جناب خان صاحب، میں آ پ کا ایک پرستار، آپ کا شیدائی ، آپ
کا حامی، آپ کا ورکر ، لوگوں میں آپ کا جانا پہچانا ووٹر ۔ میں آج بھی
سیاسی طور پر آپ ہی کے حوالے سے جانا اور پہچانا جاتا ہوں۔پارٹی کی ہر
کامیابی پر اور اس کے ہر مثبت اقدام پر میرے محلے والے، میرے عزیز اور دوست
ماضی میں مجھے ہی مبارک باد دیتے رہے ہیں۔آج بھی آپ کی پارٹی کے حوالے سے
برا بھلا کہنے والوں سے اپنے حصے کی گالیاں میں بخوشی قبول کرتا ہوں۔ مگر
کیا کروں کہ اب حال کچھ زیادہ ہی ابتر ہے۔مایوسی گناہ سہی مگر اسے روکا
نہیں جا سکتا۔ انسان کب تک امید اور آس کے سہارے جی سکتا ہے۔ہر چیز کی کچھ
حد ہوتی ہے۔ میں اور میرے جیسے آپ کے شیدائی لاکھوں لوگ جنہوں نے تبدیلی کے
تصور کو آئیڈیل جان کرآپ کو ووٹ دیا اور دل و جان سے سپورٹ بھی کیا ، اب
پریشان ہیں۔ اس قدر ناکارہ ٹیم۔ وہ کام جو تجربہ نہیں صرف کامن سینس سے
بہتری کی سمت رواں ہو سکتے ہیں ان پر بھی کوئی پیشرفت نظر نہیں آتی۔لوگ
پوچھتے ہیں کہ اب تک کیا کیا ہے تو اب بھی اس سوال کا ایک ہی جواب ہمارے
پاس ہے کہ سب پچھلی حکومت کا سب کیا دھرا ہے۔ حکومت کو آئے معقول عرصہ ہو
چکا۔اب تو یہ جواب دیتے ہمیں لوگوں سے شرم محسوس ہوتی ہے، لوگ بھی اس سوال
کے جواب میں مذاق اڑاتے ہیں۔ جہاں تک آپ کی نیت کا تعلق ہے، آپ کی امانت
اور دیانت پر کوئی شبہ نہیں کرتا مگر اس ناکارہ ٹیم سے چھٹکارہ کچھ
کارکردگی دکھانے کے لئے بہت ضروری ہے۔ مینجمنٹ کا بنیادی اصول ہے کہ نااہل
لوگوں پر وقت ضائع مت کریں، فوراً بدلیں اورنئی اور بہترٹیم لائیں۔
میرے ایک دوست اپنی گاڑی کی ہلکی سی مرمت کے لئے کمپنی کے شو روم پر گئے۔
مرمت کے لئے کوئی ایک گھنٹے کا وقت درکار تھا۔ فارغ بیٹھے بیٹھے انہیں خیال
آیا کہ گاڑی چار پانچ سال پرانی ہے ۔ کچھ معقول پیسے خرچ ہوں توگاڑی بدل لی
جائے۔ شو روم والوں سے قیمت پوچھی ، کافی زیادہ فرق تھا۔ پوچھا اس پر اون
بھی ہو گا۔ شو روم والوں نے ہنس کو کہا ۔ اس گاڑی پر اون پرانے وقتوں کی
بات ہے۔ پھر بتانے لگے کہ 1800CC کی یہ مقبول ترین کار ہے۔ ایک حکومتی
چہیتے کے ایک دوسری کار کمپنی میں حصص ہیں۔ اس کمپنی کی غیر مقبول 1800CC
کار بکتی ہی نہیں۔ انہوں نے کمال دکھایا ہے کہ 1700CC سے بڑ ی گاڑیوں کو
لگژری گاڑیوں میں شامل کرکے ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ یہ حد پہلے 2000CC تھی دوسری
کمپنیوں کو توکچھ فرق نہیں پڑا،ہماری مقبول گاڑی کی سیل بہت زیادہ متاثر
ہوئی ہے۔ میرے دوست نے مجھے کہا کہ بھائی ،خاں صاحب کو یہ بات پتہ نہیں ہو
گی ۔ لکھو۔میں نے کہا بھائی کیا لکھوں۔ مجھے سرگرم انصافیوں سے ڈر لگتا ہے۔
ذرہ سی بات پر ان کا سر اس قدر گرم ہو جاتا ہے کہ عزت بچانی مشکل ہو جاتی
ہے۔ بعض کے سر کو یہ گرمی اس قدر چڑھ جاتی ہے کہ تشدد پر اترنے سے بھی
انہیں کوئی روک نہیں سکتا۔مجھے اپنی عزت اور اپنا آپ عزیز ہے معذرت چاہتا
ہوں۔
میرا ایک دوست مجھے ایک میرے واقف امپورٹر کے پاس لے گیاکہ پچھلے سال وہ
چیز جو بازار میں چھ سو روپے کی تھی ،اس نے فقط ڈھائی سو میں دی تھی۔ ہم اس
سے ملے تو اس دفعہ وہ کسی صورت میں وہی چیز چار سو سے کم میں دینے کو تیار
نہیں تھا۔وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ پچھلے سال امپورٹ ایک بزنس تھاپھر میری
طرف اشارہ کرکے طنزیہ کہنے لگا اس سال ان کی حکومت میں امپورٹ ایک ذلت ہے۔
تھوڑے دنوں کی بات ہے FBR کی موجودہ پالیسیوں کے سبب نہ کوئی امپورٹر نظر
آئے گا اور نہ ہی FBR کا کوئی ٹارگٹ۔ ان کو نہ تو کوئی بات سمجھ آ رہی ہے
اورنہ ہی ڈالر ان کے قابوآ رہا ہے۔ یہ جو چیز میں آپ کو چار سو میں دے رہا
ہوں ، یہ آج بھی بازار میں آپ کو ایک ہزار سے زیادہ میں ملے گی۔ چند دن
ٹھہر جائیں یہی حال رہا تو یہ چیز کوشش کے باوجود کئی ہزار میں بھی آ پ
حاصل نہ کر پائیں گے۔میرا دوست پوچھنے لگا کہ کیا کرنا چائیے۔ میں نے کہا
باہر آؤ۔ ہم باہر آئے۔ میں نے کہا منہ اونچا کرو اور جناب اسد عمر کے نام
پر میرے ساتھ دو دو چیخیں زور سے مارو کہ ان کا عوام کی چیخوں کا کوٹہ جلد
پورا ہو اور شاید ہمیں ان سے نجات مل جائے۔
مالی تو اپنی جگہ، انتظامی امور میں بھی یہ لوگ مکمل ناکام ہیں۔ چھوٹے
چھوٹے دو واقعات کا ذکر کروں گاجو ان کی ناکامی کی منہ بولتا ثبوت ہیں۔ LDA
لاہور میں ایک عدالتی ٹریبونل کام کرتا ہے۔ موجودہ حکومت آئی تو ٹریبونل کے
چیرمین جج کی مدت ملازمت پوری ہو چکی تھی۔ ٹریبونل نئے جج کا منتظر تھا۔
پرانے جج بھی مزید ایک سال کی توسیع کے خواہاں تھے۔کچھ چھ ماہ سے زیادہ
عرصہ گزرنے کے بعد انہیں توسیع مل گئی۔میرے ایک دوست کا کیس تھا۔ وہ خوش
تھا کہ چلیں کام شروع تو ہوا۔ کچھ پیش رفت ہوئی مگر اب سرکاری وکیل نہیں مل
رہا تھا۔ پتہ چلا کہ وہ سرکار سے تنخواہ لینے کے باوجود کبھی عدالت نہیں
آئے۔ انہیں لانا پڑتا ہے۔ کولمبس کی طرح انہیں بڑی مشکل سے ڈھونڈھا مگر
کورٹ آنے کے لئے انہوں نے اتنی بھاری قیمت مانگی کہ دینا ممکن نہیں تھا ۔
سینئر حکام سے اپیل کی کہ کسی معقول آدمی کو بھیج دیں۔ اسی دوران پتہ چلا
کہ وکیل صاحب کی مدت ملازمت ختم ہو گئی ہے اور نئے وکیل مقرر ہو رہے ہیں ۔
پھر پتہ چلا نئے وکیل مقرر ہو گئے ہیں مگر ابھی جائن نہیں کیا۔ بس جائن
کرنے والے ہیں۔ اب پتہ چلا کہ جج صاحب کی مدت ملازمت پھر ختم ہو گئی ہے۔عام
آدمی کو یہی گلہ ہے کہ اس ملک میں دو طرح کے لوگ ہیں ایک وہ جو کیس دائر
کرتے ہیں اور جج ان کا کیس چھٹی کے روز بھی خوشی خوشی سن لیتے ہیں اور
دوسرے وہ جن کا کیس کوئی سنتا ہی نہیں بلکہ سنتے ہوئے ججوں کو کوفت ہوتی
ہے۔ اس ملک میں غریب اور امیر کے لئے الگ الگ قانون ہے اور شاید وہ رہے گا
۔جو سب مثبت سوچ رکھنے والوں کے لئے باعث شرم ہے۔ حکومت اور جناب چیف جسٹس
کو مل کر ججوں کی اس دو رنگی پر قابو پانا ہو گا۔ ورنہ عوام میں مایوسیاں
تو ہیں ہی۔
ایک ذاتی واقعہ کہ وہ بجلی کا ٹرانسفارمر جو مجھ سمیت پانچ گھروں کو بجلی
مہیا کرتا ہے خراب ہو گیا۔ہم لوگ بجلی کے بغیر بیٹھے تھے۔ہمارے علاقے رائے
ونڈ روڈ کے لائن سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ اس کی مرمت آپ کو پرائیویٹ کرانا ہو
گی اور وہ بھی ان کی پسند کے لوگوں سے۔ ہم لوگ پانچ دن بجلی سے محروم رہے
اور مجبوری میں ان کی ہدایت کے مطابق پیسے دے کر بجلی بحال کروائی۔اس ساری
روئداد کو کسی دن قلم بند کروں گا۔ پانچ گھروں میں ایک گھر کچھ متنازعہ ہے
اس پر کسی وکیل کا قبضہ ہے اور ایک MNA ،جن کا تعلق پچھلی حکومت سے ہے،کے
عزیز واقارب شام کو کھیلنے کے لئے وہاں موجود ہوتے ہیں۔ لائن سپرنٹنڈنٹ نے
کنڈا لگوا کر بڑی ڈھٹائی سے انہیں لگاتار بجلی مہیا کی۔ میری شکایت پر SDO
صاحب ان پر برسے بھی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ صبح بجلی کاٹ لی جاتی اور شام کو ان
کی آمد پر کنڈا لگا کر بحال کر دی جاتی۔ ٹرانسفارمر کی مرمت میں بھی انہوں
نے کوئی حصہ نہیں دیا کہ پہلے ہی قبضہ گروپ ہیں۔بجلی لینا ان کا حق ہے کہ
سرکاری ملازم سرکار کے کم اور ان کے زیادہ ملازم ہیں۔ لگتا ہے کہ آج بھی نہ
کوئی لائن سپرنٹنڈنٹ کے صوابدیدی اختیارات کو چیلنج کر سکتا ہے اور نہ ہی
کوئی کسی کو غیر قانونی کاموں سے روک سکتا ہے۔ تبدیلی تو کہیں بھی نہیں۔
خان صاحب! اچھی حکومت کا کام لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنا ہے جس کی امید
لوگوں کو آپ سے تھی مگر افسوس، صد افسوس۔آپ کی حکومت نے لوگوں کے لئے جینا
دشوار کر دیا ہے۔
جناب خان صاحب! ہسٹری کا مطالعہ کریں۔ جن لوگوں نے کچھ کیا، بد تریں حالات
میں بھی دنوں میں کمال کیا۔شیر شاہ سوری کے حالات پڑھ لیں۔ دنوں میں لوگوں
نے تبدیلی محسوس کی تھی۔ جنگ و جدل میں مصروفیت کے باوجود اس نے انصاف کا
بہتریں نظام دیا۔ وہ پہلا حکمران تھا جس نے کھل کر عوام کی بات کی اور کہا
کہ بد عہدی اور مکاری حکمرانوں کے لئے بالکل جائز نہیں۔ اس نے جو ریونیو
نظام دیا وہی آج تک نافد العمل ہے،اس نے تین ہزار کلو میٹر لمبی جی ٹی روڈ
سمیت جو سڑکیں بنائیں آج تک ہم ان سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں۔ان سڑکوں کے
کنارے جگہ جگہ مسافروں کے لئے سرائے قائم کیں۔ ڈاک کا بہترین نظام دیا۔ ہر
مسجد کے ساتھ ایک مدرسہ تعمیر کرایا۔ بہت سے قلعے اور بہت سی شاندار
عمارتیں بنوائیں۔ اس کے علاوہ لاتعداد فلاحی کام آج بھی اس کے احترام کا
باعث ہیں۔ 1848 میں لارڈ ڈلہوزی بد ترین حالات میں گورنر جنرل بنا۔ بغیر
کسی امداد اور مشکل مالی حالات کے باوجود اپنے آٹھ سالہ دور میں اس نے اس
قدر کام کئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس نے ریلوے کی بنیاد رکھی۔ پورے
ہندستان میں ٹیلی گراف کا نظام قائم کیا۔ بہت سے علاقے فتح کئے۔ڈاک کے
پرانے نظام کو جدید بنیادوں پر استوار کیا۔پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد
رکھی۔ جی ٹی روڈ کو نئے سرے سے تعمیر کیا۔ بے پناہ پل بنوائے جن میں بہت سے
آج بھی ایک عرصہ گزرنے کے باوجود اپنی صحیح حالت میں قائم ہیں۔شملہ کو
گرمائی صدر مقام بنایا۔ روڑکی میں پہلے انجینیر نگ کالج کی بنیاد رکھی۔ ایک
آرڈیننس پاس کیا جس کی رو سے ہندستان میں پرائمری سے یونیورسٹی تک جدید
تعلیم کی بنیاد رکھی اور اسی بنیاد پر کچھ عرصے بعد کلکتہ اور دوسری
یونیورسٹیاں وجود میں آئیں۔ بیواؤں کی شادی اور دوسرے بہت سے نئے قوانین
متعارف کرائے۔سائنس، کامرس، انڈسٹری اورزراعت کو فروغ دیا۔ مگران لوگوں نے
اپنے ساتھ نا اہل دوستوں کو نہیں اہل اور مستحق لوگوں کو اہم عہدوں پر رکھا
تھا۔
جناب خان صاحب! آپ کی منتخب ٹیم کے وزرا یا تو فیاض الحسن چوہان کی طرح غیر
ضروری بولتے ہیں یا عثمان بزدار کی طرح بولتے ہی نہیں۔ پھر ان کا رویہ بھی
کچھ سیاسی محسوس نہیں ہوتا۔ پچھلے دنوں آپ کے بھانجے کی دعوت ولیمہ میں
ساری الیٹ موجود تھی۔ وہ الیٹ جو ہر دور میں کسی معاشرے کی صحیح ترجمان
نہیں ہوتی بلکہ اس معاشرے میں اقتدار کے بھوکے اور جھوٹے کروفر کے دلدادہ
لوگوں کے ترجمان، اخلاقی طور پر چھوٹے اور معاشرتی طور پر بڑے لوگوں پر
مشتمل ہوتی ہے ۔ وہاں بہت سے بڑے لوگ موجود تھے۔میرے جیسے لوگ جنہیں لوگ
عوام کہتے اور الیٹ جنہیں اخلاقی قدروں سے ہٹ کر کیڑے مکوڑے سمجھتی ہے، بھی
تھوڑی تعداد میں موجود تھے۔آپ کے بہت سے مرکزی اور صوبائی وزرا بھی موجود
تھے۔ اس طرح کا اجتماع سیاسی لیڈروں کے لئے تقویت کا باعث ہوتا ہے۔ وہ
لوگوں سے اچھی طرح ملتے اور بات چیت کرتے ہیں اور اچھا تاثر دیتے ہیں۔مگر
افسوس مجھے آپ کے وزرا کا رویہ مجھے بڑا عجیب لگا۔ وہ عام لوگوں سے بہت
اکتائے اور روکھے پھیکے انداز میں ہلے جلے بغیر یوں مل رہے تھے گویا وزارت
نے ان کے پاؤں بھاری کر دئیے ہوں۔ |