ڈاکٹر محمد مسعود احمد
فاضل بریلوی مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کا عہد مبارک اواخر انیسویں
صدی عیسوی (١٨٥٦ئ) سے شروع ہوکر اوائل بیسویں صدی عیسوی ( ١٩٢١ئ) میں ختم
ہوتا ہے۔ اس دور میں بعض سیاسی و نیم سیاسی اور مذہبی تحریکات نے جنم لیا
اور ہندوستان کی دینی اور سیاسی فضا کو مکدر کیا۔ فاضل بریلوی ایک مصلح تھے،
انہوں نے ان تحریکات کی نقد اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور جہاں جہاں شریعت کے
خلاف کچھ محسوس کیا یا مشاہدہ کیا برملا متنبہ کیا، بلا خوف لومۃ لائم اس
تنبہ کو بعض حضرات نے فتنہ انگیزی سے تعبیر کیا ہے جو ستم ظریفی نہیں تو
اور کیا ہے؟ تعمیر کے لیے شکست و ریخت کے ہنگامے کہاں نہیں ہوتے؟ فتنہ وہ
ہے جو دین کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دے نہ کہ وہ جو اور مستحکم کردے۔ دین
جو سراسر ادب ہے، جو سراسر محبت ہے، جس کو عقل کے پیمانوں سے ناپا جا سکتا
ہے لیکن عشق کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور پھر کھرا اور کھوٹا الگ کردیا
جاتا ہے، فاضل بریلوی نے یہی کچھ کیا ہے۔
فاضل بریلوی زبردست اہل قلم تھے، انہوں نے بے شمار رسالے اور کتابیں لکھی
ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہزار سے زیادہ کتب و رسائل
تصنیف فرمائے۔ ان میں سے تقریباً نصف میں معاصر تحریکوں اور جدید نظریات پر
بے لاگ تنقید کی گئی اور کھرا اور کھوٹا الگ کردیا گیا ہے۔
موافق و مخالف دونوں حضرات نے زیادہ تر اسی قسم کی تصانیف کو اجاگر کرنے کی
کوشش کی ہے جس سے عوام و خواص میں یہ غلط تاثر قائم ہوگیا ہے کہ فاضل
بریلوی نے اپنی زندگی میں یہی کچھ کیا اس کے علاوہ کچھ نہ کیا، حالانکہ وہ
تنقید و تحقیق دونوں میدانوں کے شہ سوار ہیں۔ ان کی تبحر علمی کا اندازہ اس
سے لگایا جاسکتا ہے کہ علوم معقول و منقول (قدیم و جدید) کی تقریباً پچاس
سے زیادہ شاخوں پر ان کو مکمل عبور حاصل تھا اور ان پچاس علوم و فنون میں
کوئی نہ کوئی یادگار تحریر و کتاب چھوڑی ہے۔
فاضل بریلوی جلیل القدر فقیہ تھے، آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ تیرہ چودہ
سال کی عمر میں وہ مسند فتویٰ نویسی پر فائز ہوچکے تھے۔ یہ بات انہوں نے
خود لکھی ہے، کسی معتقد کا کرشمہ اعتقاد نہیں۔ دنیا میں شاذ و نادر ہی ایسے
افراد پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اس نوعمری میں علم و دانش کے دریا بہائے ہیں۔
ان کے فتوے تحقیق کی جان ہیں، جن حضرات نے مطالعہ کیے ہیں ان کو معلوم ہے
کہ فقیہا نہ تحقیق میں فاضل بریلوی کا پایہ کتنا بلند ہے۔ جب دلائل و
براہین پیش کرنے پر آتے ہیں تو حوالے پر حوالے دیتے چلے جاتے ہیں۔ ان کا
حافظہ بجائے خود ایک عظیم کتب خانہ تھا جس کو دیکھ کر خود اہل عرب حیران
ہوئے جاتے تھے۔ یہ بات فاضل بریلوی کے ایک حریف مولوی عبد الحی لکھنوی صاحب
نزہۃ الخواطر نے لکھی ہے۔ مکہ معظمہ کے ایک فاضل نے آپ کے فتوے دیکھ کر
فرمایا تھا کہ ''اگر اس وقت حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیات
ہوتے تو یہ فتوے دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں اور وہ سب سے بے نیاز
ہوجاتے''
اسی طرح علامہ اقبال نے فرمایا تھا ''اگر مولوی احمد رضا خان کے مزاج میں
شدت نہ ہوتی تو وہ اپنے وقت کے امام ابوحنیفہ تھے'' فقاہت سے شدت مزاج کا
تعلق سمجھ میں نہیں آیا، نہ معلوم علامہ اقبال نے عدم شدت کے ساتھ فقاہت کو
کیوں معلق کردیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ کہنا یہی چاہتے تھے کہ فاضل بریلوی
ابوحنیفہ وقت تھے لیکن مخالفین کی رعایت سے عدم شدت کے ساتھ اس کو مشروط
کردیا۔
جاننا چاہیے کہ شدت وہ معیوب ہے جو محبوب کے خلاف ہو، اُس شدت کو کیسے
معیوب کہا جا سکتا ہے جو ناموسِ مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت میں
سینہ سپر ہو۔ فاضل بریلوی کی تحاریر کا سب سے بڑا امتیاز یہی ہے کہ وہ خدا
اور رسول علیہ السلام کی جناب سے باادب گزرتے ہیں، وہ بے ادب موحد نہیں
باادب موحد ہیں۔ وہ رمز محبت سے پوری طرح آشنا ہیں۔
ان کی تصانیف کی تعداد معمولی نہیں، ہزار سے متجاوز ہے لیکن کہیں بھی شانِ
رب العزت جل مجدہ، اور شانِ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں بے ادبی اور
گستاخی کا شائنہ تک نہیں، عمداً بے ادبی کر گزرنا تو بڑی بات ہے ان سے تو
سہواً بھی بے ادبی سرزد نہیں ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ قرآنِ کریم کی وہ آیات
جو سرکارِ دو عالم اسے متعلق ہیں اور جو خالق کائنات کی زبان سے تو ٹھیک
معلوم ہوتی ہیں لیکن جب بندہ اس کے ترجمہ اور ترجمانی کی طرف متوجہ ہوتا ہے
تو تنقیص شانِ رسالت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مرتکب نظر آتا ہے، ہاں
مولانا احمد رضا صاحب نے ایسے نازک مقامات کے ترجمے بھی دائرہ ادب میں رہ
کر کیے ہیں، پڑھ کر دل پھڑک جاتا ہے، فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ نے نگاہِ
محبت سے ایسے مقامات کا ترجمہ کیا ہے جس کا صحیح اندازہ اردو تراجم کے
تقابلی مطالعہ سے ہوسکتا ہے۔ یہ ترجمہ دین کی ایک عظیم خدمت ہے، یہاں
فرزانگی اور دیوانگی دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔
تاجدارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی جناب میں فاضل بریلوی کا ادب و
احترام دیکھنا ہو تو ان کا دیوان ''حدائق بخشش'' کا مطالعہ کیجئے، جس کے
حرف حرف کو عشق و محبت نے معطر کر رکھا ہے۔ فاضل بریلوی کی شاعری ایک عظیم
دینی خدمت ہے، انہوں نے تفنن طبع یا ضیافت نفس کے لیے شاعری نہیں کی بلکہ
ایک اعلیٰ مقصد کے تحت شاعری کی، اور اعلیٰ مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا
تھا کہ جوانانِ ملت کے سینوں میں محبت مصطفوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
چراغ روشن کیے جائیں۔ ان کا سلام
مصطفیٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
پاک وہند کے گوشے گوشے میں پڑھا اور سنا جاتا ہے، درد مند دل کی پکار تھی
کیوں نہ چہار دانگِ عالم میں گونجتی۔ فاضل بریلوی کا نعتیہ کلام آیت کریمہ
''و رفعنا لک ذکرک'' کی تفسیر ہے، خوب کہا ہے
و رفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر
بول بالا ہے ترا، ذکر ہے اونچا تیرا |