شہنشاہ کے روبرو اسے'' کانا''کہنابیشک اپنی موت
کودعوت دینا ہے مگر میں یہ ایک بارنہیں بلکہ بار بارکروں گا،ایک بھانڈ نے
اپنے ساتھی بھانڈ کے ساتھ انعامی رقم طے کرتے ہوئے جس وقت یہ دعویٰ کیااس
وقت اس کی خوداعتمادی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔ وہ بھانڈ جس نے چیلنج کیا
تھا مقررہ وقت پرشہنشاہ کے دربار میں پہنچا تو وزیروں ،مشیروں اورمختلف
عہدیداروں سمیت دوسرابھانڈ بھی دربار میں شریک تھا۔بھانڈ نے شہنشاہ کو
مخصوص انداز سے جھک کر سلام عرض کیااورپچھلے دنوں کسی ضروری کام کے سلسلہ
میں ہمسایہ ریاست جانے اوروہاں مقامی افراد کے ساتھ تلخی کاواقعہ سنانے کی
اجازت طلب کی جوشہنشاہ نے مرہمت فرمادی ۔بھانڈنے ڈرامائی اندازمیں بتایا کہ
جب میں نے ہمسایہ ریاست کے افرادکواپنااوراپنے ملک کاتعارف کروایا توانہوں
نے باری باری ہمارے شہنشاہ کو''کانا '' کہنا شروع کردیا ۔جس جس نے ہمارے
شہنشاہ کوکانا کہا مجھے ان سبھی کے نام یاد ہیں۔پہلے دینوحجام ، پھرجیدے
ماچھی نے کہا تمہاراشہنشاہ کانا ہے ۔بھانڈ نے باری باری ان سب کے نام بتائے
جس جس نے شہنشاہ کو''کانا'' کہا تھا ۔واقعہ سناتے ہوئے بھانڈنے مزید
بتایا،جس پر میں نے کہا ''ہماراشہنشاہ ''کانا نہیں ،انہیں ایک آنکھ سے بھی
سب کچھ نظرآتا ہے۔خبرداراگرتم نے دوبارہ ہمارے محبوب شہنشاہ کوکانا
کہاتومیں تمہاری زبان کاٹ دوں گا ،ہمارے شہنشاہ کوکاناکہنا ہماری ریاست کی
توہین ہے۔اگرتم نے ہمارے شہنشاہ کوکانا کہنا بند نہ کیا توہم تمہارے بادشاہ
کانام بھی بگاڑدیں گے۔بھانڈدربار میں جذباتی اندازمیں قصہ سناتا اورباتوں
باتوں میں شہنشاہ کے روبرواسے بار بارکانا کہتا رہا۔شہنشاہ نے شاہ سے زیادہ
شاہ کے اس وفادار بھانڈ سے خوش ہوکر اسے انعام واکرام سے نوازاجبکہ دربار
سے رخصتی کے بعد اس نے اپنے ساتھی بھانڈ سے انعامی رقم بھی وصول کرلی ۔میں
وثوق سے کہتاہوں وزیراعظم عمران خان نے دانستہ بلاول صاحبہ نہیں کہا اورنہ
اس وقت انہیں احساس ہوا تاہم بلاول زرداری سے معذرت کر کے کپتان کاقدمزید
بڑا ہوگا۔ عمران خان نے جب سے بلاول صاحبہ کہا اس کے بعدسے شاہ سے زیادہ
شاہ کے وفادار وں نے مزے لے لے کربلاول صاحبہ کہناشروع کردیا اوربلاول
زرداری سے خوب دادوصول کررہے ہیں ۔اس وقعہ کے بعدجومختلف ویڈیوکلپ منظرعام
پرآئی ہیں ان میں آصف زرداری،خورشیدشاہ سمیت پیپلزپارٹی کے اہم عمائدین
بلاول زرداری کیلئے مونث کاصیغہ استعمال کررہے ہیں بلکہ ایک ویڈیوکلپ میں
بلاول زرداری نے خودبھی اپنے لئے مونث کاصیغہ استعمال کیا۔مسلم لیگ (ن) کے
راناثناء اﷲ خاں نے بلاول زرداری کیلئے جوکچھ کہاوہ توسپردقرطاس بھی نہیں
کیا جاسکتا۔میں سمجھتاہوں اس بحث کافوری اختتام پیپلزپارٹی کے اپنے فائدے
میں ہے۔باب العلم حضرت علی رضی اﷲ عنہ کاقول ہے ''الفاظ انسان کے غلام ہوتے
ہیں مگر زبان سے اداہونے کے بعدانسان اپنے الفاظ کاغلام بن جاتا ہے''۔جس
طرح بدعنوان قابل گرفت ہیں اس طرح بدزبان طبقہ بھی قابل نفرت ہے۔عوام ووٹ
سے نمائندوں جبکہ نمائندے ایوانوں میں بات کرتے وقت الفاظ کے ''چناؤ''میں
اختیاط نہیں کرتے ۔
ہمارے کچھ سیاستدان مسلسل کئی دہائیوں تک حکومت کیلئے سیاست کرتے ہیں مگر
حکومت میں آنے کے باوجود خود کوسیاست سے نہیں روکتے ۔ہرکسی کواورہربات
کاجواب دیاجائے یہ ناگزیر نہیں ہوتا۔ عمران خان کووزیراعظم منتخب ہوئے
نوماہ ہوگئے مگر وہ ابھی تک سیاست میں الجھے ہوئے ہیں۔وہ گڈگورننس کیلئے
سیاست نہیں حکومت کر یں ،سیاست کیلئے زندگی پڑی ہے ۔عمران خان پرتنقید
ہونافطری امرہے مگر وہ خودجواب دیں یہ ضروری تونہیں،کپتان کے ٹیم ممبرز کس
مرض کی دوا ہیں ۔عمران خان نے حالیہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ،''وہ
تنہا متحدہ اپوزیشن کامقابلہ کریں گے''،میں سمجھتاہوں وہ انتخابی مہم سے اب
تک تنہا مقابلہ کررہے ہیں۔جہانگیرترین ،شیخ رشید ،میاں اسلم اقبال سمیت پی
ٹی آئی کے دوچار عمائدین کے سواکوئی اپوزیشن کے کسی حملے کادفاع اورجوابی
وارنہیں کررہا۔سردارعثمان بزدار کے ہوتے ہوئے تخت لاہور ایک طرح سے خالی ہے
۔پنجاب میں بلے بازوں کی بہترین بلے بازی کے بغیر وفاق میں کپتان کی بلے
بلے نہیں ہوسکتی ۔ سردارعثمان بزدار کے پلے کچھ نہیں ،موصوف اوپننگ بلے باز
کی حیثیت سے کریز پر آئے تھے مگر وہ بلے بازی نہیں کرسکتے۔عثمان بزدارکی
حالیہ آنیاں جانیاں اوران کے احکامات پرسرکاری آفیسرز کی'' تبدیلیاں''
شعبدہ بازی کے سواکچھ نہیں۔کامیابی کیلئے وکٹ روکنا کافی نہیں زیادہ رنز
بنانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم عمران خان کوسودوزیاں سے بے نیازہوکر'' مقبول''
نہیں '' معقول'' فیصلے کر ناہوں گے،سردارعثمان بزدار کی تبدیلی بیشک
دشوارمگر گڈگورننس کیلئے ناگزیر ہے۔عمران خان اپنے معتمد جہانگیر خان
ترین،سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ،ہمایوں اخترخان ،میاں اسلم اقبال
اورچوہدری پرویزالٰہی کو پنجاب میں'' تبدیلی'' کامشن دیں انہیں مایوسی نہیں
ہوگی۔معیشت کی بحالی کے بغیر خوشحالی کاخواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ ایٹمی
پاکستان کاباربارآئی ایم ایف کی دہلیز پرجانااوردست طلب درازکرناقومی حمیت
پرڈرون حملے کے مترادف ہے۔مستعفی ہونیوالے وزیرمالیات اسدعمرکاحلقہ انتخاب
ہے اوروہ قوم کوجوابدہ تھے لیکن ان کے بعدآنیوالے مشیرمالیات(زرداری کی
باقیات) ریاست پاکستان کی بجائے آئی ایم ایف کے تنخواہ داراوروفادارہیں
لہٰذاء ان کے ہاتھوں پاکستان اورپاکستانیوں کوریلیف ملناخارج ازامکان
ہے۔بہترہوگاکپتان کسی باصلاحیت اورنیک نیت پارلیمنٹرین یاپاکستانیت کے
علمبردارماہرمعیشت کووزیرمالیات کاقلمدان دیں۔ پاکستان کو خوددداری
پرسمجھوتہ کئے بغیر معاشی خودانحصاری کاسفرطے کرناہوگا۔پاکستان کومقامی
طورپرزیادہ سے زیادہ وسائل پیداکرنے کیلئے مختلف تجربات کرناہوں گے۔ہم ایک
زرعی ریاست ہیں ،ہم گندم سمیت وہ اجناس پیداکریں جوبیرون ملک ہاتھوں ہاتھ
فروخت ہوں ۔''تبدیلی'' کاسن کر بیرونی سرمایہ کار پاکستان آرہے ہیں مگر
انہیں وزیراعظم تودرکنار کسی سنجیدہ وفاقی وزیر تک رسائی نہیں دی جاتی ،وہ
کچھ دن خوار ہونے کے بعد ناکام ونامراداپنے اپنے ملک واپس چلے جاتے ہیں۔
وزیراعظم انوسٹمنٹ کی نیت سے پاکستان میں آنیوالے بیرونی سرمایہ کاروں
کوبھی اپنے آفس میں رسائی دیں یااس کیلئے کسی بااختیار وفاقی وزیرکی ڈیوٹی
لگادیں جو وزیراعظم اورسنجیدہ سرمایہ کاروں کے درمیان پل یعنی سہولت کار
کاکرداراداکرے۔ پچھلے دنوں پاکستان کے ممتازانڈسٹریلسٹ اورمحسن پاکستان
ڈاکٹرعبدالقدیرخان کے معتمد ساتھی میاں محمدسعید کھوکھر نے مادروطن کی محبت
میں دوست ملک چین سے سرمایہ کاروں کے ایک اعلیٰ سطحی وفدکواسلام آباد میں
مدعوکیامگروزیراعظم کوباربارپیغام دینے کے باوجود ہنوز ان کی ملاقات نہیں
ہوئی ،کیاہماری مقروض ریاست اس مجرمانہ غفلت کی متحمل ہوسکتی ہے ۔
عمران خان غلطیاں کررہے ہیں کیونکہ جوکام کرے گایقینااس سے غلطیاں بھی ہوں
گی تاہم عمران خان غلطی دہرانے والے نہیں بلکہ اپنی خطاؤں سے سیکھنے والے
ہیں۔قوم کواپنے منتخب وزیراعظم کے'' سیاسی بیانات'' نہیں آئینی وقانونی
''اقدامات'' میں دلچسپی ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں کی زبانیں چلتی ہیں جبکہ
حکمرانوں کاکام بولتا ہے ۔اپوزیشن کیمپ سے عمران خان پرسیاسی اورذاتی حملے
ہورہے ہیں مگروہ اشتعال میں آئے بغیر اپنے منشور پرفوکس کریں۔انہیں ''ڈانڈا
''نہیں''ایجنڈا''کامیابی وکامرانی سے ہمکنارکرے گا ۔عمران خان شروع سے
جذباتی ہیں مگر یہ جوش نہیں ہوش کاوقت ہے ،پاکستان میں قومی سیاست کاماضی
دیکھاجائے توہمارے فوجی اورمنتخب حکمران مصلحت پسندی کے تحت سمجھوتہ کرتے
رہے ہیں لیکن عمران خان نے ایک نڈرلیڈر کی طرح ''طاقتور'' وفاقی وزراء سے
قلمدان واپس لیا ،انہیں وفاقی کابینہ میں'' تبدیلی'' کے سیاسی اثرات سے
ڈرایا گیامگرانہوں نے خطرات کی پرواہ نہیں کی اوراپنے ارادے کوپایہ تکمیل
تک پہنچادیا۔انہوں نے تخت لاہور میں جس کسی کو''تبدیل''یاسبکدوش کرنے
کافیصلہ کیا ہے وہ مناسب وقت پرکرگزریں گے ،وہ اپنے کسی فیصلے پرپچھتاتے
ہیں اورنہ انہیں پیچھے مڑکردیکھنے کی عادت ہے۔پی ٹی آئی کے کئی مرکزی
رہنماؤں کی سیاسی'' سروری'' ،''سرداری''اور''برتری ''کے پیچھے کپتان کسی
مہربان کی طرح کھڑے ہیں مگر ا س کاکیا،کیاجائے جوسیاست میں''بردباری'' کی
بجائے'' برادری ''کا علمبرداربن جائے ۔ ہماری ریاست برادری ازم کی سیاست
کابوجھ نہیں اٹھاسکتی۔عمران خان یادرکھیں کسی بحران یاامتحان میں'' بزدار
''نہیں'' بردبار ''کام آتے ہیں ۔عمران خان کے طرزحکومت اورطرزسیاست میں
برادری ازم کادوردورتک کوئی نام ونشان نہیں ہے ۔عمران خان کے چند سیاسی
طورپرقدآور نیازی کزن ان سے ناراض بلکہ ان کی سیاست کے سخت نقاد ہیں،تاہم
انہیں منانے کی ضرورت ہے۔عمران خان اپنے اقتدار کے ابتدائی نوماہ میں کچھ
غلطیوں کے باوجود عالمی شخصیت بن کرابھرے میں اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں
کرسکتا ،تاہم ان کی طرف سے بار بار اپوزیشن رہنماؤں بالخصوص بلاول زرداری
پربراہ راست تنقید ناقابل فہم ہے۔ اپوزیشن رہنماؤں پرتنقید کیلئے وزیراعظم
کی توانائیوں کاضیاع میرے نزدیک قومی سانحہ ہے،یہ رویہ اورروش وزیراعظم کے
منصب کے شایان شان نہیں ۔انہیں جس کسی نے سیاسی اجتماعات اوراپوزیشن
رہنماؤں پرجوابی حملے کرنے کامشورہ دیاوہ ان کادوست نہیں بدترین دشمن ہے۔
قوم نے ووٹ سے عمران خان کوحکومت کامینڈیٹ دیا لہٰذاء وہ حکومت کریں ،سیاست
کیلئے تو زندگی پڑی ہے۔وہ سیاست کے معاملات کو جہانگیرخان ترین
،سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ،ہمایوں اخترخان،میاں اسلم اقبال،سیّدصمصام
بخاری سمیت اپنے معتمد پارٹی اکابرین پرچھوڑدیں۔کپتان کا پی ٹی آئی کے بزرگ
سیاستدان اور زیرک پارلیمنٹرین سردارذوالفقارعلی خان کھوسہ کی سیاسی
بصیرت،فہم وفراست اورصلاحیتوں سے مستفیدنہ ہوناایک بڑاسوالیہ نشان ہیں ۔
وزیراعظم عمران خان فوری طورپرمیاں محمدسعیدکھوکھر اوران کی دعوت پرپاکستان
آنیوالے چینی وفدسے ملاقات کریں ،پاکستان کے محب اور ماہر مائنزمیاں
محمدسعیدکھوکھر کوعلم ہے پنجاب کے دریاؤں سے سونا کس طرح نکلے گا۔ حکمران
یادرکھیں ہمارے ملک میں تبدیلی یاخوشحالی'' انڈے یاڈنڈے'' نہیں ''ایجنڈے''
سے آئے گی - |