمانہ
نۓ سرے سے مرتب کیا ہے جو مشکل بھی ہے اور ہچکچاہٹ سے بھرپور بھی اس لیۓ
دانشمندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیجیۓ اور اعتدال کا راستہ اختیار کیجیۓ.
|