ایسٹ انڈیا کمپنی کے بہانے جب انگریز یہاں برصغیر پاک و
ہند میں داخل ہوا تو آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے تمام ریاستوں پر قابض ہوتا
گیا۔ انگریز نے صرف اس زمینی ٹکڑے پر قبضہ نہیں کیا بلکہ یہاں کے لوگوں کو
ذہنی طور پر بھی اپنا غلام بنا کے رکھ دیا۔ خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ
بہت امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ مسلمانوں کو ذہنی طور پر یہ باور کرایا گیا
کہ تم ہمیشہ سے ایک فضول قوم ہو جسے کچھ نہیں آتا۔ مسلمانوں کی بے شمار
ایجادات کو بڑی چالاکی سے غیر مسلموں کے ناموں سے منسوب کرنا شروع کر دیا۔
دور بین گلیلیو کی ایجاد نہیں بلکہ ابراہیم بن جندب کی ایجاد ہے۔ کششِ ثقل
کا نظریہ نیوٹن کا نہیں بلکہ ابن الہیثم کا پیش کردہ ہے۔ کیمرہ ابن الہیثم
کی ایجاد ہے۔ نظامِ دورانِ خون ولیم ہاروے نے نہیں ابنِ نفیس نے بتایا تھا۔
سرجری کے آلات ابولقاسم نے ایجاد کیے جو آج بھی ہسپتالوں میں استعمال ہوتے
ہیں۔ میڈیسن کو کیپسول میں ڈال کے دینا ابولقاسم زہراوی نے ہی شروع کیا تھا۔
سب سے پہلا ہسپتال مسلمانوں نے ہی بنایا تھا۔ ایک لمبی تفصیل ہے جس پر الگ
سے تحریریں موجود ہیں۔ آج بھی ہم میں ایسے نام نہاد دانشور موجود ہیں جو
ہمیں احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو کہتے ہیں مسلمانوں
نے تو ایک وائپر تک ایجاد نہیں کیا۔ آج کی میڈیکل سائنس اپنے محسنوں کو
بھولی ہوئی ہے صاحب۔ بو علی سینا کا قانون یورپ کی یونیورسٹیوں میں پانچ سو
سال تک پڑھایا جاتا رہا ہے۔ ہم نے ہی ان کو علاج کرنا سیکھایا ہے اور آج یہ
ہماری ہی طب کے خلاف بولتے ہیں۔
فارسی کی جگہ انگریزی زبان کو رواج دیا گیا۔ یہاں کے لوگوں کو ایسی تعلیم
دی جانے لگی جس سے ان میں قومی تصور ختم ہو اور ان کی تعلیم اس طرح کی ہو
جس سے یہ صرف نوکریاں حاصل کریں اور ذہنی طور پر ہمارے غلام بن کر رہیں۔
لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسیاں اسی سوچ کی عکاس ہیں۔ بدقسمتی سے آج بھی
ہماری حکومتیں یہی کہتی نظر آتی ہیں کہ جڑی بوٹیوں کو تلف کر دو یہ فصل کے
لیے نقصان دہ ہوتی ہیں۔ ارے بھائی ان جڑی بوٹیوں کے جو فوائد ہیں ان کا کیا
؟؟؟
اٹھارہویں صدی کے بعد جب مسلم حکومتوں کو زوال آیا تو انگریز حاکموں نے
ایلوپیتھی کوفروغ دینے کے لیے 1910ء میں طب کو غیر قانونی قرار دینے کا
فیصلہ کیا تاکہ یہاں کے محکوم لوگ ہر شعبہ زندگی میں ان کے محتاج بن کر رہ
جائیں اس دور میں نامور اطباء اپنے آباؤ اجداد کے فن کو بچانے کیلئے حکیم
محمد اجمل خان کی قیادت میں میدان عمل میں نکل آئے اور ملک گیر تحریک چلا
کر انگریزوں کو غلط قانون واپس لینے پر مجبور کر دیا۔
آج اس زوال کے دور میں بھی ایلوپیتھی بہت سی امراض کو لاعلاج قرار دیتی ہے
لیکن ہم اس کا کامیاب علاج کرتے ہیں۔ آج بھی اگر ہمارا گلاس بھرا ہوا نہیں
ہے تو آدھا ضرور ہے اور اس کے آدھے ہونے میں اسی مافیا کا ظلم و ستم شامل
ہے۔ جس طرح برطانوی طریقہ علاج کو فروغ دیا گیا اور سرکاری سرپرستی کی گئی
اس کا عشرِ عشیر بھی دیسی طب پر صرف نہ کیا گیا۔ |