اس دنیا میں کچھ لوگ کھا کے خوش ہوتے ہیں اور کچھ کھلا
کے۔ہمارا دوست جاوید قریشی کھلانے والوں میں سے ہے۔کم ہی لوگ ہوں گے جو
تقاریب کو مقصد کی طرف لے جاتے ہیں ۔جاوید قریشی نے کھانا بھی کھلایا اور
اپنے پسماندہ علاقے کے دکھ بھی دکھائے۔جی ۱۳ اسلام آباد کا نو تعمیر شدہ
علاقہ ہے۔ابھی آبادی ہو رہی ہے۔یہاں جاوید قریشی کا گھر جو تلاش بسیار کے
بعد ملا بقعہ نور بنا ہوا تھا مجھے پیارے بھائی منصور محمود نے پرتپاک
انداز سے خوش آمدید کہا جاوید قریشی دوستوں میں لے گے۔اسلام آباد ایوب خان
نے بنایا لیکن ان کے اپنے علاقے میں ترقی کا دروازہ سندھڑی کے جونیجو دور
میں ہوا پی کے اکیالیس میں پتھر دور کی تاریکی کو مختار گجر نے دور کرنے کی
کوشش کی راجہ سکندر زمان وزیر بجلی و پانی تھے اور ایوب خان کے پوتے
توانائی کے وزیر ہیں۔خود چارپائیوں پر بیٹھنا اور عام عوام کو پاؤں میں
بٹھانے والے یہ خاندان اس علاقے کی بد قسمتی ان کی بد حالی کے ذمہ دار
ہیں۔اب عمران خان کا دور ہے چیزیں بدل رہی ہیں سڑکیں نکل رہی ہیں لیکن پھر
بھیہزارہ بیچارہ ایک مدت سے آئی سی یو میں ہے اسے کئی بار مواقع ملے کہ اس
کی الجھی ہوئی زلف کو اس کے بیٹے سنوار دیں لیکن شو می ء قسمت ایسا ہوا
نہیں یہاں کے لوگ وزارت اعلی کے مناسب تک بھی پہنچے مگر ٹوٹی ٹانگ جڑ نہ
سکی۔کہتے ہیں دوزخ میں ایک گڑھا ایسا بھی تھا جس کے اوپر کوئی چوکیدار نہ
تھا ہر ایک گھڑے سے لوگ نکلنے کی کوشش کرتے داروغہ ان کے سروں پر ڈنڈے مار
کر گرا دیتا لیکن ایک پر کوئی چوکیدار اور کوئی داروغہ نہ تھا سیر کرنے
والے اس گھڑے کے لوگوں کو سلام پیش کیا اور کہا کتنے اچھے لوگ ہیں جو امن
شانتی سے رہتے ہیں گائیڈ نے کہا نہیں ھضور یہ ہزارے وال ہیں ان میں سے جو
کوئی بھی باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے دوسرا اس کی ٹانگ کھینچ کر گرا دیتا
ہے۔قارئین دل دکھی ہے ارض اجداد دکھوں میں ہے میرے والدین کا تعلق ہزارہ سے
ہے۔میں دیکھ رہا ہوں کہ اسے اس کی شناخت نہیں مل رہی۔یہاں لوگ جانیں بھی دے
چکے مگر ہزارہ کا صوبہ ہنوز دلی سے بھی دور ہے۔دلی تو شائد اتنی دور نہ ہو
لیکن بلخ و بخارا ہے ہزارہ۔خوبصورت زمین جھرنے چیڑ بیاڑ کے درخت ہزارہ کے
مرغزار پانیوں کی اس دھرتی کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کو بیان کرنے کے لئے
نوحہ ء انیس لکھنے کی ضرورت ہے۔رات بھائی ریاض کے پاس تھا وہ اپنی داستاں
سنا رہے تھے جبری اسکول کے قیام کی کہانی سن کر دل عش عش کر اٹھا لیکن کیا
ایک جبری اسکول اس پورے ہزارے کی قسمت بدل سکتا ہے ہر گز نہیں۔امجد اسلام
امجد نے کیا خوب کہا تھا جو مل گیا اسے یاد رکھ جو نہیں ملا اسے بھول جا
لیکن ٹھہرئیے یہ امجد اسلام امجد نہیں کل کی حکومت پرسوں کے صاحبان اقتتدار
اور آج کے مشدی بھی یہی کہتے ہیں اٹک پار کی نیتا کا کہنا ہے ہمارا ہی مشکل
گزارہ ہے آپ کو کیا دیں اور ادھر مانگنے والوں کا حال بھی یہی ہے کہ پراں
چھڈو جو آپس میں ہی گتھم گتھا ہیں۔ایبٹ آباد کی سیاست کا حال اگر لکھیں تو
دل پھٹتا ہت ستم یہ ہے کہ جس نے دو بار ضلع ناظم کا انتحاب جیتا ہے اسے
چیئرمینی کا ٹکٹ نہیں ملتا اور پھر کہتے ہیں روناں کیوں ایں ۔یعنی مارو وی
تے رون وی نہ دیو۔
ہزارہ کی ترقی اور اس کی قسمت بدلنے میں دیر ہے ہاں اگر اﷲ نے سی پیک کو
مکمل کر دیا تو اس راستے پر تیل بدلنے اور ٹائر چینج کرنے کی صنعت لگ سکتی
ہے اور کئی چھوٹے کام پر لگ جائیں گے اس لئے کہ چائینز پیٹ چھوٹا رکھتے ہیں
لیکن شکم بڑا۔لوگ بی آرٹی کو روتے ہیں یہاں پگڈنڈیاں نہیں مل رہیں۔
اس روز ہلکی بارش کے بعد گی ۱۳ کی انصاف منزل میں جاوید قریشی نے رونق
لگائی دوستوں کا اجتماع تھا سیاحت کے وزیر عاطف خان مہمان خاص تھے یہ عاطف
خان جو پانچ سال وزیر تعلیم رہے اب اس گراں قدر تجربے کے بعد سیاحت کی
وزارت کے والی وارث بنے ہیں۔ مہمانوں میں فخروطن اصغر خان کے صاحبزادے علی
اصغر خان، ایم پی اے بابر سلیم،آفتاب کھوکھر برادر جاوید کے صاحبزادے
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار بلا مقابلہ ہونے والے زر گلخان جو بد قسمتی
سے ۲۰۱۸ میں تین ٹکٹ دائیں بائیں دینے کے بعد تینوں نشستوں سے محروم ہو گئے
کبھی ان سے پوچھیں گے کہ گل خانوں پے کیا گزری ہے۔
خاتون رکن اسمبلی ثمینہ ریاض جدون برادر جاوید قریشی ملک عظیم سجاد چودھری
منصور محمود جواد عباسی نزیر عباسی ایم پی اے شوکت علی یوسف زئی ایم این اے
علی جدون سپیکر مشتاق غنی ضلع ناظم کرنل شبیر کے علاوہ بہت سے دوست
تھے۔جاوید قریشی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ اسلام آباد میں بیٹھ کر گلیات کا
سوچتے ہیں اور ہر کوئی ایسا ہی کرتا ہے اسلام آباد ہزارے والوں کے لئے دامن
ہے وہاں کون سی صنعت یا کاروبار ہے کہ ماؤں کے بیٹے وہیں پیدا ہوں وہین
رہیں ۔آ جا کے سیاحت ہی ایک صنعت ہے۔پہلے اگر کوئی امید نہ تھی لیکن اب
امید ہے کہ عمران خان کو پہاڑوں سے پیار ہے وہ جوانی میں بھی ان علاقوں میں
آتے رہے اور جد وجہد کے دور میں بھی پہاڑوں میں وقت گزارا۔
جاوید قریشی نے ایک خوبصورت کام کیا کہ بیرن گلی اور ملحقہ علاقوں کے بارے
میں ایک خوبصورت پریزینٹیشن دی جس کی کوریج برادر اشتیاق عباسی نے آئینہ ء
جہاں میں بڑے خوبصورت انداز میں چھاپی۔
وزیر سیاحت واقعی سیاحتی لباس میں تھے لوگ بڑی واسکٹیں سٹ کے آئے تھے انہوں
نے ٹریک سوٹ پہن رکھا تھا لگ رہا تھا کہ وہ یا تو واک سے آئے ہیں یا جا کے
کریں گے۔ان کی باتوں سے پتہ چل رہا تھا کہ وہ عمران خان کی سوچ کو پروان
چڑھائیں گے۔گلیات کی خوبصورتی اپنی جگہ پورا ہزارہ ہی خوبصورت ہے حکومتیں
نہ بھی کریں تو لوگ اپنا راستہ بنا لیتے ہیں ہرو برج جو یو سی جبری میں نلہ
گاؤں سے جڑا ہوا ہے اب وہ ایک سیاحتی مقام بن چکا ہے گرمیوں میں پنڈی والز
موٹر سائیکلوں پر سفر کرتے ہیں ادھر وادی ء گلیات کے دامن میں ہر نوئی بھی
سیاحتی مقام کا درجہ حاصل کر چکا ہے۔برادر خورد سجاد کا تعلق ہوٹل انڈسٹری
سے ہے ا س کا کہنا تھا سب لوگ سڑکوں اور ہوٹلوں کی بات کر رہے تھے لیکن کسی
نے سوچا بھی نہیں کہ اس انڈسٹری کو چلانے کے لئے پڑھے لکھے لوگ کہاں سے
آئیں گے سیاح خوشگوار موڈ میں ہوتا ہے اگر میزبانی کے کے تقاضے ہی نہ پورے
ہوں تو پھر کون سیر کو آئے گا سجاد نے بھی کہا اور ایک موقع پر وزیر سیاحت
نے بھی مری میں ہونے والے واقعات کا ذکر کیا۔یقینا یہ بات سچ ہے کہ ان
علاقوں میں سیاح آئے تو کلچر بھی متآثر ہو گا ۔لیکن اس ڈر سے ترقی کا روشن
دور ان غریب لوگوں سے اس لئے چھین لیا جائے کہ کلچر خراب ہو گا ۔اس کے لئے
سری لنکا کا باتستو ریزورت کی مثال لے لئجیے یا دنیا بھر کے ریزورٹس جو چار
دیواری کے اندر سیاحون کو رکھتے ہیں۔
یہاں گلیات کے بارے میں انصاف منزل پر جو باتیں ہوئیں ان کا تذکرہ کرنا
ضروری ہے ہر ایک نے اس بات کو سراہا کہ ہزارہ کے اس خوبصورت حصے کو توجہ کی
ضرورت ہے۔جاوید بھائی کی ٹیم بتانا چاہ رہی تھی کہ یہاں سڑک نکالی
جائے۔وہیں خدشات ظاہر کئے گئے کہ درخت کاٹے جائیں گے۔تو حضور آپ درخت لگاتے
رہئے اور ہزارہ کے لاکھوں لوگ کراچی پنڈی لاہور کے ہوٹلوں کے برتن مانجھتے
رہیں۔درخت اگر کٹتے ہیں اور اس کی جگہ کسی کی معیشت کا بوٹا لگتا ہے تو اسے
لگنے دیجئے۔
تین سال مکھنیال میں پرویز خٹک عمران خان کے ساتھ آئے تو میں ایک بوسیدہ
گھر کی بچی کی طرف اشارہ کیا اور کہا جناب آپ ادھر بوٹے لگانے اور باز
چھوڑنے آئے ہیں ان بچوں کے لئے ہسپتال اسکول کدھر ہیں جواب ملا فنڈ نہیں
ہیں۔بد قسمتی سے ساتھ میں چاپلوس قسم کے ایک لیڈر بھی تھے جو علاقے کے سیاہ
و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں۔یہاں کے مریض اب بھی چارپائیوں پر لائے جاتے
ہیں جہاں بلینز ٹری سونامی کا بوٹا لگا تھا شکر ہے ماجد مختار گجر نے اس کے
ساتھ ایک ڈسپنسری بنوا دی ہے ۔جہاں اﷲ نے چاہا تو کم از کم ابتدائی طبی
امداد تو مل جائے گی۔
قارئین ان لوگوں کو معاشی مدد کی ضرورت ہے۔آپ کے لئے چیڑیں خوبصورت پانی
اور آبشاریں بہت کچھ ہوں گی لیکن حالت یہ ہے کہ جبری بنگلہ سے نجف پور روڈ
پر کھوتے بھی فور بائی فور لگا کر چلتے ہیں۔
یہی رونا جاوید قریشی کا تھا اور بار بار کہہ رہے تھے خدا را یہ سڑک
بنائیں۔لیکن مجھے لگتا ہے ہزارہ کے اس سپوت کی نہیں سنی جائے گی اس لئے کہ
ہزارہ سے ہی ان کے خلاف آواز اٹھ رہی ہے۔ اس محفل کے سرخیل واجد بخاری تھے
جو زلفی بخاری کے والد تھے ان سے بھی سلام دعا ہوئی اﷲ خوش رکھے خیال رکھتے
ہیں زر گل جس محفل میں ہو اور ساتھ ہم جیسے کا تو محفل میں قہقہے تو لازمی
ہوں گے۔اس سے پہلے دو روز قبل شیر بہادر کے بیٹے عمر شیر خان کے ولیمے پر
بھی بات چیت رہی منصور محمود کا انداز بیاں اور جواد عباسی کی گپیں اپنی
جگہ اس خنک شام میں خواتین بھی محدود تعداد میں تھیں لہذاﷲ چھوٹی بہن اور
ثمینہ ریاض جدون کی موجودگی نے اس مردوں کی محفل کو خواتین و حضرات کی محفل
بنا دیا تھا کھانے میں لحم مندی تھا مدتوں بعد کھایا عرب کی یہ ڈش مزے کی
تھی۔صفدر شاہ کاظمی اور عثمان آئی کے اپ ڈیٹس نے بڑی خوبصورت تصویریں
بنائیں۔ان کی باتیں بھی توجہ طلب ہیں کارکن اکیلا اکیلا محسوس کر رہے
ہیں۔یہ وہ مجاہد تھے جنہوں نے اسلام آباد کا مشکل قلعہ فتح کیا تھا ان کی
سنتا ہوں تو دل پریشان ہوتا ہے اب ایک نئی امید سیف اﷲ نیازی ہے دیکھتے
ہیں۔رات گیارہ بجے کے قریب محفل کے اہتمام پر ٹھنڈی آئیس کریم کھائی ۔رفیع
کا گیت گنگناتے سجاد نے لانسر آگے بڑھائی انصاف کی منزل ہے یہ جاوید کا گھر
ہے |