کئی ماہ سے صدارتی نظام کا راگ آلاپا جارہاہے درجنوں
سیاستدان اس پر طبع آزمائی کر چکے ہیں لیکن سابقہ صدر زرداری کا انداز بڑا
تلخ ہے لگتاہے سینے میں کوئی جوالا مکھی ہے جو پھٹنے کو بے قرار ہے جب سے
ان کے خلاف منی لانڈرنگ اور بے نامی اکاؤنٹس بارے تحقیقات شروع ہوئی ہیں وہ
آپے باہر ہوگئے ہیں اور حکومت ہے کو صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
کے مصداق حریفوں کے نت نئے بیانات کا مزا لے رہی ہیں منہ سے کچھ نہیں بول
رہی اس سے اپوزیشن جماعتوں کو تپ چڑھی ہوئی ہے بلاول بھٹو زرداری نے خبردار
کیا کہ اگر ون یونٹ اور صدارتی نظام لانے کی کوشش کی گئی تو ملک ٹوٹ جائے
گا۔ آئین میں 18 ویں ترمیم اور پارلیمانی نظام کو کسی چھیڑچھاڑ کرنے کی
اجازت نہیں دیں گے صدارتی نظام ملک اور عوام کے مفاد میں نہیں ہے، عوام کو
پاکستان کا پارلیمانی نظام پسند ہے اور جہاں بھی صدارتی نظام لگایا گیا
وہاں آمر نے ٹیک اورر کیا۔صدر عارف علوی نے جواباً کہا ہے کہ قوم کو غیر
ضروری بحث سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے 18ویں ترمیم کو ختم کیا
جا رہا ہے کبھی صدارتی نظام کی بات کی جاتی ہے۔ ایسا کچھ بھی زیر غور نہیں
ہے سب قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش ہے یہ بھی کہا جارہاہے کہ کہا کہ اگر ملک
میں صدارتی نظام آیا تو خان صاحب ملک کے وزیراعظم نہیں رہیں گے جب تک آئین
ہے تب تک ملک میں صدارتی نظام نہیں آسکتا آئین کو معطل کرنے کے بعد ہی
صدارتی نظام آسکتا ہے چند سال قبل سپریم کورٹ نے 18ویں اور 21ویں ترمیم کیس
کے فیصلے، جسے جسٹس شیخ عظمت سعید نے تحریر کیا تھا، میں قرار دیا تھا کہ
پارلیمانی نظامِ حکومت آئین کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے اور کہا تھا
کہ یہ خصوصیات پارلیمنٹ تبدیل کر سکتی ہے اور نہ ہی ختم کر سکتی ہے۔ ماہرین
قانون کہتے ہیں کہ آئین میں آئین کو معطل کرنے کی سزا، سزائے موت ہے جو کسی
مارشل لاء لگانے والے کو آج تک نہیں دی گئی ۔ایک خبر یہ بھی ہے کہ ملک میں
اسلامی صدارتی نظام کے نفاد کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا گیا۔ لاہور
کے ایک شہری سید الیاس نے درخواست میں یہ دعویٰ کیا کہ پارلیمانی نظام مکمل
ناکارہ ہو چکا ہے،سیاستدان اور بیوروکریٹس مختلف نوعیت کے الزامات ملوث ہیں،
پار لیما نی نظام کی کوئی گنجائش نہیں ہے موجودہ نظام اسلام اور شر یعت سے
مطابقت نہیں رکھتا،پاکستان میں اسلامی صد ار تی نظام ملک کی اہم ترین ضرورت
ہے لہٰذا اسلامی صدارتی نظام کو رائج کرنے کیلئے ریفرنڈم کرانے کا حکم دیا
جائے۔ ایک سیاستدان نے اپنے رد ِ عمل میں کہاہے کہ صدارتی نظام آمریت کی
علامت ہے صدارتی نظام آئین ختم کرنے کے مترادف ہوگی جو لوگ صدارتی نظام کے
حق میں دلائل دے رہے ہیں وہ قومی تاریخ سے بے بہرہ ہیں۔ ہمارے مسائل کا حل
صدارتی یا پارلیمانی نظام نہیں اسلامی نظام ہے غیرمنتخب لوگوں کو وزارتیں
دینے سے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں کہ کہیں ہم صدارتی نظام کی جانب تو
نہیں جا رہے؟ دفاعی بجٹ پارلیمان میں نہیں آتا، حفیظ شیخ کے ساتھ دفاعی بجٹ
کیسے شیئر کر رہے ہیں؟، حلف نہ لینے والے شخص کو دفاعی بجٹ سے متعلق تمام
معلومات ہوں گی، پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ہم محفوظ ہاتھوں میں ہیں،
پارلیمانی نظام کے علاوہ کسی نظام کو ماننے کو تیار نہیں 17 وزارتیں ان کے
پاس ہیں جو اس ایوان میں آہی نہیں سکتے، جس سے بات واضح ہوگئی کہ جو سمت
ملک کو دی جا رہی ہے وہ ایوب خان کے ماڈل کی جانب لے جا رہے ہیں جبکہ
پاکستان کا آئین پارلیمانی نظام کے علاوہ کسی نظام کو ماننے کو تیار نہیں
اس وقت صورت ِ حال بڑی عجیب ہے کہنے کو تو یہ منتخب حکومت ہے لیکن وزیر
خزانہ غیر منتخب ہیں،وزیر صحت غیر منتخب ہیں،وزیر تجارت غیر منتخب ہیں
وزارت سمندر پار پاکستانیز اطلاعات، پاور ،صحت، تجارت سب کے سب غیر منتخب
مشیر تعینات ہیں۔ کابینہ میں پانچ مشیر جبکہ سترہ اسپیشل اسٹنٹ غیر منتخب
ہیں۔ اسپیشل اسسٹنٹ کو کابینہ میں کیوں بٹھایا جا رہا ہے ،اسپیشل اسسٹنٹ نے
کون سے حلف لیا ہے، پھر اس کو کابینہ میں بٹھانا سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی
ہے اب سوال یہ پیداہوتاہے جو شخص منتخب نہیں حلف نہیں لیا وہ کابینہ میں جا
سکتا ہے وزراء کے علاوہ خصوصی دعوت کے بغیر یہ لوگ کابینہ میں نہیں جا سکتے۔
انہوں نے کہاکہ آئین کا آرٹیکل 57 یہ کہتا ہے کہ غیر منتخب شخص دونوں
ایوانوں میں آسکتا ،سوالات کے جوابات دے سکتا ہے،لیکن ووٹ نہیں دے سکتا۔
حفیظ شیخ کابینہ کا ممبر ہی نہیں ،اسے بتایا جائیگا ہم نے کتنے جہاز خرید
لیے ،22ڈویڑنز کی سمری پر غیر منتخب لوگوں کی سفارشات ہونگی ان قدامات سے
پارلیمانی نظام مفلوج ہو رہا ہے۔ا س لئے کہا جا سکتاہے کہ نام
نہادٹیکنوکریٹ سیٹ اپ لایا جا رہا ہے۔ ا سی لئے 17 لوگ ایسے ہیں جو آئین
حصہ نہیں لیکن وزارتوں کو چلا رہے ہیں۔ یہی 17 لوگ قائمہ کمیٹیوں میں بیٹھ
رہے ہیں اگر پارلیمان ایک بل پاس کر دے تو صدر اس کو ویٹو کر سکتا ہے۔ کیا
ملک صدارتی نظام کی طرف جا رہا ہے پاکستانی تاریخ کا پہلا غیرمتنازعہ آئین
کہتاہے کوئی ایسا اقدام قبول نہیں جو پارلیمانی نظام کے خلاف ہو پاکستان کی
پون صدی کی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ ملک میں37سال صدارتی نظام رہا باقی مدت
پارلیمانی نظام کی حکومت رہی تلخ حقائق یہ ہیں کہ ایک بھی وزیر ِ اعظم نے
اپنے اقتدارکی مدت پوری نہیں کی سب کو چلتا کردیا گیا یہ بھی حقیقت ہے کہ
صدر ایوب ،صدر یحیٰ خان، صدر ضیاء الحق اور صدر مشرف تمام تر اختیارات کے
باوجو د مسائل حل نہ کرسکے اس تناظرمیں کچھ قوتیں صدارتی نظام لانا چاہتی
ہیں کیونکہ صدر بااختیار ہوتاہے اور پالیمانی نظام میں ارکان ِ اسمبلی
حکومت کو بلیک میل کرتے رہتے ہیں شاید مقتدر قوتیں اس بلیک میلنگ سے تنگ
آگئی ہیں اسی لئے پالیمانی نظام کو ختم کرنے کے درپے ہیں ۔کچھ ماہرین کی
رائے ہے صدارتی نظام کا کیاہے اسے ایک آرڈی ننس سے بھی نافذکیا جا سکتاہے
لیکن ا س بار بھی یہ تجربہ شاید کامیا ب نہ ہو سکے۔ |