تیونس میں عرب لیگ کے23ویں سالانہ سربراہ اجلاس میں
عرب رہنماؤں نے ،شام کے علاقے گولان کی پہاڑیوں پر1967ء سے اسرائیلی قبضہ
کوغیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ہفتہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی
جانب سے گولان کی چوٹیوں پر اسرائیل کی خودمختاری تسلیم کرنے کے فیصلہ کو
شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے متفقہ طور پر اسے مسترد کردیا گیا اور عرب
سربراہان نے دنیا کے دیگر ممالک کو خبردار کیا کہ وہ امریکہ کی تقلید کرنے
سے گریز کریں۔عرب رہنماؤں نے اس اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہا
کہ عرب قائدین گولان کی چوٹیوں پر امریکہ کے فیصلہ کے خلاف اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کریں گے اور عالمی عدالتِ انصاف سے بھی
امریکہ کی جانب سے گولان پر اسرائیل کی خودمختاری کو تسلیم کرنے سے متعلق
فیصلے کے غیر قانونی اور غلط ہونے کے بارے میں رائے حاصل کرنے کی کوشش
کرینگے۔اس موقع پر سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سربراہ
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ گولان کی چوٹیوں پر شام کی خودمختاری کو
نقصان پہنچانے والے کسی بھی اقدام کو یکسر مسترد کرتے ہیں ، شاہ نے سعودی
عرب کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ بیت المقدس کے دارالحکومت کے ساتھ غربِ
اردن اور غزہ کی پٹی پر مشتمل آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا حامی ہے۔ عرب
قائدین نے غیر عرب ملک ایران کو دعوت دی کہ وہ اچھے ہمسائیگی کے اصول کی
بنیاد پر عرب ممالک کے ساتھ مل جل کر کام کرے اور دوسرے ممالک کے داخلی
امور میں مداخلت نہ کرے۔ ان قائدین کا کہنا تھا کہ ہم اس بات کی توثیق کرتے
ہیں کہ عرب ممالک اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان باہمی تعاون اور اچھے
ہمسائیگی کے اصول کی بنیاد پر تعلقات استوار ہونگے۔ایک طرف ان ممالک نے
ایران کے ساتھ اچھے ہمسائیگی کا حق ادا کرنے کی بات کی ہے تو دوسری جانب
عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابو الغیط نے ترکی اور ایران پر الزام عائد
کیا کہ وہ عرب ممالک میں مداخلت کرنے اور بحرانوں کو ہوا دینے پیش پیش ہیں
۔انہوں نے کہا کہ ایران اور ترکی کی طرف سے علاقائی مسائل میں مداخلت نے
بحرانوں کو مزید طول دیا۔ان کا کہنا تھا پہلے ہی عرب اقوام دہشت گردی کا
شکار ہے، عرب اقوام کی قومی سلامتی معاصر تاریخ کے بدترین دور سے گذر رہی
ہے۔ احمد ابو الغیط نے مزید کہا کہ ہم علاقائی ممالک کو عرب خطے میں مداخلت
کی کسی صورت میں اجازت نہیں دے سکتے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار بھی کیا کہ
غیرملکی مداخلت کیلئے تمام عرب ممالک مل کر کام کرینگے۔ عرب لیگ کے سربراہ
کا کہنا تھا کہ خانہ جنگ میں کوئی بھی فاتح نہیں ہوتا۔ عرب ممالک کی قومی
سلامتی ایک ہے جسے الگ الگ نہیں قرار دیا جاسکتا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ
سعودی عرب ، بحرین اور عرب امارات جس طرح قطر کو جو عرب ملک ہے اس پر کئی
الزامات عائد کرکے سفارتی اور معاشی تحدیدات عائد کردیئے ہیں اور قطر کو
یکہ و تنہا کردیا گیا ہے اس سنگین صورتحال کے موقع پر ایران اور ترکی قطر
کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں، ان حالات میں اگر عرب لیگ سربراہ احمد ابو
الغیط سعودی عرب ، عرب امارات، بحرین اور دیگر اسلامی ممالک کے سربراہوں سے
یہ کہتے کہ قطر کے ساتھ جو مسائل درپیش ہیں اسے بات چیت کے ذریعہ حل کرلئے
جائیں اور تمام عرب ممالک مل جل مشرقِ وسطی میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کو
ختم کرنے مشترکہ حکمت عملی اپنائے تو یہ شاید عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ بین
الاقوامی سطح پر اہم اقدام قرار پاتا۔عرب لیگ کے افتتاحی اجلاس میں امیرقطر
شیخ تمیم بن حمد ال ثانی نے بھی شرکت کی اورعرب سمیت کے اختتام سے قتل ہی
وہ اپنے وطن واپس ہوگئے ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق قطر کے خلاف سعودی پابندیوں
کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ وہ کسی ایسی کانفرنس میں شریک ہوئے جہاں سعودی
فرمانرواشاہ سلمان بن عبدالعزیز موجود تھے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ
امیر قطر نے اس اجلاس سے خطاب بھی نہیں کیا اور اجلاس کے مقررہ وقت سے قبل
ہی اپنے ملک واپسی اختیار کی۔ان کے فوراً واپس چلے جانے سے کئی شبہات جنم
لے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہیکہ وہ اس اجلاس کے دوران ان قائدین سے ملاقات کرکے
بات چیت کرنا مناسب نہیں سمجھا ہوگا جنہوں نے انکے ملک سے سفارتی تعلقات
منقطع کرلئے ہیں اور انکی معیشت کو شدید ضرب لگانے کی کوشش کی ہے ۔خیر عرب
لیگ کے افتتاحی اجلاس میں امیر قطر کا پہنچنا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے
کہ وہ دیگر عرب ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنا چاہتے ہیں ورنہ انکی اس
اجلاس میں غیر حاضری کئی سوالات کو جنم دے سکتی تھی اور ہوسکتا عرب لیگ کے
بعض رکن ممالک قطر کی رکنیت ختم کرنے کیلئے آواز بھی اٹھاسکتے تھے۔اس اجلاس
میں الجزائر اور سوڈان کے سربراہان ریاست یا حکومت نے شرکت نہیں کی
ہے۔کیونکہ ان دونوں ملکوں میں حکومت مخالف احتجاجی تحریکیں چل رہی ہیں۔ان
کے علاوہ شام کی نشست بھی خالی رہی ہے۔اجلاس میں یمن میں جاری جنگ ،
فلسطینی ، اسرائیل تنازعہ اور شام کی عرب لیگ میں رکنیت کی بحالی سے متعلق
امور پر تبادلہ خیال کیا گیاہے۔تاہم عرب لیگ نے کہا کہ ابھی تک شام کی
رکنیت کی بحالی کیلئے کوئی اتفاق رائے نہیں ہوا ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر
ہیکہ عرب لیگ نے صدر بشارالاسد کی حکومت کے 2011ء کے اوائل میں پْرامن
احتجاجی مظاہرین کے خلاف مسلح کریک ڈاؤن کے بعد شام کی رْکنیت معطل کردی
تھی۔شام میں خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد قتل اور زخمی کردیئے گئے ،
لاکھوں عوام بے یارومددگار ہوکر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ۔لاکھوں
بچوں کی تعلیم پر بُرا اثر پڑا۔ کہا جارہا ہے کہ شام سے داعش کا خاتمہ
ہوچکا ہے اور حالات معمول پر آرہے ہیں ۔ اسی دوران بعض عرب ممالک نے صدر
بشارالاسد کی حکومت سے دوبارہ تعلقات بحال کرنے شروع کئے ہیں اور اب شام کی
عرب لیگ میں رکنیت کی بحالی کے لیے آوازیں بلند ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
سعودی عرب اور برطانیہ کے اشتراک سے مملکت میں پہلا لڑاکا تربیتی طیارہ
سعودی عرب میں شہریوں کو روزگار سے مربوط کرنے کے لئے مختلف طریقے اپنائے
جارہے ہیں ۔ اسی طرح ملک کو خود مکتفی بنانے اور عصری ٹکنالوجی سے لیس کرنے
کی مختلف طریقوں سے کوششیں جاری ہیں۔ملک میں مقامی طور پر اسمبل کئے گئے
ہاک طیارے بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ سعودی ولیعہد محمد بن سلمان ویژن
2030کے تحت ملک کو صرف تیل کی پیداوار پر انحصار کرنے کے بجائے مختلف
ترقیاتی و معاشی منصوبوں پر عمل پیرا ہے ۔محمد بن سلمان نے مشرقی ریجن کے
کنگ عبدالعزیز ایئر بیس پر مقامی طور پر اسمبل کئے گئے ہاک طیاروں کا
افتتاح کیا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ سعودی عرب کا پہلا لڑاکا تربیتی طیارہ
ہے جس کے بعض پرزے سعودی عرب میں تیار کیے گئے ۔ سعودی عرب اور برطانیہ کے
اشتراک سے طیارہ سازی کا پروگرام مکمل کیا گیا ۔ کنگ عبد العزیز ایئر بیس
پر سعودی ولی عہد کو طیاروں کے اہم پرزوں کی تیاری اور انہیں جوڑنے یا
اسمبل کرنے کے حوالے سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا گیااور انہیں بتایا گیا کہ
طیارہ جوڑنے کے بعد کن کن آزمائشی مراحل سے گزارا گیا۔ان طیاروں کی تیاری
میں 70 فیصد سے زیادہ عملہ سعودی نوجوانوں پر مشتمل تھا۔ انہوں نے دو برس
سے زیادہ عرصے تک برطانیہ میں تربیت حاصل کرنے کے بعد 22 ہاک طیارے اسمبل
کئے۔ہاک کامیاب ترین لڑاکا تربیتی طیارہ مانا جاتا ہے۔ دنیا کے 21 ممالک
میں جنگی ہواباز اس کی مدد سے اعلی ٰ ترین تربیت حاصل کرتے ہیں۔ یہ طیارے
راڈار اور اسلحے سے لیس ہوتے ہیں، پرواز کے دوران ریموٹ سینس آلات ان پر
نصب ہوتے ہیں۔ان طیاروں کی ایک خوبی یہ ہے کہ دیگر لڑاکا تربیتی طیاروں کے
مقابلے میں ان کا شور کم ہوتا ہے۔تیز رفتار لڑاکا ہاک طیارے میں بیٹھنے
والے ہواباز کو بڑی محنت کرنا پڑتی ہیں، اس میں نصب مقناطیسی عناصر ہواباز
کے سر کو اچانک 20 کلو گرام وزنی گیند میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ ہاک طیارے کے
ہوا باز کو اس کا عادی ہونا پڑتا ہے اور زیر تربیت ہوابازوں کو اس قسم کی
صورتحال سے نمٹنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے بروئے کار
لانا پڑتا ہے۔اس کے بعد ہی انہیں زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ مہنگے لڑاکا
طیارے چلانے کا موقع دیا جاتا ہے۔
سعودی آرامکو دنیا میں سب سے زیادہ منافع کمانے والی کمپنی
سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی آرامکو السعودیہ نے گزشتہ برس دنیا میں سب
سے زیادہ منافع کمانے والی کمپنی کا درجہ حاصل کرلیاہے۔ دوسرے نمبر پر
امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل رہی، جس کا منافع ساٹھ بلین ڈالر تھا،ذرائع
ابلاغ کے مطابق یہ بات مْوڈیز انویسٹرز سروسز کی جاری کردہ رپورٹ میں بتائی
گئی۔ آرامکو السعودیہ کا گزشتہ برس کے دوران خالص منافع ایک سو گیارہ بلین
ڈالر رہا۔ اس کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل
رہی، جس کا منافع ساٹھ بلین ڈالر تھا۔ مْوڈیز کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا
گیا ہے آرامکو السعودیہ کی گزشتہ برس کے دوران تیل کی پیداوار دس اعشاریہ
تین ملین بیرل یومیہ رہی۔
فلسطینیوں پراسرائیلی فوج کی درنگی میں اضافہ
اسرائیل کی جانب سے فلطینیوں پر ہر آئے دن ظلم و بربریت میں اضافہ دیکھنے
میں آرہا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق رواں سال کے دوران 41فلسطینی شہید کیے
گئے۔فلسطینی شہدا ء و اسیران نیشنل سوسائٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں
بتایا گیا ہے کہ رواں سال کے دوران اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے
نتیجے میں 41فلسطینی شہید کیے گئے۔سوسائٹی کے سیکرٹری جنرل محمد صبیحات نے
بتایا کہ سال 2019 کے دوران پہلے تین ماہ میں جنوبی اضلاع میں 24اور شمالی
اضلاع میں 17فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ان شہدا میں دو خواتین اور 18 سال
سے کم عمرکے 12بچے بھی شامل ہیں۔ان میں 13سالہ مجاھد عصام ابو عمشہ اور
51سالہ فارس محمد ابو بارود بھی شامل ہیں۔ فارس بارود کو اسرائیلی زندانوں
میں تشدد کر کے شہید کیا گیا۔صبیحات کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک
شہید کئے گئے 7 فلسطینی شہدا کے جسد خاکی اسرائیلی فوج نے قبضے میں لے رکھے
ہیں۔جبکہ ملین مارچ کے موقع پر مزید چار نوجوانوں کو گولیاں مار کر شہید
کردیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق غزہ کی پٹی میں ملین مارچ کے دوران 17
سالہ بلال محمود النجار اور 18سالہ تامر ھاشم ابو الخیر کو اتوار کی شام
اور دو شہیدوں 20سالہ محمد جہاد سعد اور 17سالہ ادھم نضال عمار کو ہفتے کے
روز سپرد خاک کیاگیا۔ان چاروں فلسطینیوں کو اسرائیلی فوج نے ہفتے کے روز
غزہ میں ملین مارچ کے دوران گولیاں مار کر شہید کر دیا تھا۔ جب کہ اسرائیلی
فوج کی فائرنگ سے 316 فلسطینی زخمی ہوئے۔اس طرح اسرائیلی درندگی کے ذریعہ
فلسطین کے معصوم بچے، نوجوان اور خواتین کسی نہ کسی طرح ظلم و بربریت کا
نشانہ بن رہے ہیں اور بعض شہدا کے جسد خاکی کو بھی اسرائیلی فوج اپنے قبضے
میں لے رکھی ہے جس کے لئے عالمِ اسلام کو متحدہ طور پر اسرائل کی ظلم و
بربریت کے خلاف مضبوط آواز اٹھانی چاہیے۔
رجب طیب اردغان کی جماعت کو انقرہ و استنبول میں ناکامی
طیب اردغان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے اتحادیوں کے ساتھ ملکر
ترکی کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن انہیں ترکی کے دو
بڑے شہر دارالحکومت انقرہ اوردوسرے بڑے شہر استنبول میں ناکامی کا سامنا
کرنا پڑا۔ان انتخابات کو صدر رجب طیب اردغان کے بارے میں ریفرینڈم کے طو
رپر دیکھا جارہا تھااور ان دو بڑے شہروں میں ناکامی کو 16برس سے
برسراقتدارطیب اردغان کیلئے ایک بڑا دھچکا سمجھا جارہا ہے۔ جبکہ گذشتہ
25سالہ تاریخ میں حکمراں جماعت کو پہلی مرتبہ انقرہ میں شکست کا سامنا کرنا
پڑا۔ نتائج سامنے آنے کے بعد صدر رجب طیب اردغان نے اسے قبول کرتے ہوئے کہا
کہ اگر کہیں کوئی کوتاہیاں ہیں تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ان کو ٹھیک
کیاجائے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم کل صبح ہی سے اپنی خامیوں کی
نشاندہی کیلئے اپنا کام شروع کردیں گے اور ان کو ٹھیک کریں گے تاہم انہوں
نے واضح کیا کہ ان کی جماعت ہی انتخابات میں سرفہرست رہی ہے۔ترک صدر نے
انقرہ اور استنبول میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہم استنبول میں بھی وہ
نتائج حاصل نہیں کرسکے جس کی امید تھی لہذا اب ہماری ساری توجہ معیشت کو
بہتر بنانے پر ہوگی۔ترکی صدر ان دنوں عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ میں رہے ہیں
۔ ملک میں معاشی استحکام کیلئے انہوں نے سیاحت کو فروغ دیا لیکن گذشتہ چند
ماہ و سال سے ترکی کی معیشت متاثر ہورہی ہے، تجزیہ نگاروں کے مطابق ان بڑے
شہروں میں ناکامی کے سلسلہ میں بتایا جارہا ہے کہ ملک میں بے روزگاری میں
اضافہ اور مہنگائی میں اضافہ بتایا جارہے ہے، اسی لئے صدر ترکی نے دو بڑے
شہروں میں ناکامی کے بعد اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک کی معیشت کو
مستحکم بنانے کیلئے خصوصی توجہ دیں گے۔
برونائی میں مکمل اسلامی قوانین کا نفاذ کردیاجائیگا
برونائی حکومت نے ایک اہم اقدام کرتے ہوئے ہم جنس پرستوں کے خلاف اسلامی
قانون کا نفاذ عمل میں لایا ہے۔ جس کے خلاف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی
کمشنر مشیل باچلیٹ نے برونائی کی حکومت سے ہم جنس پرستوں کے لیے سزائے موت
سے متعلق نئے قوانین پر عمل درآمد معطل کر دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ذرائع
ابلاغ کے مطابق برونائی میں متعارف کرائے گئے ان نئے قوانین کے مطابق غیر
ازدواجی جنسی رابطوں اور ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کو سنگساری کے ذریعے
موت کی سزائیں دی جائیں گی۔ عالمی برادری کی جانب سے ان نئے قوانین پر سخت
تنقید کی جا رہی ہے۔ نصف ملین سے بھی کم کی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک
برونائی نے3؍ اپریل کے روز نئے قوانین کے نفاذ کا اعلان کر رکھا ہے۔یہ بھی
ایک حقیقت ہے کہ اسلامی قوانین کے نفاذ سے جرائم میں کمی واقع ہوتی ہے جس
کی مثال کئی اسلامی ممالک ہیں جہاں واقعی سختی سے اسلامی قوانین پر عمل کیا
جاتا ہے۔
ٌٌٌ** |