وفاقی حکومت کی جانب سے اسٹاک مارکیٹ میں کاروبار کے لئے
نئے قوانین کے نفاذ کا معاملے پر بروکرز پریشانی مبتلاہو چکے ہیں ۔ اسٹاک
مارکیٹ کے نئے قوانین پر اسٹاک مارکیٹ کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے بروکرز
میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کاروبار میں آسانی ، روزگار کے مواقع بڑھانے
اور کاروبار بڑھانے کی حکومتی پالیسی کے بر خلاف کام ہورہا ہے۔اسٹاک مارکیٹ
میں 200 سے زائد چھوٹے اور درمیانے جبکہ صرف 20 بڑے بروکرز ہیں۔ ایس ای سی
پی پالیسی بورڈ کی جانب سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے لئے نئے قوانین کی
منظوری دی جا چکی ہے۔ پالیسی کے مطابق 50 کروڑ سے زائد سرمایہ کاری کرنے
والے بروکرز کو اپنے بروکریج اکانٹس میں اپنے اور کلائنٹ کے حصص کی اجازت
ہوگی۔ 25 سے 50 کروڑ روپے کے سرمایہ کاروں کو ٹریڈنگ سے متعلق محدود حقوق
ہوں گے۔پچیس کروڑ والے بروکرز صرف اپنے لئے حصص کی تجارت کریں گے۔ جبکہ
پچیس کروڑ والے بروکرز گاہکوں کو کوئی خدمات فراہم نہیں کرسکیں گے، اگلے
ہفتے سے قوانین کے لئیے عوامی مہم کا آغاز ہوگا۔ اسٹاک مارکیٹ میں حال ہی
میں کافی مندی دیکھنے میں آئی تھی جس نے سرمایہ کاروں میں تشویش پائی گئی ،
امید کی جا رہی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد حالات ٹھیک ہو جائیں
گے۔مگر ! نئے قوانین پر اسٹاک بروکرز نے وزیر خزانہ اسد عمر کو خط بھی لکھ
دیا ۔اسد عمر کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا کہ حکومت چھوٹے سرمایہ کاروں کو
ختم کرنا چاہتی ہے۔ نئے قوانین سے اسٹاک مارکیٹ مزید تباہی کی طرف جائے گی
۔ صدر سٹاک بروکرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ حکومت چھوٹے سرمایہ کاروں کو
ختم کرنا چاہتی ہے۔دوسری بڑی تبدیلی وفاقی حکومت نے پاکستان پینل کوڈ میں
ترمیم کرنے کا فیصلہ کرلیا۔حکومت کا کہنا ہے کہ ہمارے ملک میں سزائے موت کا
قانون ہے، جس کے باعث یورپی یونین سمیت بہت سے ممالک ہمارے قیدی واپس نہیں
کرتے،سزائے موت کے قانون میں ترمیم کرنے سے ان ممالک سے ڈاکوچوروں کوواپس
لایا جا سکے گا۔وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ایمنسٹی اسکیم پر بحث ہوئی ہے،
لیکن فی الحال ایمنسٹی اسکیم کی منظوری نہیں دی جاسکی۔اثاثہ جات ڈکلیریشن
اسکیم پر اجلاس ہو نا باقی ۔ اثاثہ جات ڈکلیریشن اسکیم کو کل کمیٹی کے
سامنے پیش کیا جائے گا۔حکومت کا کہنا تھا کہ نوازشریف اور آصف زرداری
خاندان نے کرپشن کی۔آصف زرداری نے کرپشن کیلئے اپنے بینک کھول رکھے تھے۔
اسحاق ڈار ، حسن اور حسین نوازعدالتوں کا سامنا ہے لیکن پیش نہیں ہورہے
بلکہ ملک سے باہر ہیں۔ اگر 26ملین ڈالر جمع کرکے پاکستان لاتے ہیں توسوچیں
شریف فیملی کا بیرون ملک کتناپیسا پڑا ہے۔26ملین ڈالر ٹی ٹی کے ذریعے
شہبازشریف کو منتقل ہوئے۔حمزہ شہبازکے 98فیصد اثاثے ٹی ٹی پر منحصر ہیں۔منی
لانڈرنگ کے حالیہ کیسز پر کابینہ نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔منی لانڈرنگ کو
منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔شریف فیملی نے اقامے کیوں رکھے ہوئے تھے؟ اس کی
مزید تفصیلات سامنے آئیں تو کیا واقعی نیندیں اڑ جائیں گی۔اب اس پر حکومت
کی تحقیقات سامنے آئیں گی۔اس دھندے میں وزرا بھی شامل تھے۔احسن اقبال اور
خواجہ آصف نے اقامے رکھے ہوئے تھے۔وفاقی وزیراطلاعات نے کہا کہ حکومت نے
پاکستان اسٹیل کو بحال کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ابھی تک پاکستان اسٹیل مل
کیلئے 6کمپنیز نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔اسٹیل مل سے ہماری ڈیمانڈ9ملین ٹن
تک ہے، پیداوار کو ایک ملین ٹن سے 3 ملین ٹن تک لے جائیں گے۔تیسری تبدیلی
وفاقی حکومت نے ہائیرنگ پالیسی میں تبدیلی کی ہے۔سابق دور حکومت میں
بھرتیوں کا کوٹہ ارکان اسمبلی کو دیا جاتا تھا لیکن اب میرٹ پر بھرتیاں ہو
نگی ۔گریڈ ایک سے 5 تک کی بھرتی کیلئے قرعہ اندازی کی جائے گی۔ وزیراعظم
عمران خان کل ہائو سنگ اسکیم کا افتتاح کریں گے۔ پہلے مرحلے میں ایک لاکھ
35 ہزار اپارٹمنٹس بنا رہے ہیں۔ حکومت 5سالوں میں 50ہزار گھر بنائے
گی۔کابینہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہورہی، سب وزرا اپنا اپنا کام کررہے ہیں،
تبدیلی کرنا ہوئی تووزیراعظم آفس کرے گا،ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں
مہنگائی کی شرح 9.41فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اربوں ڈالرز لینے کے بعد ڈالر کی
قیمت اوپر جا رہی ہے۔ ڈالر روز بروز بڑھ رہا ہے جو کہ اوپن مارکیٹ میں 145
روپے تک پہنچ گیا ہے۔ خطے کے دوسرے ممالک میں ڈالر کے مقابلے میں کرنسی کی
شرح تبادلہ کچھ یوں ہے، بھارتی روپیہ ایک ڈالر کے مقابلے میں 70روپے کا،
افغان افغانی ایک ڈالر کے مقابلے میں 76افغانی کاجبکہ بنگلہ دیش میں ایک
ڈالر کے مقابلے میں 70 ٹکے شرح تبادلہ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے
دوسری تمام اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا ہے،آئی ایم ایف
پروگرام کے تحت مزید سخت فیصلے لینے پڑیں گے۔ اگر یہ ساری صورتحال مدِ نظر
رکھی جائے تو تبدیلی کے دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ماضی کی طرح ایک بار
پھر قربانی بے چارے غریب عوام سے مانگی جا رہی ہے۔ اور تبدیلی کہیں بھی نظر
نہیں آ رہی، ملک سے 20ارب ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں 30 ارب ڈالر کا
تجارتی خسارہ جاری ہے۔جبکہ سابقہ حکومت نے بیرونی و اندرونی قرض کا اپنے
پیچھے بوجھ چھوڑا ہے، غریب آدمی کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں اگر کوئی
تبدیلی آئی ہے تو وہ مہنگائی کا بوجھ مزید غریب عوام پر ڈال دیا گیا ۔۔ٹرانسپورٹ
کے کرایوں سے لیکر سبزیوں دالوں اور چاولوں کی قیمت میں اس قدر اضافہ ہو
چکا ہے کہ غریب عوام اپنے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہے ۔ملک کو پتھردور میں
دھکیلا جارہا ہے کیا پھر ایسے حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ لوگ نمک مرچ
اور پانی میں پتھر ابال کر کھائیں میرے سمیت کسی غریب آدمی کی حالت مجھے
بہتر ہوتے نظر نہیں آئی عوام انتہائی پریشانی میں مبتلا ہیں اگر گزشتہ
حکومتوں نے کوئی سنگین جرم کئے ہیں تو فوری ان سے پردہ کشائی کر کے لوٹی
ہوئی رقم پاکستان کی غریب عوام کی فلاح پر خرچ کی جائے نوکریوں کے ساتھ
ساتھ مزدور طبقے کے بارے میں کچھ سوچا جائے ۔چوتھی تبدیلی قائدِ حزب اختلاف
شہباز شریف میں دیکھنے میں آئی ہے کہ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ
مزدور کی تنخواہ میں 18ہزار تک اضافہ کیا جائے جو انہوں نے اپنی 35سالہ
حکومت میں کام نہیں کیا یا ان سے ہو نہیں سکا اور اب توقع رکھتے ہیں تبدیلی
سرکار سے کہ وہ مزدور کی تنخواہوں میں بھی تبدیلی کرتے ہوئے تنخواہ بڑھائی
جائے ۔مہنگائی اور افراط زر کے پیش نظرکم ازکم تنخواہ 18 ہزار روپے کی جائے،
اضافہ سرکاری اور نجی تمام ملازمین کو دیاجائے، ایک لاکھ روپے تک ماہانہ
کمانے والوں کی تنخواہ میں 20فیصد فوری اضافہ کیاجائے، آج مہنگائی اور
افراط زر کی شرح 9.4 فیصد ہوچکی ہے کیا تبدیلی سرکار ایسا فوری کر پائے گی
یا نہیں! |