عمران خان کو اقتدار ملتے ہی اُس نے اُن ساری باتوں سے
انحراف شروع کردیا جن کو وہ اپنا سرمایہ حیات سمجھ کرخود کو قوم کے سامنے
ایک مسیحا اور تبدیلی کا پیکربناکر پیش کیاکرتا تھا۔ 1996ء میںسیاست میں
آمد کے بعداُس نے کسی دوسری سیاسی پارٹی کے افراد کو اپنی پارٹی میں شامل
کرنے سے اِس لیے انکارکیا کہ وہ صرف نیک اور صاف ستھرے لوگوں پر مشتمل
پارٹی بنانا چاہتا ہے۔ وہ اِس وجہ سے گرچہ انتخابی سیاست میں مسلسل ناکام
بھی ہوتا رہا لیکن اُس نے اپنا یہ اُصول نہیں چھوڑا۔
پھرنجانے کیا ہوا کہ2011ء میں اچانک کسی غیبی قوت کے اشارے پر اُس نے اپنا
یہ اُصول اور طریقہ کار پس پشت ڈال کر انتخابی سیاست کے مروجہ سسٹم کے
سانچے میں خود کو ڈھالنا شروع کردیا اور اُن تمام افراد کو اپنی پارٹی میں
بھرناشروع کردیا جو اپنی سابقہ سیاسی پارٹی کی قیادت سے کسی بات پر نالاں
تھے یا پارٹی کی قیادت نے انھیں دھتکار دیاتھا۔
رفتہ رفتہ انھوں نے اُن تمام چوہدریوں، وڈیروں، سرداروں اور سرمایہ داروں
کو اپنی پارٹی میں شامل کرلیا جن کے خلاف جدوجہد کرنے کا علم بلندکرکے وہ
میدان سیاست میں کود پڑاتھا۔وہ سارے لوگ اب اُسے اچھے اورپیارے لگنے لگے
تھے۔اپنے اِس بدلتے طرزعمل کو یہ کہ کر دلاسہ دینے لگا کہ یہ لوگ الیکشن
لڑنے کی سائنس جانتے ہیں قطع نظر اِس کے کہ وہ سیاست کے اُس گندے جوہڑ کی
سائنس کاتجربہ رکھتے تھے جنکے خلاف لڑتے ہوئے ہمارے کپتان نے اپنے گزشتہ
بیس سال ضایع کرڈالے تھے۔ اقتدار کی سیاست کے لیے اُس نے ہر اُس شخص سے
سمجھوتہ کرلیا جن کو وہ خود غرض اور مفاد پرست سیاست کا ماہر تصور کیاکرتا
تھا۔
پارٹی کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اور یہ ضرورت جس نے بھی پوری کی پارٹی میں
اُس کو اہم اوربلند مقام ملنے لگا۔ پارٹی کے پرانے مخلص اوروفادار کارکن
پیچھے ہوتے گئے ۔نئے مالدار اور مفاد پرست لوگوں کاپارٹی اور خود کپتان پر
غلبہ ہونے لگا۔کسی نے درست کہاہے کہ خان صاحب کی اپنی جیب تو خالی کی خالی
ہی رہی لیکن اُن کے دونوں ہاتھ دوسروں کی جیب میں ضرور پڑے رہے۔علیم خان
اور جہانگیر ترین کو پارٹی میں آج بھی اِسی لیے سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے
کہ وہ کپتان کے ایک اشارے پر اپنی تجوریوں کے منہ مبینہ طور پر کھول دیتے
ہیں۔یہ اور بات ہے کہ وہ اپنا دیا ہوا پیسہ کسی اور ذرایع سے دوبارہ حاصل
بھی کرلیتے ہیں۔خان کو اِس سے کوئی سروکار نہیں کہ انھوں نے یہ پیسہ کہاں
سے حاصل کیا۔ وہ تو بس یہ جانتے ہیں کہ یہ دونوں افراد پارٹی کے مالی
معاملات بخوبی چلارہے ہیں۔
ڈی چوک کے دھرنے والے دنوں میں اور الیکشن مہم کے دوران کپتان نے جتنی
باتیں کی تھیں اقتدار ملتے ہی سب کی نفی کرڈالی۔غیروں سے قرضے نہ لینے اور
آئی ایم ایف کے پاؤں نے پڑنے کے جوبلند بالا دعوے کیے تھے سب کے سب رفع
دفع ہوگئے۔اب نہ وہ غیرت، خودداری اورانا کی باتیں ہیں اور نہ وہ شرم و حیا
کااحساس۔بلکہ قرضہ مل جانے کی صورت میں ٹی وی پر آکر قوم کوانتہائی ڈھٹائی
کے ساتھ خوش خبریاں سنائی جاتی ہیں۔اسد عمر صاحب جو خان کی پارٹی میں سب سے
قابل اور ذہین آدمی تصور کیے جاتے تھے انھیں جس طرح صرف آٹھ مہینوں میں
اپنے سے الگ کردیا وہ بھی خان کی اُس سوچ کی واضح نشاندہی کرتی ہے جس سے
باہر نکلنااب خان کے بس کی بات نہیں۔کہاجاتا ہے کہ اسد عمر کو ہٹانے میں
درپردہ ہمارے فیوڈلز کا بہت بڑا رول اورکردار شامل رہا ہے۔
اور ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ پارٹی اورخود خان کے ذہن اور اعصاب پر کون
سا بڑا زمیندار اور سرمایہ دار ہمیشہ سے سواررہا ہے اور جس کے مشورہ کے
بغیر خان کوئی بھی بڑا کام نہیں کرتے۔اسد عمر کو اُن کے عہدے سے ہٹانا کوئی
چھوٹا اور معمولی قدم نہیں تھا۔خان نے یہ فیصلہ یقینا مجبورا ًاوربادل
نخواستہ ہی کیاہوگا۔اب آپ سوچ سکتے ہیں کہ خان کتنا مضبوط اور ثابت قدم
شخص ہے۔اُن کے مضبوط ہونے اور ڈٹ جانے کی ساری جاتی محض خیالی اورطلسماتی
ہی ہیں۔ حقیقت سے اُن کاکوئی واسطہ نہیں ہے۔وہ اپنی کہی کسی بات سے کب مکر
جائیں یایوٹرن لے لیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ اب انتہائی ناقابل اعتبار
شخص بن چکے ہیں۔باعث حیرت ہے کہ اپنی اِس بے اعتباری کو بھی وہ قابلیت اور
لیاقت سے تشبیہ دیتے ہیں۔
جوشخص جتنا بڑا یوٹرن لے اُن کے نظر میں وہ اُتنا ہی بڑا قابل اورکامیاب
شخص ہے۔ یہ تھیوری اور فلسفہ شاید ہی دنیا میں کسی اور نے دیا ہوگا۔یہ
ہمارے کپتان ہی کا خاصہ ہے کہ جن جن لوگوں کو انھوں نے اپنے دوراقتدار کے
ابتدائی دنوں میں چن چن کر بڑی بڑی وزارتوں پرلگایاتھا آج انھیں نالائق
اور نااہل قراردیکر نکال باہر بھی کررہے ہیں۔ اُن کے بقول جو وزیر کارکردگی
نہیں دکھائے گا وزارت سے علیحدہ کردیا جائے گا۔یہ اور بات ہے کہ اقتدار کے
سو دن پورے ہونے پراِنہی لوگوں کو انھوں نے امتیازی نمبر دیکر نہ صرف پاس
کیاتھا بلکہ شاباشی اورقابل ستائش جیسے جملوں سے نوازا بھی تھا۔ ہماری سمجھ
میں یہ نہیں آرہا کہ وہ سارے کے سارے آج اگر غلط اور نااہل ہونے لگے ہیں
تواُن کا انتخاب کرنے والا کیونکر غلط اور نااہل نہیں قرار نہیں دیاجاسکتا۔
خان صاحب کی اب تک کی کارکردگی سے یہ نتیجہ باآسانی اخذکیاجاسکتاہے کہ اُن
کانہ کوئی وژن ہے اور نہ کوئی لائحہ عمل۔ نااہلوں اور نالائقوں کا ایک بہت
بڑا گروہ انھوں نے اپنے گرد جمع کرلیا ہے۔جن سے کام لینا تو کجا جان چھڑانا
بھی ممکن نہیں۔بیٹنگ آرڈر بدلنے کی باتیں کرکے وہ قوم کو بظاہر دلاسہ دے
رہے ہوتے ہیں لیکن دراصل وہ اپنی نااہلی اور نالائقی پر پردہ ڈال رہے ہوتے
ہیں۔شروع شروع میں تو مسائل کے حل نہ ہونے کا الزام وہ سابقہ حکومتوں
پرڈالتے رہے لیکن اب چونکہ یہ منجن زیادہ دنوںتک نہیں بک سکتا تھالہٰذا
وزیروں کے بیٹنگ آرڈر تبدیل کرنے کی باتیں کر کے اپنی خفت چھپارہے ہوتے
ہیں۔اُن کی مشکل یہ ہے کہ اُن کے پاس کوئی ایک بھی ایسا قابل اور ہنر مند
شخص نہیں ہے جس پر اعتبار کرکے وہ بلاخوف و خطر وزیر بناسکیں۔
اُن کے انمول ہیروں میں سے سب سے اہم اور قابل سمجھاجانے والاشخص اسد عمر
ہی جب ناکام ہوگیا تو اب کون سے ہیرا ایسا بچا ہے جسے وہ کسی اہم عہدے
پرلگاپائیں۔پارٹی کا اثاثہ سمجھے جانے والے سارے لوگ تو اناڑی اور غیر
سنجیدہ قسم کے لوگ ہیں۔
انھیں حکومتی امورسے نمٹنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ وہ سارے کے سارے کھلنڈر
اوربچگانہ سیاست کے امین ہیں۔اُن سے کوئی اہم اورذمے دارانہ کام نہیں
ہوپاتا۔ وہ ٹی وی پر بیٹھ کر اپنے مخالفوں کو تو لتاڑ سکتے ہیں لیکن ملک کو
معاشی بحران اوردیگر مشکلات سے باہرنہیں نکال سکتے۔ اُن کے تربیت ہی ایسی
ہوئی ہے کہ وہ جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگاکرصرف اپوزیشن ہی کو قابومیں
کیے رکھیں۔اِس کے علاوہ کوئی اور کام اُن سے نہیں ہوسکتا۔
خود خان الیکشن ہونے تک اِس ذمے داری کے لیے ہرگز تیارنہ تھا۔ اُسے قطعاً
پتہ نہیں تھا کہ اقتدار اُس کی جھولی میں اِس طرح اچانک ڈال دیا جائے
گا۔لہٰذا جس مشکل سے وہ اوراُن کی پارٹی آج دوچار ہے۔اُس کے ذمے دار وہ
خود بھی ہیں اوروہ قوتیں جنہوں نے انھیں اقتدار دلایا ہے۔خان کو یہ منصب
دلانے والوں کو شاید یہ زعم ہے کہ جس طرح انھوں نے میاں نواز شریف کو فارغ
کردیا تھاکچھ دنوں بعد اِس وزیراعظم کو بھی فارغ کردینگے۔
وفاقی حکومت میں تبدیلیاں ہوگئیں۔عمران خان کے قریبی ساتھی اسد عمر رخصت
ہوگئے اورفوادچوہدری کا قلمدان تبدیل ہوگیا۔جنرل مشرف کی ٹیم کے اراکین
ڈاکٹر حفیظ شیخ اور فردوس عاشق اعوان نئی ٹیم میں شامل ہوگئے۔ اس کے علاوہ
فاروق اعوان اور اعجاز شاہ بھی نئی ٹیم میںداخل ہوگئے۔سپریم کورٹ کے سخت
ریمارکس کے باوجوداعظم سواتی بھی اس ٹیم کا حصہ بن گئے۔
انٹیلی جنس بیوروکے سابق سربراہ اعجاز شاہ بھی وزیر داخلہ ہوگئے۔اسد عمر
گزشتہ دنوں امریکا میں آئی ایم ایف کی ٹیم سے کامیاب مذاکرات کے بعد وطن
پہنچے تھے،وہ اچھے دنوں کی نوید سنا رہے تھے کہ اچانک رخصت ہوگئے۔اب اسد
عمر کہتے ہیں کہ نئے وزیرخزانہ کے لیے حالات بہت زیادہ سازگار نہیں
ہونگے۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نئے وزیر خزانہ سے معجزوں کی امید نہ رکھی
جائے ۔دودھ اور شہدکی نہریں اب نہیں بہیں گی۔
وفاقی کابینہ میں تبدیلیوں کی خبریں کافی دنوں سے آرہی تھیں مگر ٹی وی
چینلز کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹی ان خبروں کو جعلی قرار دینے کے زمرے میں
شمار کرتی تھی اور ان خبروں کو نشر کرنے والوں کو نوٹس جاری کر رہی تھی مگر
آخر یہ خبریں سچ ثابت ہوگئیں۔
تحریکِ انصاف کی حکومت کو اقتدار میں آئے9 ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوا مگر
ہمیشہ کی طرح ملک کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ملک میں امن وامان
کی صورتحال بدستور خراب ہے۔کوئٹہ میں ہزارہ برادری خودکش حملے کا نشانہ
بنی۔اس حملے میں 20 کے قریب افراد شہید ہوئے۔ ہزارہ برادری نے ہمیشہ کی طرح
کئی دنوں دھرنادیا، گورنر، صدراور وزیرِاعظم سب کوئٹہ پہنچے، وعدے کیے گئے،
ملزمان کو قرار واقعی سزا دلانے کی یقین دہانی کرائی گئی مگر ہزارہ برادری
والے اب بھی غیر مطمئن اور پریشان ہیں۔ پھر سیکیورٹی فورسز کو دہشتگردوں کے
خاتمے کے لیے پشاور کے شہری علاقے حیات آباد میں15گھنٹے تک آپریشن کرنا
پڑا۔ اس آپریشن میں ایک پولیس افسر شہید ہوئے۔ 5کے قریب دہشتگرد مارے گئے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ دہشت گرد جدید ترین آلات سے لیس تھے۔ مکران ڈویژن کے
شہر اورماڑہ میں دہشتگردوں نے بس سے اتار کر 15 افراد کو گولی مار کر شہید
کردیا۔ شہید ہونے والے افراد کا تعلق سیکیورٹی فورسز سے تھا۔پھر پنجاب میں
امن و امان کی صورتِحال پرعدم اعتمادکا اظہارکرتے ہوئے پولیس کے سربراہ کو
تبدیل کیا گیا۔ گزشتہ 9 ماہ کے دوران حکومت نے معیشت کو سدھارنے کے اعلانات
کیے مگر کوئی حقیقی شکل نہ بن سکی ۔
حکومت کے مشیر تجارت رزاق داؤد نے خود یہ اقرار کیا کہ ضروری اشیاء کی
مدمیں 40 فیصد اضافہ ہوا ۔ درآمدات کا ہدف پورا نہ ہوسکا اور انکم ٹیکس جمع
کرانے والوں کی تعداد کم رہی۔ پھر ادویہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے
لگیں۔ادویہ کی قیمتوں میں اضافے پر جب میڈیا میں واویلاہوا تووزیر صحت کو
خیال آیا اور انھوں نے قیمتوں میں اضافے سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار
دیتے ہوئے کہا کہ ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ گزشتہ حکومت کے دور
میں ہوا تھا جس کی معیاد کو ختم ہوئے سال بھر سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔
اسی طرح روزگار کی سہولتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس وقت اعلیٰ تعلیم
یافتہ افراد جن میں انجینئر،ایم بی بی ایس اورپی ایچ ڈی ڈگری یافتہ افراد
شامل ہیںان میں بیروزگاری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ تحریکِ انصاف نے اپنے
منشور میں عہد کیا تھا کہ15 لاکھ افراد کو ملازمتیں دے دی جائینگی۔ ایک
وفاقی وزیر فیصل واؤڈا عجیب و غریب اعلانات کرنے اور کاؤ بوائے کا کردار
ادا کرنے کی شہرت رکھتے ہیں نے ایک ٹی وی شو میں یہ اعلان کردیا کہ
ملازمتوں کی بارش ہونے والی ہے۔
وزیرِ موصوف اس سے پہلے بھی یہ اعلان فرما چکے ہیں کہ پاکستان کو تیل و گیس
کا عظیم ذخیرہ ملنے والا ہے ۔ اسی طرح حکومت نے غریبوں کو لاکھوں مکانات
دینے کا بھی وعدہ کیا، کوئٹہ میں ایک رہائشی اسکیم کا اعلان ہوا مگر اس
وعدے کی کوئی ملک گیر عملی صورت نظر نہیں آئی۔ سابق وزیرِ اطلاعات فواد
چوہدری ہفتے میں دو دن میاں برادرن،زرداری اور مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے
رہنماؤ ں کی کرپشن کے اسکینڈل افشا کرتے ہوئے آخر وزارتِ اطلاعات سے محروم
ہوئے۔
حمزہ شہباز، آصف زرداری، شہباز شریف اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کی
پیشگوئیاں ہوامیں تحلیل ہوگئیں۔بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ وفاقی
کابینہ میں تبدیلیاں دراصل تحریکِ انصاف کے مختلف گرہوںکی کشمکش کا منطقی
نتیجے کی صورت میں برآمد ہورہی ہیں۔
ان تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ سے سزا یافتہ جہانگیر ترین اب
بھی عمران خان کے پاس سب سے مضبوط شخصیت ہیں۔ ان کی مخالف وزیرخارجہ شاہ
محمود قریشی ،اسد عمر، چوہدری سرور اور دیگر اس کشمکش میں شکست کھا رہے ہیں
اور تجزیہ نگار یہ بھی کہتے ہیں کہ سابق صدر مشرف کی ٹیم کو عمران خان کے
گرد جمع کر دیا گیا ہے ، ڈاکٹر حفیظ شیخ اور اعجاز شاہ اور محمد میاں سومرو
جو پرویز مشرف ٹیم کا حصہ تھے۔
ان کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ڈاکٹر حفیظ شیخ اور فردوس عاشق اعوان بعد میں
پیپلز پارٹی کی حکومت کا حصہ بنے ۔سینئر صحافی آئی اے رحمان نے لکھا ہے کہ
کابینہ میں تبدیلیوں سے محسوس ہوتا ہے کہ غیر منتخب افراد کو منتخب
نمایندوں پر ترجیح کی دی گئی ہے جس سے 60ء کی دہائی کے جنرل ایوب خان کے
دور کی یاد تازہ ہوگئی ۔ 2002 سے دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونماہوئی ہیں،اس
وقت ملک ایک شدید قسم کے اقتصادی بحران کا شکار ہے،دوسری طرف بین الاقوامی
برادری اس بحران میں پاکستان کی اس طرح مدد کرنے کو تیار نہیں جس طرح اس نے
ماضی میں کی تھی،اقتصادی بحران کی کئی وجوہات بتائی جاتی ہیں،ایک وجہ تو یہ
ہے کہ فنانشل ٹیرارزم کی ٹاسک فورس کی لگائے جانے والی سخت پابندیوں کی وجہ
سے ملک کا بینکنگ کا نظام براہ راست متاثر ہورہا ہے۔
حکومت اس ٹاسک فورس کی ہدایات پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس سے غیر
رسمی معیشت سکڑ رہی ہے۔دوسری طرف نیب ،ایف آئی اے اور ایف بی آر کی مسلسل
کارروائیوںکے نتیجے میں حکومت کے دعووں کے باوجود ملک کی معیشت جان نہیں پڑ
سکی۔سرمایہ کار نئی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں اور روپے کی قیمت کم ہونے
سے اور ڈالر کی قیمت بڑھنے کے نتیجے میں برآمدات کی شرح گر گئی ہے۔پھر
ماحولیاتی تبدیلیوں نے زراعت کے شعبے کو سخت نقصان پہنچایاہے۔
گزشتہ ہفتے پنجاب اور سندھ میں ہونے والی بارشوں کے نتیجے میں گندم کی فصل
کو سخت نقصان پہنچا۔ کہا جاتا ہے کہ اسد عمر نے آئی ایم ایف کی شرائط مان
لی تھیں۔ جس کے نتیجے میں حکومت نے اس معاہدے پر عمل ہونے کی صورت میں
حکومت کو بجلی،گیس،پٹرول،شکر اورکیمیائی کھاد کی قیمتوں کومتوازن رکھنے کے
لیے دی جانے والی زرتلافی کو واپس لینا پڑے گا جس سے بنیادی اشیاء کی
قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔
امریکا ،برطانیہ اور فرانس مسلسل یہ کوشش کر رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی
جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مولانا مسعود اظہر کو دہشتگرد قرار دیا جائے
اگرچہ کہ چین نے قرارداد کو بار بار ویٹو کیا ہے مگر امریکا، برطانیہ اور
فرانس کی ناراضگی کی بنا پر عالمی مالیاتی اداروں کا رویہ بہت سخت ہوگیا ہے
جس کے منفی نتائج برآمد ہورہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی اپنی کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں سے ملک کے اقتصادی
بحران پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا۔جب تک سرحدوں پر صورتحال معمول پر نہیں
ہوگی اور کالعدم تنظیموں سے جان نہیں چھوٹے گی امن و امان کی صورتحال بہتر
نہیں ہوگی۔ بنیادی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ جب تک ملک میں اس وقت سنگین
بحران کی جو بنیادی وجوہات ہیں وہ دور نہیں ہونگی یہ بحران جاری رہے گا۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ جب تک موجودہ حکومت مکمل طور پر اقتدارِ اعلیٰ کی
مالک نہیں ہوجاتی وہ بین الاقوامی حالات کے مطابق اپنی پالیسیاں ترتیب نہیں
دے پائے گی اور معیشت کو بچانے کے لیے حقیقی اقدام نہیں کرسکے گی۔ درپیش
سیاسی صورتحال سے یہی نتیجہ اخذ ھوتا ھے کہ تبدیلی تجربہ ناکام، بحران نہیں
ٹلنے والے۔ |