وزیراعظم پاکستان عمران خان جب بھی کہیں تقریر کرتے ہیں
توملک میں کرپشن کرنے والوں اور پھر انکی مہربانیوں کی بدولت ملک پر قرضوں
کے بوجھ کا ذکر ضرور کرتے ہیں ہم پاکستانیوں کو ان قرضہ لینے اور پھر اسے
ہڑپ کرنے والوں نے جتنا نقصان پہنچایا اتنا شائد ہمارے دشمنوں نے بھی نہیں
پہنچایا ہوگا ایک طرف قرضہ لیکر ملک کو مقروض کیا گیا تو دوسری طرف قرضہ
لیکر معاف کرواکر ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا گیا یہی وجہ ہے کہ آج تک ہم
اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہوسکے اور آج صورتحال یہ بن چکی ہے کہ ہم قرضہ ادا
کرنا تو دور کی بات اسکا سود اداکرنے کے قابل بھی نہیں رہے ملک میں قرضوں
کے حوالہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا دور بدترین رہا یہی وجہ ہے کہ
آج ہر پاسکتانی تقریبا پونے دو لاکھ کا مقروض ہوچکا ہے اور رہی سہی کسر ان
لوگوں نے پوری کردی جنہوں نے قومی دولت کو مال مفت سمجھ کر اپنے اپنے ہاتھ
صاف کیے اور ان میں کون کون سی شخصیات شامل تھیں جن میں سے چند ایک کے نام
میں لکھوں گا باقیوں کا بھی گاہے بگاہے ذکر کرتا رہونگا قرضہ خوروں کی
تفصیل سے پہلے ملکی قرضوں کی کچھ تفصیل پیش کرتا ہوں کہ ہم نے 1958ء میں
پہلی دفعہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اُس وقت 1ڈالر 3روپے کا تھا جو
1965کی پاک بھارت جنگ کے بعد پاکستان کی بیرونی امداد چند ماہ کے لیے بند
ہونے کی وجہ سے بڑھ کر 7روپے تک چلا گیا، لیکن معاشی حالات قدرے مضبوط ہی
تھے اور تاریخ گواہ ہے کہ 1972ء تک ہم قرضوں کی ادائیگی کرسکتے تھے۔ سود
کیساتھ اصل زر بھی واپس کرنے کی پوزیشن میں تھے۔ 1973 ء میں ذوالفقار علی
بھٹونے اپنے دور اقتدار میں محض 0.3ڈالر ہی بیرونی قرض لیا، پھر 1980 میں
جنرل ضیاء الحق کے دور میں 2 ارب ڈالر کا لیا گیا قرض اسی دور میں واپس کیا
گیا۔ اُن کے دور میں افغان جنگ کی وجہ سے ڈالر کی خاصی ریل پیل تھی اس لیے
انہیں مزید قرض لینے کی کچھ خاص ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ پھر1988 ء سے
جمہوریت کا ’’سنہری‘‘دور محترمہ بے نظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے سے شروع
ہوتا ہے، جب ڈالر 18روپے کا تھا۔ اور اسی سال دسمبر1988ء میں محترمہ بے
نظیر کی قیادت میں عالمی اداروں سے قرض کے دو پروگرام حاصل کیے گئے جو 1990
اور 1992 میں ختم ہوئے۔ ان پروگراموں کے ختم ہونے سے مراد یہ کہ قرض واپس
کرنے کی مدت ختم ہوئی مگر قرض واپس نہ کیا گیا، اسی طرح نومبر 1990ء میں
نواز شریف کا پہلا دور حکومت شروع ہوا، انہوں نے بھی 1993ء میں ایک ارب
ڈالر کے قریب بیرونی قرض لیا۔1994میں محترمہ کے دوسرے دور حکومت میں آئی
ایم ایف کا پھر در کھٹکھٹایاگیا، یہ وہ دور تھا جب قرض واپس کرنے کے بجائے
بین الاقوامی اداروں کے چنگل میں پاکستان کے پھنسنے کا آغاز ہوچکا تھا۔ اور
اصل رقم کے بجائے پاکستان محض اوپر کا سود ہی ادا کرنے پر اکتفا کرتا تھا۔
اسی ڈگر پردونوں مذکورہ جماعتوں نے آئی ایم ایف، ایشائی ترقیاتی بینک اور
عالمی بینک سے 1995 سے 1999 تک 3پروگرام لئے جووقت سے پہلے ہی فلاپ ہوگئے۔
اوراس طرح1999ء تک پاکستان پر بیرونی قرض کا کل حجم 39ارب ڈالر تک جا پہنچا
یعنی پاکستان سود کی ادائیگی کے قابل بھی نہیں تھا یا یوں کہہ لیں کہ
ڈیفالٹ اور دیوالیہ کے قریب تھا۔ رہی سہی کسر 1999 ء میں جنرل مشرف کے
مارشل لانے نکال دی جسکی وجہ سے دنیا بھر کے ممالک نے پاکستان پر اقتصادی
پابندیاں لگا دی گئی اور آئی ایم ایف نے بھی پاکستان کے لیے قرض دینے کے
دروازے بند کردیے۔ مشرف کی قسمت اچھی تھی کہ اس دوران 9/11جیسا بڑا واقعہ
ہوگیا اور امریکا کو ایک بار پھر پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی، پاکستان پر
پابندیوں کا خاتمہ ہوا۔1999ء اور2000ء کے اقتصادی جائزے کے مطابق جنرل مشرف
نے پیرس کلب کے ساتھ معاہدہ کیا، کنسورشیم کو قرضوں کی ری شیڈولنگ پر راضی
کرلیا۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کو
دیوالیہ ہونے سے بچا لیا۔ اس عرصے میں پاکستان کے سارے سود ادا کرکے اصل زر
میں سے بھی پانچ ارب ڈالر کی رقم واپس کی گئی۔ اور 2008ء میں پاکستان پر
قرضوں کا بوجھ کم ہوکر 34ارب ڈالر رہ گیا۔ اُس وقت ’’منصوبہ 2020ء‘‘بھی
بنایا گیا جس کے مطابق پاکستان 2020ء تک ملک کے قرضے چکا دے گا، 2000ء سے
2008ء تک پاکستانی کرنسی مستحکم رہی۔ 1999ء میں 52روپے کا ڈالر تھا۔ نو
سالوں میں 52اور 62روپے کے درمیان ہی رہا۔ نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد مارچ
2008کونیا دور جمہوریت شروع ہوا، لہٰذا نئی نویلی جمہوریت نے عالمی اداروں
کا دروازہ کھٹکھٹایا اور 7.2ارب ڈالر کا تاریخی پیکج وصول کی 2008ء سے
2013ء تک کے پیپلزپارٹی کے پانچ سالوں میں بیرونی قرضہ 34 ارب ڈالر سے 59
ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ پیپلز پارٹی نے پاکستان کو 25 ارب ڈالر کا مقروض کیا۔
اس کے بعد 2013ء میں ن لیگ کا ’’سنہرا‘‘ دور شروع ہوا جس میں بیرونی قرضہ
59 ارب ڈالر سے 93 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ صرف جولائی 2016ء سے جنوری 2017ء
کے سات ماہ میں 4.6ارب ڈالر کے نئے قرضے لیے گئے۔ اس2.3 ارب ڈالر میں سے
ایک ارب ڈالر سکوک بانڈ کی فروخت سے حاصل کیے گئے۔ اس بانڈ کو فروخت کرنے
کے لیے لاہور اسلام آباد موٹر وے کو ضمانت کے طور پر گروی رکھوایا گیا۔
جبکہ اگلے مرحلوں میں دیگر موٹر وے سمیت، ملک کے تمام ریڈیو اسٹیشن اور اہم
عمارتیں عالمی منڈی میں گروی رکھوائی گئیں تاکہ پاکستان قرض کی ’’نعمت‘‘ سے
استفادہ حاصل کرسکے۔ یوں ن لیگ نے پانچ سال کے دوران پاکستان کو 34 ارب
ڈالر کا مقروض کیا۔ ان دونوں جماعتوں نے ملکر صرف 10 سال کے دوران مجموعی
طور پر پاکستان کو 59 ارب ڈالر کا مقروض کیا۔ جب کہ اس سے پہلے کے 60 سالوں
میں پاکستان کل 34 ارب ڈالر کا مقروض تھااب اگر ’’اندرونی‘‘ یعنی مقامی
قرضوں کی بات کریں تو اس سے مراد مقامی بینکوں سے لیا جانے والا قرضہ ہے
حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کا مقامی قرض، بیرون قرض سے زیادہ ہے۔ مشرف
دور سے پہلے تک یہ قرضہ 3ہزار ارب روپے تھے جو آج بڑھ کر 20ہزار ارب روپے
تک پہنچ چکے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آکر تقریباً 6ہزارارب روپے کے
اندرونی قرضے لیے جبکہ ن لیگ نے پانچ سالوں میں 9ہزار ارب روپے کے قرضے لیے۔
اسی طرح مشرف دور میں ہر پاکستانی 40ہزار روپے کا مقروض تھا، پیپلزپارٹی کے
دور میں 80ہزار روپے کا، ن لیگ دور میں ڈیڑھ لاکھ روپے اور آج پونے دو لاکھ
روپے کا مقروض ہوچکا ہے۔ آپ انڈسٹری کی بات کر لیں، جس پاکستانی پراڈکٹ کا
دنیا بھر میں طوطی بولتا تھا، اُس پر پاکستان کے بجائے آج کل ’’میڈان چائنہ‘‘
یا ’’میڈ ان بنگلہ دیش‘‘ لکھا جانے لگا۔ پاکستان کی 70فیصد انڈسٹری آخری دس
سالوں میں یا تو بند ہوگئی یا بنگلہ دیش منتقل ہوگئی۔ بیرونی سرمایہ کاری
کا ستیا ناس کردیا گیا، 2007کی سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق بیرونی سرمایہ
کاری کا حجم 6ارب ڈالر تھا جو پی پی پی کے دور میں انتہا کی دہشت گرد
کارروائیوں اور غیر مستحکم حالات کے باعث محض 0.8ارب ڈالر رہ گئی۔ جبکہ
سابقہ ن لیگی دور میں مزید کم ہو کر0.2ارب ڈالر رہ گئی۔ (سی پیک بیرونی
سرمایہ کاری نہیں بلکہ بھاری بھرکم سود والا قرضہ ہے)۔ ان کے علاوہ قومی
اداروں میں سٹیل مل نے آخری دفعہ 2006ء میں منافع کمایا۔ 2008ء میں اس کا
کل خسارہ 16ارب روپے تھا۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سالہ دور میں سٹیل مل کا کل
خسارہ 118.7 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ جبکہ ن لیگ دور میں 200ارب روپے تک پہنچ
گیا۔ اس کے علاوہ ریلوے، پی آئی اے بدستور سینکڑوں ارب کا خسار ہ ہوااب آتے
ان قرضوں کی طرف جو ہمارے سیاستدانوں نے لیکر معاف کروالیے ان ہمارے ملک کے
بزرگ سیاستدان چوہدری شجاعت حسین صاحب اور چوہدری پرویز الہی صاحب بھی
سرفہرست ہیں جن کے ذمہ قرضوں کی تفصٰل کچھ یوں جس پر آجکل مٹی پاؤ والا کام
ہورہا ہے چوہدری برادران نے اپنے نام یعنی چودھری شجاعت حسین ولد چودھری
ظہور الہی شناختی کارڈ نمبر 270-45-175002 ،چوہدری پرویز الہی ولد چوہدری
منظور الہی شناختی کارڈ نمبر262086 270-45- ،چودھری گلزار محمد ولد چودھری
فضل محمدشناختی کارڈ نمبر266-44-110269 ، چودھری منظور الہی ولد چودھری
سردار خان شناختی کارڈ نمبر270-19-031261، چودھری وجاہت حسین ولد چودھری
ظہور الہی شناختی کارڈ نمبر 224-60-142208 ، چودھری صباحت الہی ولد چودھری
منظور الہی, چودھری شفقت حسین ولد چودھری ظہور الہی،مسز کوثر حسین،مسمات
خالدہ بیگم،مسز کیثرا لہی جنکارجسٹرڈ کمپنی ایڈریس E-20گلبرگ (سی) 3لاہور
تھا اور سال 2000تک پھالیہ شوگر مل پراین ڈی ایف سی کا کل قرضہ چودہ کروڑ
ننانوی لاکھ چھیالیس ہزار روپے بنتا تھا جو آج 18 سال بعد تین ارب ننانوے
کروڑ بیس لاکھ باسٹھ ہزار تین سو بتیس روپے بنتا ہے کیا یہ غریب پاکستانیوں
کے حق پر ڈاکہ نہیں ہے پاکستان کے سب سے بڑے قومی ترقیاتی مالیاتی ادارے
NDFC کو چودھریوں سے قرضہ واپس نہ لینے کے لیئے جنرل مشرف نے غیر قانونی
طریقے سے NDFC کو نیشنل بینک کے قبضے میں دے دیا تھا اس وقت پاکستان میں
NDFC کے کل نادہندگان کی تعداد 330 تھی اور NDFC کا ان نادہندگان کی طرف کل
قرضہRs.88275901000 یعنی اٹھاسی ارب ستائیس کروڑ انسٹھ لاکھ ایک ہزار روپیہ
تھااین ڈی ایف سی NDFC کے کم سے کم مارک اپ یعنی 16% ریٹ سے آج یہ کل رقم
Rs.1276691494000 یعنی بارہ کھرب چھہتر ارب 69 کروڑ 14 لاکھ 94 ہزار روپے
بنتی ہے کیا وزیراعظم اپنے ان سیاسی اتحادیوں سے بھی قرضہ واپس لے سکیں گے
آخر میں ایک فلم کا ڈائیلاگ یاد آرہا ے کہ ہمیں تو اپنوں نے لوٹا غیروں میں
کہاں دم تھا ۔
|