'پاکستان پر واجب الادا قرضے ایک ایسا سلگتا ہوا سوال ہے
جس کے بارے میں شاید معقول جواب کسی کے پاس بھی نہیں وزیر سے لے کر وزیر ِ
اعظم تک ہر کوئی اس بارے بات کرنے سے کتراتا ہے حکومتی اخراجات میں بے
اعتدالی، اللے تللے ،ناقص منصوبہ بندی اور دیگر ایسے کئی عوامل غیر ملکی
قرضوں کو ادائیگی میں بڑی رکاوٹ ہیں کئی سالوں سے ہماری اقتصادی و معاشی
صورت ِ حال یہ ہے کہ قرضوں کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لینے کی نوبت آن
پہنچی ہے پاکستان پر واجب الاداغیر ملکی قرضوں کی مالیت اتنی ہو چکی ہے کہ
ہم روزانہ اربوں روپے سود ادا کرنے پر مجبور ہیں ان حالات میں وزارت خزانہ
کے ساتھ ساتھ کئی حکومتی کے کرتا دھر تا بھی سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں جبکہ
سٹیٹ بنک آف پاکستان اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی اصلاح ِ احوال کیلئے
کچھ نہیں سو جھ رہا نوازشریف کے دوسرے دو ر حکومت میں ملک پر مجموعی طورپر
بیرونی قرضہ 4کھرب تھا مشرف دور میں عوام کو بجلی سمیت کئی ضروری اشیاء پر
سبسڈی دی جارہی تھی جو پیپلزپارٹی حکومت نے بتدریج ختم کردی میاں نوازشریف
کے تیسرے دور ِ حکومت میں بھی بجلی کی قیمتیں تواتر کے ساتھ بڑھائی گئیں
بجلی کی لوڈشیدنگ ایک الگ عذاب تھا ایک دو پر ہی موقوف نہیں ہر پارٹی نے
اپنی اپنی حکومتوں کے دوران دھرا دھڑ نوٹ چھاپے جس سے افراط ِ زر میں اضافہ
ہوتا چلا گیا آج بھی نوٹ چھاپے جارہے ہیں اور اس طرح ملک پر بیرونی قرضوں
میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے؟ کہاجاتاہے مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے
انتخابی و عدے کے بر عکس ڈیڑھ دو سال میں ہی 5کھرب کا نیا قرضہ لے لیا
تھایہ پانچ کھرب کہا ں گئے؟ اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں 22 کروڑ سے
زائدکی آبادی کے ملک پاکستان کا ہر شہری قریباً 1لاکھ 25ہزار روپے کا مقروض
ہو چکا ہے جوفی کس آمدنی کے لحاظ سے65فی صد سے بھی زائد ہے۔سرکاری
اعدادوشمار کے مطابق جون2009ء میں پاکستان کے بیرونی قرضے 50ارب10کروڑ ڈالر
تھے جبکہ ملکی قرضوں کی مالیت 46.57 ارب ڈالر بھی تجاوز کررہے تھے ملکی
قرضوں میں24ارب ڈالر شارٹ ٹرم قرضے ٹریڑری بلز کی شکل میں اس کے علاوہ ہیں
اس طرح ملکی قرضوں کی مالیت مجموعی قومی پیداوار57.6فی صد کے برابر ہے ،پاکستان
پر قرضوں کا یہ بوجھ اوسط سالانہ آمدنی سے 5گنا اور بجٹ ریونیو سے6گنا
زیادہ ہے۔ میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ’’ملک سنوارو۔ قرض اتارو
ــ’’ سکیم شروع کی کئی تھی یہ سکیم قومی امنگوں کے عین مطابق تھی جنرل مشرف
اگر میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ نہ الٹتے تو شاید پاکستان غیر ملکی
قرضے اترنے میں کامیاب ہو جاتا ۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک
بار پھر قرضوں کے چنگل میں پھنس گیا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا
سکتا ہے کہ وزیر خزانہ اسد عمر نے اعتراف کیاہے پاکستان کا گردشی قرضہ 1100
ارب روپے پر پہنچ گیا 503 ارب روپے گردشی قرضہ میں سے 480 ارب فوری ادا کئے
جاچکے ہیں اب ایک سال میں بجلی کے شعبے میں سالانہ خسارہ 453 ارب تک جا
پہنچاہے جبکہ 183 ارب میں سے 92 ارب روپے انتظامی اقدامات سے اکھٹے کئے
جائیں گے، ابھی ایک ماہ ہوا ہے، آگے دیکھیں کیا ہوتا ہے، سب کو مشورہ ہے
اپنے حصے کا جائز ٹیکس دینا شروع کردیں، یہ نہ سمجھنا کہ گزشتہ حکومت کی
طرح صرف تقاریر کریں گے، ہم ٹیکس چوروں کے پیچھے جائیں گے اور انہیں پکڑیں
گے۔ ہر وزیر ِ خزانہ کی طرح اسد عمر نے بھی کہ دیاہے آئی ایم ایف کے پاس اس
وقت جانا نا گزیر ہے ، اس کی اصل وجہ کرنٹ اکاؤنٹ ڈیفیسٹ ہے جوامید ہے کہ
رواں ماہ کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کچھ کم ہوجائے گا۔کیونکہ اب ہمارے زرمبادلہ
کے ذخائر آٹھ ارب ڈالرز تک پہنچ گئے ہیں یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر درست
ہوں گی لیکن ایک بات جو قابل ذکر ہے کہ جوں جوں پاکستانی روپے کی قیمت کم
ہوتی ہے غیرملکی قرضوں کی مالیت میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
شنیدہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج پر دستخط اس ماہ کرلئے جائیں
گے پاکستان کو ملنے والا بیل آؤٹ پیکج 3 سال کے لئے ہوگا پاکستان کو 6 ارب
ڈالرز کا پیکج منے والا ہے یا 9 ارب ڈالرز کا ، اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی
ہے جس کے لئے آئی ایم ایف کا وفد اسی ماہ کے آخری ہفتے پاکستان کا دورہ کرے
گا قرضوں کے مایہ جال کے باعث ملکی معیشت آہستہ آہستہ شدید مہنگائی کی طرف
بڑھ رہی ہے ۔جولائی تامارچ مالی سال2019میں مہنگائی کی شرح6.8فیصد ہونے کا
امکان ہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے اپنی رپورٹ میں کہاتھا کہ مالی سال 2019میں
مہنگائی کی شرح 7.5 فیصد پر برقرار رہنے کا امکان ہے، مہنگائی کی8 فیصد شرح
قابل برداشت رہے گی اگر حکومت راست اقدام کرے اور قابل عمل پالیسیاں بنائے
اور ان پر عملدر آمد بھی یقینی بنائے۔ اشیائے خوردونوش کی قیمت قابل برداشت
ہے جو صرف مارچ میں بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی جبکہ رمضان میں بھی
مہنگائی بڑھنے کا امکان ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو قرضوں کے چنگل
سے نکلنے کے لئے اپنے دسائل پر انحصار کرنا ہو گا، ہر سطح پر سادگی کو فروغ
دیا جائے ۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جب تک پاکستان کے تمام قرضے ا دا نہیں
کردئیے جاتے وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہ ، ہر قسم کی مراعات
،پروٹوکول اور الاؤنسز بندکردئیے جائیں مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے تمام تر
وسائل پر قابض اشرافیہ کو یہ تجویز پسند نہیں آئے گی اور وہ دل و جان سے
ایسی ہر تجویز کی مخالفت کریں گے کیونکہ وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی
کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو ان کے مفادات ایک ہیں اس کے ساتھ ساتھ
پاکستان کی بیوروکریسی کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جانا ناگزیر ہے کیونکہ
اس طبقہ کی تمام آشائسیں پاکستان کے دم سے ہیں پاکستان ہے تو ہم سب کا
مستقبل تابناک اور روشن ہے ۔حکومت کو اب زبانی جمع تفریق کی روش ترک کرنا
ہوگی قرضوں کے حصول اور ادائیگی کے طریقہ ٔ کار طے کرنے کے لئے ایک جامع
پالیسی تیار کرنی چاہیے ورنہ پاکستان کا حال اور مستقبل خوشگوار ہونے کی
پیش گوئی نہیں کی جا سکتی اس طرح اس مملکت ِ خداداد پاکستان کا بچہ بچہ
مقروض رہے گا اور آنے والی نسلیں کبھی ہمارے حکمرانوں کومعاف نہیں کریں گی۔ |