طالبان اور افغان حکام کے درمیان ملک میں امن و سلامتی کی ایک اور کوشش

افغانستان میں طالبان کی قیادت عوام کو چین و سکون فراہم کرنا چاہتی ہے یا نہیں اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ ماضی میں طالبان نے ملک میں قیام امن کی کوششوں کو بم دھماکوں، خودکش حملوں وغیرہ کے ذریعہ مسترد کیا ہے۔اسکی ایک وجہ بیرونی ممالک کی افواج کا افغانستان میں رہنا بتایا جاتا ہے اور دوسری وجہ طالبان کا کہنا ہے کہ افغان حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی ریاست ہے۔ ان دنوں ایک مرتبہ پھر افغانستان میں قیام امن کے سلسلہ میں صدر اشرف غنی لون کی جانب سے کوششیں جاری ہیں، ویسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی افغانستان سے اپنی فوج کو کسی نہ کسی طرح نکالنا چاہتے ہیں کیونکہ افغانستان میں امریکی فوج اور حکومت کو بھاری قیمت چکانی پڑی ۔امریکہ محسوس کرچکا ہے کہ طالبان سے بات چیت کے ذریعہ ہی افغانستان میں قیام امن ممکن ہے یہی وجہ ہے کہ 25؍ فبروری کو امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں مذاکرات کا عمل شروع ہوا تھا جس میں طالبان نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ ملک سے امریکی اور نیٹو فوج کا تخلیہ ضروری ہے اور اسی صورت میں بات چیت کے مراحل کو مزید آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ ادھرطالبان ، افعان حکام سے قیام امن کے سلسلہ میں بات چیت کرنا نہیں چاہتے اس کے باوجود افغان صدر اشرف غنی لون کئی مرتبہ خانہ جنگی کے خاتمہ اور قیام امن کیلئے کوشش کرتے رہے ہیں اگر اس مرتبہ ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی ہے تو یہ افغان عوام کے لئے خوش آئند اقدام ہوگا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان حکام نے طالبان سے مذاکرات کیلئے 22 رکنی ٹیم تشکیل دی ہے، جو قطر میں ہونے والے امن مذاکرات میں حصہ لے گی۔یہ مذاکرات 14اور 15؍ اپریل کو قطر میں ہورہے ہیں اور اس 22رکنی ٹیم کی قیادت عبدالسلام رحیمی کررہے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ افغان حکومت کے ایک اعلی سطحی اجلاس میں امن مذاکراتی ٹیم کے اراکین کا انتخاب کیا گیا جبکہ 37 ارکان پر مشتمل قومی مفاہمتی کونسل کے قیام کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جو اندرونی اور بیرونی مذاکرات کی نگرانی کرے گی۔مذاکراتی کمیٹی اور مفاہمتی کونسل مشترکہ طور پر افغانستان میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور سیاسی مفاہمت کیلئے کس طرح اپنا کردار ادا کرینگے اور کس حد تک اس میں کامیاب ہوتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو عبداﷲ عبداﷲ نے بھی اشرف غنی لون حکومت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، جو طالبان سے مذاکرات کے لیے وفد بھیجنے سے متعلق ہے۔اب دیکھنا ہیکہ 14؍اور 15؍ اپریل کو قطر میں ہونے والے امن مذاکرات کس نتیجہ پر پہنچ پاتے ہیں کیونکہ طالبان دوحہ قطرمیں ہونے والے مذاکرات کو امن کانفرنس کا نام دے رہے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ یہ امن کانفرنس کوئی مذاکراتی اجلاس نہیں ہوگا۔طالبان کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابھی بھی افغان حکام کے ساتھ مذاکرات کرنا نہیں چاہتے ، خیر اگر امن مذاکرات یا امن کانفرنس کامیاب ہوتی ہے اور اس میں مثبت فیصلے کئے جاتے ہیں تو یہ افغان عوام کیلئے ایک راحت ہوگی، کیونکہ افغان عوام کئی دہائیوں سے ملک میں امن و سلامتی سے محروم ہیں۔ کاش طالبان عام عوام کے احساسات کو سمجھ پاتے اور ملک میں قیام امن و سلامتی کیلئے پہل کرتے ہوئے حکومت کا ساتھ دیتے۔

اسرائیلی فوج کی درندگی فلسطینی اسکول کے معصوم بچوں پر
فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کی درندگی کسی سے چھپی نہیں ہے ہر آئے دن کسی نہ کسی بہانے اسرائیلی فوج فلسطینی بچوں اور مرد و خواتین کو اپنے ظلم کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ 8؍ اپریل کو بھی اسرائیلی فوج نے اپنی درندگی کا مظاہرہ کیا۔فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں اسرائیلی فوج نے ایک پرائمری اسکول پر آنسوگیس کی اندھا دھند شیلنگ کی ۔ذرائع ابلاغ کے مطابق اسکول کے پرنسپل عدنان دعنا نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے اسکول میں بچوں پر آنسوگیس کی شیلنگ کی جس کے نتیجے میں درجنوں طلبا اور متعدد اساتذہ زخمی ہوگئے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسکول کے تدریسی عملے اور طلبا کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور متعدد طلبا دم گھنٹے سے بے ہوش ہوگئے۔ انہیں اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ اسرائیلی فوج کی بربریت کے خلاف نہ اقوام متحدہ اور نہ ہی عالمی سطح پر کارروائی کی جاتی ہے صرف چند الفاظ مظلوم فلسطینیوں کے تعلق سے ادا کئے جاتے ہیں اور اس بیان بازی کے بعد معاملہ ختم ہوجاتا ہے ۔جس طرح عالمِ اسلام کے حکمرانوں اور مسلم ممالک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہوئے عراق ، شام، یمن، افغانستان ، پاکستان وغیرہ میں امریکہ اور مغربی و یوروپی طاقتوں نے زمینی و فضائی کارروائیاں کرتے ہوئے ان ممالک کے لاکھوں عوام کو ہلاک و زخمی کیا اور انکی معیشت کو تباہ و برباد کیا اسی طرح اسرائیلی فوج کی درندگی کو ختم کرنے کیلئے اس کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہیے ۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ویوروپی ممالک جو عالمی سطح پر سوپر پاور کی حیثیت رکھتے ہیں اسرائیل کے سامنے بے بس و مجبور ہیں ۔ ویسے ابتداء ہی سے مذہب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف دشمنانِ اسلام کی عالمی سطح پر مفاہمت ہوتی رہی ہے اور ہوسکتا ہے کہ اسرائیل کی درندگی و بربریت اور ظالمانہ کارروائیوں کے پیچھے یہ تمام مغربی و یوروپی ممالک کارفرما ہوں ، وہ یہی چاہتے ہونگے کہ مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح نشانہ بناتے رہیں۔

ایران میں سیلاب کی تباہ کاریاں
ایران کی معیشت پہلے ہی امریکہ کی جانب سے توانائی اور بینکاری پر لگائی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہے اور حالیہ ہفتوں میں ایران میں شدید بارش کی وجہ سے آنے والے سیلاب نے اس میں مزید کئی گنا اضافہ کردیا ہے ۔سیلاب میں کم از کم 70افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور 500سے زائد افراد زخمی اور کم و بیش چار لاکھ افراد بے گھر بتائے جارہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق زمین کے تودے گرنے کے 409واقعات رونما ہوئے، 78 شاہراہیں سیلابی ریلے میں بہہ گئیں اور 84 پلوں کو نقصان پہنچا ،انفراسٹریکچر اور فصلوں کی مد میں مجموعی طور پر لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا جبکہ سیلاب کے باعث 1900 قصبے، دیہات اور شہروں کے لاکھوں افراد بے گھر ہوگئے اور کھانے پینے کی اشیاء کا فقدان پیدا ہو گیا۔بتایا جارہا ہے کہ ایران کی تاریخ میں ریکارڈ بارشوں نے 140دریاؤں اور نہروں میں سیلابی صورتحال پیدا کردی، سیلاب نے 13 صوبوں کو متاثر کیا اور راستے میں آنے والی ہر چیز کو تباہ کردیا۔ امدادی تنظیمیں بڑے پیمانے پر ہونے والے بحران سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ایران میں پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ کے مطابق مسلح افواج اپنی تمام تر قوت صرف کرتے ہوئے نقصان کو کم سے کم کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔معاشی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں پیدا ہورہی ہیں اور امدادی ہیلی کاپٹرس کی کمی کا بھی ایران کو سامنا بتایا جارہا ہے ۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں سے متعلق جواد ظریف نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ یہ صرف معاشی جنگ نہیں بلکہ معاشی دہشت گردی ہے۔ حکومت ایران نے متاثرہ لوگوں، خاص طورپر کسانوں کے نقصان کی تلافی کا وعدہ کیا ہے ۔

پاسداران انقلاب ایران امریکہ کی نظر میں دہشت گرد
امریکی صدر ٹرمپ نے ایرانی فوج کے خصوصی دستے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دیا ہے جس کے جواب میں ایران نے بھی امریکہ پرجوابی وار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی مجلس شوریٰ کی قومی سلامتی و خارجہ امور کمیٹی کے چیئرمین حشمت اﷲ فلاحت بیشہ نے کہا کہ ہم جلد ہی پارلیمنٹ میں ایک نیا بل پیش کریں گے جس میں امریکی فوج کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جائے گا۔ ان کہنا تھا کہ یہ اقدام امریکہ کی جانب سے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دینے کے اعلان کا رد عمل ہوگا۔ اس بل میں امریکی فوج کو 'داعش' کی طرح دہشت گرد قرار دیا جائے گا۔

سوڈانی صدرعمر البشیرکے خلاف احتجاج میں اضافہ
سوڈان میں صدر عمر البشیر کا 30سالہ دورِ اقتدارکا خاتمہ ہوچکا ہے، انہیں صدارتی عہدے سے ہٹا کر حراست میں لے لیا گیا۔1989ء میں فوجی بغاوت کے بعد صدر عمر البشیر نے سوڈدان کے اقتدار پر قبضہ کیا تھا ، تین دہائیوں سے اقتدار پر فائز عمر البشیر گذشتہ دنوں سخت عوامی احتجاج کا شکار رہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق الجزائر میں چار مرتبہ یعنی دو عشروں سے صدارت پر فائز رہنے والے صدر عبدالعزیز بوتفلیکا نے ملک میں عوامی احتجاج کے بعد مستعفی ہوگئے اور پانچویں مرتبہ صدارتی امیدوار نہ بننے کا اعلان کیا ۔ان کے اس اعلان کے بعدسوڈانی عوام میں بھی حوصلہ بڑا کہ وہ بھی اپنے ملک کے صدر عمر البشیر کے خلاف احتجاج کریں اور انہیں اقتدار سے محروم کردیا جائے اور آخر کار انہیں کامیابی حاصل ہوہی گئی ۔ملک کے وزیر دفاع عود ابن عوف کے مطابق سوڈان کی فوج نے ملک کے انتظامی امور سنبھال لئے ہیں اور دو سال کے عرصے میں ملک میں اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل کیا جائے گا جس کے بعد عام انتخابات منعقد ہونگے۔ وزیر دفاع کے بموجب ملک میں تین ماہ کی ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے۔فی الحال عمر البشیر کو محفوظ مقام پر رکھے جانے کی اطلاع ہے مستقبل میں ان کے ساتھ کس قسم کا معاملہ کیا جائے گا اس سلسلہ میں ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کیونکہ عمر البشیر کے نام عالمی عدالت برائے جرائم کی جانب سے حراست میں لئے جانے کا عالمی وارنٹ جاری کیا گیا ہے جس میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ سوڈان کے علاقے دارفر میں جنگی جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں۔سوڈان ایک عرصہ سے تنہائی کا شکار ہے ، 1993ء میں امریکہ نے صدر عمر البشیر کی حکومت کو اسلامی عسکریت پسندوں کو پناہ دینے پر دہشت گردی کی امداد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا تھا اور چار سال بعد واشنگٹن نے سوڈان پر پابندیوں کا بھی اعلان کیا تھا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک میں معاشی بدحالی، بدعنوانی میں اضافہ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ، اشیاء خوردونوش میں بے تحاشہ اضافہ ہے جس کی وجہ سے عوام صدر عمر البشیر کو اقتدار سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ 2011ء میں ملک کے دو حصے ہونے کے بعد سوڈان کی تین چوتھائی تیل کی پیداوار اس سے چھن چکی ، جس سے ملک کی معیشت پر بُرا اثر پڑا۔ عمر البشیر کے خلاف ہونے والے عوامی احتجاج میں فوج خاموش دکھائی دیتی رہی جبکہ سیکیوریٹی فورسز نے احتجاجی تحریک کو ختم کرنے کے لئے سخت کارروائیاں کیں اور سینکڑوں لوگوں کو حراست میں لے لیا۔اقتدار سے بے دخلی سے قبل تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ درمیانی درجہ کے فوجی عہدیدار مظاہرین کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں جبکہ اعلیٰ فوجی عہدیدار صدر عمر البشیر کے وفادار بتائے گئے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق فوجی اخراجات پر نظر رکھنے والی تنظیم ’’دی سینٹری‘‘ کا کہنا تھا کہ صدر عمر البشیر نے فوج کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے 2016میں کل بجٹ کا 70فیصد حصہ فوج پر خرچ کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اعلیٰ فوجی عہدیداروں اور انٹلیجنس عہدیداروں کو اپنی کابینہ میں شامل کیا تھا اور ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں لایا تھا۔ ان تمام حالات کے باوجود عوامی احتجاج میں اضافہ ہوتا دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا ، مظاہرین ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے تھے ، گذشتہ چار ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں ساٹھ سے زائد افراد ہلاک بتائے گئے۔8؍ اپریل کو سوڈان کی سکیورٹی فورسز نے 6؍ اپریل سے وزارت دفاع کی عمارت کے باہر دھرنا دینے والے ہزاروں مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے کارروائی کرتے ہوئے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ مظاہرین سوڈانی فوج سے مطالبہ کر رہے تھے کہ وہ ملکی صدر کو مستعفی ہونے پر مجبور کرے۔بتایا جاتا ہے کہ اسی وزارت کے کمپلیکس میں صدر کی رہائش گاہ اور ملکی فوج کے ہیڈکوارٹرز بھی ہیں۔اب دیکھنا ہیکہ عمر البشیر کا حال بھی بہارعرب کے ان حکمرانوں جیسا ہوتا ہے یا انہیں عالمی عدالت کے فیصلے کے مطابق حراست میں لے لیا جاتا ہے۔

لیبیا میں بڑھتی ہوئی خانہ جنگی کے خلاف آپریشن
گذشتہ چند دہائیوں کے دوران دشمنانِ اسلام نے جس طرح مسلم حکمرانوں کے خلاف سازشیں چلیں اور اس میں انہیں کامیابی حاصل ہوئی یہ ایک الگ بحث ہے ۔ ان ہی مسلم حکمرانوں میں ایک مردِ آہن کہلانے والے لیبیا کے حکمراں معمر قذافی بھی تھے جنہیں بدظن کرنے کیلئے دشمنانِ اسلام نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور آخر کار انہیں اقتدار سے محروم کیا گیا اور انتہائی بے دردی سے انہیں ہلاک کیا گیا۔ 2011ء میں کرنل معمر قذافی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد سے ملک عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ان دنوں جنرل حفتر جو 1973ء میں اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا اور سنہ 1987ء میں ان کو ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر چاڈ کے خلاف فوجی کارروائی کی ذمہ داری دی گئی تھی لیکن یہی ذمہ داری انکے فوجی کیریئر کا خاتمہ بتایا جاتا ہے۔ 1987ء میں جنرل حفتر کو 300سے زائد فوجیوں کے ساتھ چاڈ کی فوج کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ جنگی قیدی بنالئے گئے۔ کرنل قذافی نے حفتر کو فوج سے فارغ کردیا جس کے بعد حفتر قذافی کے مخالف بن گئے ، ذرائع ابلاغ کے مطابق جنرل حفتر نے معمر قذافی کو ختم کرنے کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا اور سنہ 1980ء کی دہائی کے آخر میں امریکہ کا دورہ کیا جہاں وہ سی آئی اے کے قریب آگئے۔سنہ 2011ء میں قذافی کے خلاف بغاوت کے آغاز کے بعد وہ لیبیا واپس آگئے اور جلد ہی ملک کے مشرقی علاقے میں حزب اختلاف کی فورسز کے اہم رہنما بن گئے اور فبروری2014میں حفتر دوبارہ اپنے سابقہ مقام پر پہنچ گئے ۔جنرل حفتر لیبیا کے وزیر اعظم السراج کی حکومت کے خلاف ہیں ۔ حفتر نے قومی مصالحت حکومت کو تسلیم نہیں کیا جس کی سربراہی فائز السراج کررہے تھے جنہیں بین الاقوامی برادری لیبیا کا وزیر اعظم تسلیم کرتی ہے ، السراج کا کہنا ہے کہ فوج کی قیادت ان کی حکومت کے ماتحت ہے ۔ملک میں پھیلی ہوئی بدنظمی کو ختم کرنے کے لئے مئی 2017میں فائز السراج اور حفتر کے درمیان مل جل کر کام کرنے کا معاہدہ طئے پایا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔حفتر کی اس بغاوت کے خلاف اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ لیبیا کے تمام شہروں کو غیرقانونی فورسز اور جارحیت سے صاف کرنے کے لیے خصوصی آپریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہ آپریشن لیبیا کے جنگی سردار خلیفہ حفتر کی دارالحکومت طرابلس پر چڑھائی کے جواب میں شروع کیا گیا ہے۔ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی اس وقت طرابلس کے نواح تک پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ دنوں حفتر کی فوج کے جنگی جہازوں نے طرابلس کے ہوائی اڈے کو بھی نشانہ بنایا۔ 7؍ اپریل کو ان حملوں میں تقریبا دو درجن افراد ہلاک بتائے گئے۔ دوسری جانب امریکہ نے لیبیا میں متحارب فریقین سے کہا ہے کہ وہ ایک دوسرے پر حملوں کا سلسلہ فوری طور پر روک دیں۔شام اور عراق کے حالات کچھ بہتر ہوتے دکھائی دے رہے تھے کہ دوسری جانب سوڈان اور لیبیامیں حالات بگڑ چکے ہیں۔
ٌٌٌ***

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210213 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.