پاکستان میں پانی کا مسئلہ جب ہی حل کیا جاسکتا ہے جب
فیصلہ کرنے والے اپنے ذاتی مفاد کو بھلا کر صرف پاکستان کے لیے سوچا ہمارے
ملک میں بہت سے قدرتی وسائل ہیں مگر مگر مسلسل ہمارے ملک کو مسائل کا سامنا
ہے جس کی وجہ وہ کرپشن ہے جس کا شکار ہمارا ملک سترسال سے ہے.ا مفاد اور
عقل کی بات اگر دشمن سے ہیں سیکھنے کو ملے تو سیکھ لینی چاہیے اگر ہم انڈیا
کو پاکستان کے مقابلے میں دیکھیں تو انڈیا نے دریاؤں پر چالیس ڈیم بنا لیے
ہیں دریائے جہلم اور چناب پر انڈیا دنیا کا تیسرا بڑا ڈیم جس کا نام کارگل
ہے تعمیر کر رہا ہے.
پاکستان کی تقریبا معیشت زراعت پر انحصار کرتی ہے اور زراعت کا شعبہ خود
مکمل طور پر پانی پر انحصار کرتا ہے اگر پاکستان میں ڈیم کو جلد سے جلد نہ
تعمیر کیا گیا تو ہماری معیشت کو تباہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا.
کالاباغ ڈیم اصل میں 1985 میں شروع کیا گیا منصوبہ ہے جس پر عمل پیرا ہوتے
ہوئے 22 سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد 2007 میں فیصلہ کیا گیا کہ اس کو
بنایا جائے مگر کچھ وسائل کی کمی کے باعث دن بدن تاخیر کا شکار ہوتا چلا
گیا-
کالا باغ ڈیم اتنی طاقت رکھتا ہے کہ شروع میں دو ہزار چار سو میگا واٹ بجلی
پیدا کر سکتا ہے اور پھر 3600 میگاواٹ بجلی پیدا کرے گا پانی ہو طاقت
بڑھانے والے اداروں کے اندازے کے مطابق ایک سال میں کالا باغ ڈیم میں 20
ملین بیرل بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے.
آزادی کے اتنے سال گزر جانے کے بعد اور خود مختاری کے اتنے سال گزر گئے
لیکن کسی حکومت نے پاکستان میں موجودوسائل سے معیشت کو فائدہ پہنچانے کی
کوشش نہ کی .ہم میاں جسٹس ثاقب نثار کے اس اقدام پر بہت خوش ہیں کہ انہوں
نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی بنیاد رکھی اور اس کے لئے فنڈز جمع کیے
اور اس کی تعمیر شروع کروا دیں مگر اس کی جگہ یہ فنڈز اور محنت کالا باغ
ڈیم پر ہوتی تو یہ ڈیم دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم جیسے اور ڈیموں کی ضرورت
کو بھی پورا کر دیتا لیکن شاید ہماری اس پاک سر زمین کے فیصلے کرنے والے
امیر کبیر اور عیش و عشرت پرست لوگوں کو اپنی کرسی کے چلے جانے کا خوف تھا
یہ فیصلہ نہ کرسکے خیر میرا مشورہ ہے حکومت کو ان دو ڈیمو جیسے اور بھی ڈیم
تعمیر کیے جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری مستقبل کی نسلوں کو خشک سالی
کاسامنا کرنا پڑ جائے . |