وہ قومیں جو اپنا ماضی فراموش کر دیتی ہیں وہ جلد یا بدیر
مٹ جاتی ہیں کیونکہ قوم کا ماضی اس کی شان و شوکت اور عروج کی علامت ہوتا
ہے لہذاماضی کی فراموشی کے معنی اپنی پہچان کو ختم کرنا ہوتاہے۔ماضی کی
عظمت سے قومی ہیروزکو جدا کرنا ممکن نہیں ہوتایہی وجہ ہے کہ عوام اپنے قومی
ہیروز کو اپنی پلکوں پر بٹھاتے ہیں اور ان کی عظمت سے اپنی نئی راہیں
تراشتے ہیں ۔اگر یہ قومی ہیرو ز ہماری زندگی میں نہ ہوتے تو ہم اپنی منزل
کو کبھی حاصل نہ کرپاتے ۔ان کا عزم اور ثابت قدمی منزل کے حصول کا زینہ
بنیں۔۲۳ مارچ ایک ایسا دن ہے جس دن قوم نے اپنی منزل کا تعین کیا تھا ۔اس
دن قوم نے عہد کیا تھا کہ ہم ایک علیحدہ اسلامی ریاست قائم کریں گے ۔یہ ایک
بہت بڑا ہدف تھا جسے مخالفین ناقابلِ حصول قرار دیتے تھے ۔یہ قائدِ اعظم
محمد علی جناح کی فقیدالمثال قیادت کا کمال تھا کہ انھوں نے اس ناممکن ہدف
کو حقیقت کا جامہ پہنا کردنیا کو ورطہِ حیرت میں گم کر دیاتھا۔ان کی یہی
جیت انھیں تاریخِ عالم میں ممتاز کرتی ہے۔ مہاتما گاندھی،پنڈت جواہر لال
نہرو،دلبھ بھائی پٹیل اورموتی لال جیسے قائدین یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان
چند سالوں سے زیادہ قائم نہیں رہ سے گا اور یوں اکھنڈ بھارت کا خواب حقیقت
کا جامہ پہن لے گا۔ان کی فکر اور سوچ کو ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے عمل ،ایثار
اور کردار سے غلط ثابت کیا اور یوں ہندووانہ فکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا
۔اکھنڈ بھارت ایک حقیقت نہ بن سکا تو بھارت نے عسکری قوت سے پاکستان کو
کمزور کرنے کا بیڑہ اٹھا یا ۔تین بڑی جنگیں اسی خواہش کی تکمیل کی خاطر
تھیں لیکن ان کی حواہش پھر بھی پوری نہ ہوسکی۔وہ جو کچھ حاصل کرنا چاہتا
تھا اس میں ناکام رہا ۔پاکستانی افوج نے ہر محاذ پر دشمن کے دانٹ کھٹے کئے
اور انھیں ہزیمت سے ہمکنار کیا۔پاکستان کی ثابت قدمی نے بھارت کو مزید مشعل
کر دیا اور اس نے سازشوں کا نیا جال بھن کر ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ کو اسے دولخت کر
دیا۔بنگلہ دیش کے قیام کا مرحلہ سر کرنے کے بعد بھارت کے حوصلے مزید بلند
ہو گے اور اسے محسوس ہونے لگا کہ اکھنڈ بھا رت کا خواب اب زیادہ دور نہیں
لیکن اس کی ساری آرزوؤں کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب ذولفقار علی بھٹو نے
ایٹمی توانائی کے حصول کا جرات مندانہ فیصلہ کیا ۔بے شمار مشکلات، مراحل
اور آزمائشوں سے گزرنے کے بعد پاکستان آج ایک ایٹمی قوت ہے جس نے بھارت کی
بولتی بند کر رکھی ہے کیونکہ اسے علم ہے کہ ایٹمی توانائی کے کیا معنی ہیں
؟ ۔ایٹمی قوت نے بھارت کے اوسان خطا کر رکھے ہیں اور اس کے پاس پاکستان
کیساتھ برابری کی سطح پر بات کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے ۔یہی
ایک حیقت ہے اور بھارت اس حقیقت کو جتنی جلدی قبول کر کے اسی میں اس کی
بہتری ہے۔،۔
ایک طرف تو یہ صورتِ حال تھی کہ ہم نے بڑی تگ و دو کے بعد ایٹمی توانائی سے
اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا یا لیکن دوسری طرف اس کارنامے کو سر انجام
دینے والے قومی قائدین کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز رویہ اختیار کیاگیا۔ان کی
عوامی مقبولیت ان کے گلے کا پھندہ بنی کیونکہ خفیہ ہاتھ ان کی مقبولیت سے
خوف زدہ تھے ۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس میں قومی محسنوں کو قوی مجرم بنا
کر پیش کرنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔محسنِ پاکستان ڈاکتر عبدالقدیر خان کے
ساتھ جنرل پرویز مشرف نے کیا سلوک کیا؟ انھیں قومی مجرم بنا کر پیش کیا اور
انھیں امریکی دباؤ پر کئی سالوں تک ہاؤس اریسٹ کر دیا ۔ ان کی حب الوطنی پر
سنگین سوالات اٹھائے گے اور ان کی شہرت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔
ہمارے ہاں قومی قائدین کوپا بہ زنجیر کرنے اور سرِ دار کھینچ دینے کی
انوکھی روائت موجود ہے۔وہ جھنوں نے قوم کو عزم اور حوصلہ عطا کیا انھیں ہی
ایک دن سرِ دار کھینچ دیا گیاتا کہ ذاتی اقتدار کا راستہ آسان ہو جائے۔
قائدِ اعظم محمد علی جناح کے ساتھ ان کی عمر کے آخری لمحات میں جو کچھ ہوا
وہ ابھی تک سر بستہ راز ہے ۔ان کے استقبال کیلئے ایک خراب اور ٹوٹی ہوئی
ایمبولینس ائیر پورٹ کس نے بھیجی تھی؟ کون تھا جو انھیں اپنی راہ سے ہٹا نا
چاہتا تھا؟ قائدِ اعظم محمد علی جناح جن کی فہم و فراست کی دنیا قائل تھی ا
ن کا وجود اس ریاست پر کیوں بوجھ بن گیا؟اقتدار کی گردشوں میں انھیں فارغ
کرنے کی سازش کس نے تیار کی تھی؟قائدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو سرِ
عام گولی کا نشانہ بنانے کے پسِ پردہ کس کا ہاتھ تھا؟کون تھا جو انھیں اپنی
راہ کا کانٹا سمجھتا تھا ؟مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ
نے کیا سلوک روا رکھا ؟ ان کورات کی تاریکی میں کیوں قتل کیا گیا؟ان کی جس
طرح کردار کشی کی گئی وہ انتہائی شرمناک ہے ۔ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ایثارو
قربانی کے استعار وں کو خود اپنے ہی ہاتھوں سے رسوا کر دیا جاتا ہے؟ذولفقار
علی بھٹو کا معاملہ سب سے مختلف ہے کیونکہ دنیا انھیں اسلامی بم کا خالق
تسلیم کرتی ہے ۔ان پر الزام تھا کہ انھوں نے امریکی ہدایات پر عمل کرنے کی
بجائے ایٹمی توانائی کا حصول ممکن بنایا اور اس پرواگرام کی داغ بیل ڈ الی
جسے ا مریکہ نا پسند کرتا تھا۔انھیں اپنے ہی ماتحتوں کی سازش سے اقتدار سے
رخصتی اور موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑا ۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ اس عظیم
الشان کارنامے پر ان کو دادو تحسین سے نوازا جاتا اور ان کی بلائیں لی
جاتیں لیکن ایسا کرنے کی بجائے انتہائی مکاری اور عیاری سے انھیں زندانوں
کی صعوبتوں اور اذیتوں کے حوالے کر دیا گیا۔۵ جولائی ۱۹۷۷ سے شروع ہونے
والی مشکلات ۴ اپریل ۱۹۷۹ کو ان کی موت پر منتج ہوئیں۔انھیں جس طرح اذیت
ناک حا لات میں رکھا گیا اس نے محسنوں کے ساتھ محسن کش رویوں کی نئی تاریخ
رقم کر دی ۔کیا کوئی ریاست اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا شرمناک رویہ اپنا تی
ہے؟ یہ سچ ہے کہ اقتدار کاکھیل بڑا بے رحم ہو تا ہے لیکن اس کے معنی یہ تو
نہیں کہ محسنوں کو ہی سرِ دار کھینچ دیا جائے۔وہ پروگرام جسے ذولفقار علی
بھٹو نے ۱۹۷۴ میں شروع کیا تھا ۲۸جولائی ۱۹۹۸ کو میاں محمد نواز شریف کے
ہاتھوں اپنی منزل سے ہمکنار ہو ا۔اس وقت میاں محمد نواز شریف پر شدید دباؤ
تھا لیکن انھوں نے کسی کی پراوہ نہ کی اور ایٹمی دھماکہ کر کے بھارتی قیادت
کو سیخ پا کر دیا ۔اس دھماکہ سے دنیا بھر میں شور مچ گیا۔پوری دنیا اس دھما
کہ سے ہل کر رہ گئی کیونکہ امتِ مسلمہ کو ایک ایسا ہتھیار ہاتھ لگ گیا جس
سے امتِ مسلمہ اور پاکستان کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔لیکن ہم نے اس شخص
کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ انھیں جنرل پرویز مشرف نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ کو اقتدار
سے معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔منتخب وزیرِ اعظم کو جہاز کی سیٹ کے
ساتھ باندھ کر ان کی تضحیک کی گئی ۔ کیا ایٹمی قوت کا درجہ دلوانے والے
لیڈر کے ساتھ ایسا سلوک ہونا چائیے تھا؟خالق کو پھانسی گھاٹ پہنچا دیا گیا
اور دھماکہ کرنے والے کو دس سالہ جلا وطنی کاپروانہ تھما دیا گیا۔آج کل اسی
قائد کو کرپشن کے مختلف الزامات میں زندانوں کا قیدی بنا یا ہوا ہے ۔ مسلم
دنیا کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو ذاتی اقتدار کی خاطر
سرِ عام گولی مار کر ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا گیا اور ایسا کرنے والے
سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا۔انصاف کی دہائی دینے والے عمران خان بھی اس
کانام اپنی زبان پر لاتے ہوئے کانپتے ہیں کیونکہ انھیں ایسا کرنے کا اذن
نہیں ہے۔ان کے احتساب اور جواب دہی کے نعروں کے شورو غوظہ سے پاکستان کے
درو دیوار کانپ رہے ہیں لیکن اس کا ذکر کہیں بھی نہیں ہے جو پاکستان میں
بغاوت اور قتل کے کئی مقدمات میں مطلوب ہے۔کیا یہ باعثِ عبرت نہیں کہ باغی
کے وکیل کو ملک کا وزیرِ قانون بنا دیا گیا ہوا ہے؟ عمران خان کی سوئی صرف
پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) پر اٹکی ہوئی ہے کیونکہ انھیں یہی ایجنڈہ تھمایا
گیا ہوا ہے۔ ارسلان طارق بٹ نے اس ساری کیفیت کو انتہائی دلکشی سے بیان کیا
۔ پڑھیے اور سر دھنئے (ہر شخص یہاں زنجیر بہ پا لگتا ہے ۔ ۔ جرم اس شہر کے
لوگوں کا وفا لگتا ہے) |