جہاں قومی لٹیرے اور بدمعاش دولت کے زور پر باعزت ،
شرفا اور قابل احترام مانے جا ئیں اورجہاں جھوٹ سچ اور سچ جھوٹ لگنے لگے؛
تو وہاں کرپٹ حکمران اور سیاستدان ہی امر بیل کی طرح پلتے پھولتے ہیں۔ عوام
کے دامن بے آرامی اور بے سکونی سے لبا لب ہوتے ہیں۔ عوام کے چہروں سے
خوشیاں روٹھ کر کوسوں دور چلی جاتی ہیں۔ غریبوں کی دہلیز پر بھوک وافلاس کے
ڈیرے ہوتے ہیں۔ اِس حال میں پھر بھی عوام اپنے کرپٹ حکمرانوں اور
سیاستدانوں کو اپنا مسیحا اور حاجت وار سمجھ کر اِنہیں سروں پر بیٹھائے
پھریں۔ ایسے لوگوں کو نااُمیدی اورمایوسی کی اندھیری کھائی منہ کھولے عبرت
ناک انجام سے دوچار کرنے والے اپنے دامن میں لینے کو بیقرار رہتی
ہے۔پھرعوام کے ہاتھوں میں اندھیرا ہی آتا ہے اور ماتھے پر محرومیوں کے سیاہ
دھبے مقدر بن جاتے ہیں۔
ٓ آج پاکستانی قوم کو اپنے لٹیرے حکمرانوں اور سیاستدانوں سے جھٹکار پانے
کے لئے لازمی ہے کہ اِسے اپنا فیصلہ خود کرناہوگا؛ اور اپنا مقدر اپنے
ہاتھوں بنانا ہوگا۔ ورنہ قومی لٹیرے اِسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے
رہیں گے۔ پھر بھی اِن کی نظر میں عوام کی حیثیت کچرا کنڈی اور گندی نالی کے
رینگتے کیڑے مکوڑوں جتنی ہی رہے گی۔
پچھلے دِنوں ایک مرتبہ پھر کسی ڈھیل یا ڈیل کے نتیجے میں دنیا دکھاوئے کے
لئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نوازشریف ضمانت کی مدت پوری ہونے کے بعد
رات گئے کارکنوں کے جلوس ڈھول کی تھاپ اور رقص و بھنگڑوں کے سائے میں کوٹ
لکھپت جیل پہنچ گئے۔
اَب اِس پس منظر میں ہمیں یہ مان لینا پڑے گا کہ ن لیگ والوں کو خبروں میں
زندہ رہنے کا ڈھنگ خوب آتا ہے۔ بس اِنہیں کوئی بہانہ مل جائے، پھر دیکھیں ،
ن لیگ والے خبروں میں کیسے سرگرم رہتے ہیں۔ اِسی کو ہی دیکھ لیں کہ جب ایک
لمبے عرصے خودساختہ جلا وطنی گزارنے کے بعد گرفتاری کے لئے نوازشریف کی وطن
واپسی ہوئی، تو تب ن لیگ کے قائد کو بڑی توقعات تھیں کہ اِن کے استقبال کے
لئے پارٹی کارکنان کا سمندر آمڈ آئے گا، اور کارکنا ن اِنہیں خو ش آمدید
کہنے کے لئے رن وے تک پہنچ چکے ہوں گے، ہر طرف ن لیگ کے کارکنان کے سر ہی
سر نظر آرہے ہوں گے۔ مگر ایسا نہیں ہوا ، سب ن لیگ کے قائد کی توقعا ت کے
برخلاف ہوا ۔جس سے اِنہیں سخت مایوسی ہوئی۔ کیوں کہ زمین اور فلک والوں نے
دیکھا کہ نوازشریف کی توقعات کے برخلاف ن لیگ کے کارکن اِنہیں ائیر پورٹ پر
خوش آمدید کہنے نہیں پہنچ سکے۔ اُس وقت بھی ن لیگ والوں نے اِس معاملے کو
اُچھال کر خود کو خبروں میں زندہ کئے رکھا ؛حالانکہ ساراقصور مُلک میں
موجود ن لیگ کی قیادت اور اِن کے کارکنان کا تھا کہ یہ خود سے اپنے قائد
نوازشریف کو ائیر پورٹ پر لینے کے لئے نہیں پہنچ سکے تھے ۔مگر اپنی نااہلی
کا ملبہ حکومت کے سر پر ڈال دیااور اپنی نالائقی کا رونا اِس طرح روتے رہے
کہ جیسے اِنہیں ائیر پورٹ جانے سے حکومت نے روک رکھا تھا سب جانتے ہیں۔ کہ
ن لیگ والے کسی انجانے خوف کی وجہ سے خود نہیں چاہتے تھے کہ یہ اپنے قائد
نوازشریف کا استقبال ائیر پورٹ پر جمع ہو کر کریں۔یہ بات بہت لمبی ہوجائے
گی؛ اِسے پھر کسی اور موقع کے لئے رکھ چھوڑتے ہیں۔
بہرکیف، گزشتہ دِنوں کوٹ لکھپت جیل نوازشریف کیسے پہنچے یہ منظر بھی چشم
فلک نے دیکھا کہ اِس میں ن لیگ والوں کی عجیب و غریب اور انوکھی منطق رہی
ہے۔گویاکہ اِس مرتبہ پارٹی کارکنان نے پچھلی ساری کسر پو ری کرلی ۔جب پہلے
روزے کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد وسابق وزیراعظم نواز شریف کو
العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت کی سزاپر سپریم کوٹ کی جانب سے
دی گئی چھ ہفتوں کی ضمانت کی مدت ختم ہونے پراِن کے گھر جاتی امرا سے
دوبارہ قیدی بنانے کے لئے ن لیگ کے کارکنان تزک واحتشام سے اپنے قائد کو
کوٹ لکھپت جیل چھوڑ کر گئے ۔
حالانکہ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا ہے جیسا کہ ن لیگ والوں
نے اپنے قائد کے ساتھ کیا ہے۔ جبکہ ہر زمانے کی ہر تہذیب میں یہ تو ہوتا
آیا ہے کہ کارکنان اپنے لیڈرکو جیل سے نکالنے(رہائی دِلانے) کے لئے تو جیل
آتے ہیں۔ مگر کبھی ایسا نہیں ہوا ہے کہ کسی پارٹی کے مرکزی عہدیداراور
کارکنان ضمانت کی مدت ختم ہونے پر اپنے قائد کو ناچ گا کر خود جیل کی
سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارنے کو چھوڑ کر جا ئیں۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ
ایسا اپنی نوعیت کا انوکھا واقعہ پاکستان میں پیش آیا جب پاکستان کے تین
مرتبہ وزیراعظم رہنے والے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز
شریف اپنی ضمانت کی مدت ختم کرچکے تو اِن کے ضرورت سے زیادہ عقلمند کاکنان
خو شی خوشی اِنہیں خود کوٹ لکھپت جیل چھوڑ کر گئے ۔
راقم الحرف کے نزدیک اپنے قائد سے اِس ستم ظریفی پر ن لیگ والوں کا چیخ چیخ
کر دنیا کو اِس بات کا یقین دلانے کا عمل ضرورت سے کہیں زیادہ قابل افسوس
ناک ہے کہ نوازشریف کو جیل تک پہنچا نے کے لئے پچاس ہزار سے زائد اور ایک
لاکھ سے زراکم کارکنان کا ہجوم اپنے قائد کو اپنے کاندھوں پر اُٹھا کر کوٹ
لکھپت جیل چھوڑکرکیسے ؟اور کیوں گیا؟اِن سب کے اِس عمل کے پیچھے کیا مقصد
کارفرماہے؟ نوازشریف کو جیل تک چھوڑنے میں نہ صرف کارکنان کی بڑی تعداد
موجود تھی بلکہ ن لیگ والے اِس پر بھی بضد ہیں کہ سابق وزیراعظم جاتی امرا
سے جیل روانہ ہوئے تو والدہ سے دُعاوں کے ساتھ رخصت ہوئے، اِن کی بیٹی مریم
نواز بھی ہمراہ تھیں، قائدکے بھتیجے حمزہ شہباز خود گاڑی ڈرائیو کررہے تھے
جہاں جہاں سے گاڑی کا گزر ہوتا جگہہ جگہہ استقبال کیا گیااور کوٹ لکھپت جیل
کی جانب رواں دواں نوازشریف کے قافلے پر منوں ٹنوں پھول کی پتیاں نچھاور
کئے جانے کا عمل بھی جاری رہا۔‘‘ آج جِسے ن لیگ والے اپنا بڑاتاریخی
کارنامہ گردان رہے ہیں دراصل اِن کا یہ کارنامہ یا عمل اپنے قائد سے بیزاری
کا منہ بولتا ثبو ت ہے ۔بس سمجھ سمجھ کی بات ہے کوئی نہ سمجھے تو اُس کی
سمجھ پر افسوس کے سِواکیا کہا جاسکتاہے۔جس طرح کرنسی کی گڈی ایک جیب سے
دوسری جیب میں جاتے ہی روکے ہوئے کام ہوجاتے ہیں۔ اور سونے کی چابی سے
صدیوں سے بند تالے کھولے جاسکتے ہیں۔ یکدم اِسی طرح ن لیگ اور پی پی پی کے
قائدین لوٹی ہوئی قومی دولت واپس کردیں۔ تو یہ سب خود کو جیل کی سلاخوں کے
پیچھے جانے اور کال کوٹھری سے اپنی جا نیں چھڑاسکتے ہیں۔ ورنہ اَب یہ چاہئے
کچھ بھی نوٹنکی اور ریلی یا ریلیاں لے کر جیل جانے کی جتنی بھی ڈرامہ بازی
کرلیں۔ لوٹی ہوئی قومی دولت وطن واپس آنے تک ساری پاکستانی قوم اِنہیں قومی
مجرم ہی جانے گی۔(ختم شُد) |