انسان کو جب بخار ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کے منہ کا
ذائقہ کڑوا ہوجاتا ہے یعنی اس کو ہر چیز کڑوی لگنے لگتی ہے ۔ اس کے بعد اس
کی بھوک مرجاتی ہے اور پھر وہ کمزور ہوجانے کے سبب چڑ چڑا ہوجاتا ہے۔ ہوا
سے لڑنے لگتا ہے۔ کیا یہی کیفیت فی الحال مودی بھکتوں کی نہیں ہے۔ ان پر
دیش بھکتی کا ایسا شدید بخار چڑھا ہوا ہے کہ انہیں کوئی چیز اچھی نہیں لگتی
۔ ان کو ملک کے بنیادی مسائل نظر نہیں آتے ۔ انہیں کبھی سرحد کے پار دشمن
دکھائی دیتے ہیں تو کبھی یہ خلاء میں دشمن کے سٹیلائٹ کو مار گرانے کی
صلاحیت پر پھولے نہیں سماتے ۔ ان بیچاروں کو اپنا ہر مخالف قوم دشمن نظر
آتا ہے ۔ اپنے چہار جانب دشمنوں کے غول دیکھ کر یہ اپنے آپ کو نحیف و
لاغر محسوس کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کو جب اقتدار کے ہاتھوں سے نکل جانے کا خوف
محسوس ہوتا ہے تو وہ یہ دوسروں کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ان کی لفظی جنگ
لڑائی بھڑائی میں بدل جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں گڑ گاوں کا قابل مذمت ّ
سانحہ پیش آتا ہے۔ اس میں جن لوگوں کو زدو کوب کیا جاتا ہے انہیں کے خلاف
قتل کا مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے۔
وزیر خارجہ سشما سواراج جس دن پاکستان کے اندر دولڑکیوں کے مبینہ طور
زبردستی مسلمان بناکر شادی کی خبر پر تشویش کا اظہار کررہی تھیں اسی دن
راجدھانی دہلی سے ملحق گڑگاؤں کے بھوپ سنگھ محلے میں ایک مسلمان خاندان کو
تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا لیکن افسوس کہ سرکار کی دوربین نگاہیں اسے
دیکھنے سے قاصر تھیں ۔ یہ اسی قوم پرستی کے بخار کا اثر ہے جس سے انسان
حواس باختہ ہوجاتا ہے اور اس کے قویٰ کمزور ہوجاتے ہیں۔ وہ اہم مسائل سے
صرف ِنظر کرکے غیر اہم چیزوں کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے
کہ سانحہ کی ویڈیو میں ایک گھر کے افراد کو بہت سے نوجوان لاٹھیوں اور
ڈنڈوں سے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے صاف نظر آتے ہیں۔ عام دنوں میں تو شاید
کانگریس پارٹی بھی اسے نظر انداز کردیتی لیکن انتخاب کے پیش نظر راہل
گاندھی نے اس پر ٹویٹ کرنے کی زحمت کی اور لکھا: ’ہر محب وطن ہندوستانی
گروگرام میں شر پسندوں کے ہاتھوں ایک خاندان کے لوگوں کی بے رحمی کے ساتھ
پٹائی پر متنفر ہے۔ آر ایس ایس/ بی جے پی سیاسی اقتدار کے لیے تعصب اور
نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ واقعہ ہمیں اس کے سنگین نتائج پر متنبہ کرتا
اور ان کی حکمت عملی کے تاریک پہلو کو دکھاتا ہے۔‘
ہندوستان کے اندر بھی اگر نیوزی لینڈ جیسی حکومت ہوتی تو وہ اس واقعہ پر
تشویش کا اظہار کرتی مگر نہ تو مرکزی حکومت کو اس کا خیال آیا اور نہ
ہریانہ کی صوبائی حکومت کو اس پر عار محسوس ہوئی لیکن معروف صحافی راجدیپ
سردیسائی نے اس ویڈیوپر اپنے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ : ’ہم سب
کو اپنا سر شرم سے جھکا لینا چاہیے۔ نفرت کی سیاست اور اس کی پروپگنڈا مشین
ایسا ہی کرتی ہے۔ ہم سب شرمندہ ہیں‘۔ اس معاملے کی درج شدہ ایف آئی آر کے
مطابق مظلومین کو بغیر کسی اشتعال کے گالیاں دی گئيں اور کہا گیا کہ وہ
پاکستان جا کر کھیلیں۔ تشدد کا شکار ہونے والے محمد ساجد کے بھتیجے دلشاد
کے مطابق شام پانچ ساڑھے پانچ بجے نیا گاؤں سے تقریباً ۳۰ لوگ لاٹھی، ڈنڈوں،
بھالوں اور نیزوں کے ساتھ ان کے گھر میں داخل ہوئے اور گھر میں موجود ساجد،
دلشاد، سمیر اور شاداب سمیت۱۲لوگوں پر ٹوٹ پڑے۔ ساجد کے بیٹے شاداب کو
صفدرجنگ ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں علاج کے لیے بھرتی کرنا پڑا۔
اس سانحہ کی ویڈیو ایک ۲۱ سالہ خاتون دانستہ نے بنائی جو اپنے چچا کے گھر
آئی ہوئی تھی۔ حملہ آور جس وقت گھر میں داخل ہوئے تو وہ باورچی خانے میں
تھیں اور ان پاس ان کے بھائی ارشاد کا موبائل فون تھا۔ ان کو خیال آيا کہ
ثبوت کے طور اس کی ویڈیو بنانی چاہیے۔ اس نے دوسری منزل کی چھت پر جاکر
ویڈیوشوٹنگ کردی لیکن جلد ہی غنڈوں اور بدمعاشوں کو اس کا پتہ چل گیا اور
وہ چلائے اس لڑکی کو فون کے ساتھ ہی نیچے پھینک دو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
یہ حملہ آور کس قدر ڈرپوک اور سفاک ہوتے ہیں۔ اپنے خلاف ثبوت مٹانے کے لیے
وہ کس حدتک جاسکتے ہیں ۔ اس کے باوجود دانستہ نے اس امید میں اپنا فون وہاں
موجود اینٹوں کے درمیانیہ سوچ کرچھپا دیا کہ اگر وہ اسے مار بھی دیں گے تب
بھییہ فون ایک شاہد بن کر ان بدمعاشوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے گا ۔ اس
نازک صورتحال میں بھی ایک خاتون کی یہ حاضر دماغی اور حوصلہ مندی قابلِ
تعریف ہے۔ انگریزی میں محاورہ ہے ’خدا بہادروں کی مدد کرتا ہے‘۔ ان لوگوں
نے دروازہ توڑ کر چھت پر پہنچنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔
اس طرح کے پرتشدد واقعات کے رونما ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ فسادیوں کو
انتظامیہ کے تعاون کا یقین ہوتا ہے۔ گڑگاوں کے تھانہ انچارج اس کوفرقہ
وارانہ فساد نہیں بلکہ ایک یہ جرم مانتے ہیں ۔ انہیں پتہ ہے کہ کس گاوں کے
اور کون سے خاندان کے لوگوں نے یہ حملہ کیا ہے۔ اس کی ویڈیو ساری دنیا میں
پھیل چکی ہے اس کے باوجود ۴۰ سے زیادہ جگہ چھاپے مارنے کے بعد بھی کوئی
ملزم ان کے ہاتھ نہیں آتاا ور سب کو لاپتہ قرار دے دیا جاتا ہے۔ ویسے وہ
جلد ہی سارے لوگوں کی گرفتاری کا یقین دلاتے ہیں ۔پہلے تو پولس اس کو نظم و
نسق کا معاملہ قرار دے کر رفع دفع کرنے کی کوشش کرتی ہے اور منصوبہ بندحملہ
نہیں مانتی ۔ لڑکوں کی کرکٹ کھیلنے والے بچوں کو دھمکانا اور ان کے چچا کے
تھپڑ رسید کر نے پر سبق سکھانے کا ردعمل قرار دے کر جواز عطا کرتی ہے اور
اس کے بعد الٹا ملزم راج کمار کی شکایت پر مظلومین کے خلاف مقدمہ درج کر
لیتی ہے۔ اس موقع پر قتیل شفائی کا یہ قطعہ یاد آتا ہے؎
کون اس دیس میں دے گا ہمیں انصاف کی بھیک
جس میں خونخوار درندوں کی شہنشاہی ہے
جس میں غلے کے نگہباں ہیں وہ گیدڑ جن سے
قحط و افلاس کے بھوتوں نے اماں چاہی ہے
اس بہیمانہ کے حملے کے ایک ہفتے بعد متاثرہ کے ۲ لوگوں کے خلاف درج ایف آئی
آر میں آئی پی سی کی دفعہ ۳۲۳ ، ۳۲۴ اور ۳۰۷(قتل کی کوشش)کے الزامات ہیں
۔اس بابت دلشاد کا کہنا ہے کہ ،’میں سمجھ نہیں پایا کہ یہ کس طرح کا سسٹم
ہے۔پوری دنیا نے ویڈیو میں دیکھا ہے کہ ہم پر حملہ کیا گیا، میرے ہاتھ ٹوٹ
گئے تھے،میری فیملی کے لوگ ابھی بھی اسپتال میں ہیں اور اب پولیس نے ہمارے
ہی خلاف معاملہ درج کر لیا ہے۔ یہ تو سراسر نا انصافی ہے‘۔دلشاد نے اس کی
غرض و غایت یہ بیان کی کہ ،’متاثرہ فیملی کے خلاف معاملہ درج کرنے کا اس
حکومت میں چلن بن گیا ہے،ایسا اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ متاثرہ انصاف پانے
کی امید چھوڑ دیں۔یہ افرازل معاملے میں بھی ہوا،پہلو خان کے معاملے میں اور
اب ہمارے ساتھ بھی ٹھیک ایسا ہی ہو رہا ہے۔’ اس گھر کی ایک متاثرہ خاتون
نےبتایا، ہمارے گھر کے باہر سکیورٹی اہلکار تعینات کرنے اور پولیس کی یقین
دہانی کے بعد ہمیں تھوڑی سی راحت ملی تھی لیکن اب ہمارے خلاف معاملہ درج کر
لیا گیا ہے ۔ اب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ ہمارے ساتھ پولیس بھی نہیں ہے ۔
اس ایف آئی آر کی تصدیق کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر ہمانشو گرگ نے کہا ، ا س
معاملے میں کلیدی ملزم راجیش کا الزام ہے کہ فیملی نے اس کو بلے سے مارا
اور اس کے سر پر چوٹ بھی لگی ہے۔ ہمیں اس کو میڈیکل جانچ کے لیے بھیجنا پڑا
۔ میڈیکل جانچ میں اس بات کی تصدیق ہوئی کہ وہ زخمی تھا اور اس بنیاد پر
آئی پی سی کی دفعہ ۳۰۷ کے تحت متاثرہ فیملی کے دو ممبروں کے خلاف معاملہ
درج کیا گیا ہے ۔ ہم ایسا کرنے کے لیے مجبو رہیں۔جس اندھیر نگری میں ایسا
چوپٹ راج ہوکہ پولس مظلومین پر الزامات لگانے کے لیے مجبور ہو وہاں دنگا
فساد نہیں ہوگا تو کیا ہوگا ؟ اسی لیے پروفیسر اشوک سوائیں اس سانحہ پر
اپنی تشویش کا اظہار اس طرح کرتے ہیں کہ : ’کیا ہندوستان خانہ جنگی کی جانب
بڑھ رہا ہے۔ سنگھی بے عقل انڈیا کے دارالحکومت کے علاقے میں ایک مسلم گھر
میں گھس کر انھیں پیٹتے ہیں اور انھیں پاکستان جانے کے لیے کہتے ہیں‘۔ یہ
خانہ جنگی پروفیسر اشوک سوائین کو تو فکر مند کردیتی ہے لیکن تریپورہ کے
گورنر تتھا گت رائے شیاماپرساد مکرجی کے حوالے اس خانہ جنگی کو ہندو مسلم
تنازعہ کا حل قرار دیتے ہیں ۔ اس کو کہتے ہندو قوم پرستی کا بخار اور اس کی
ہذیانی کیفیت۔ بقول غالب ؔ
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
|