بلٹ پروف کا کیا پروف؟

اقتدار ِآباد، اسلام آباد میں مولانا اعظم طارق، بے نظیر بھٹو،سلمان تاثیر کے بعد شہباز بھٹی کو بھی موت کی نیند سلا دیا گیا اور اب کے یہ شور مچ رہا ہے کہ اگر وفاقی وزیر برائے اقلیتی امور شہباز بھٹی کو ’بلٹ پروف‘ گاڑی مل جاتی تو شاید وہ نہ مارے جاتے ،یہ بھی کہا گیا کہ انہیں سیکورٹی گارڈ فراہم کئے گئے تھے لیکن آنجہانی، سلمان تاثیر جیسے واقعات سے اتنا خوفزدہ تھے کہ انہوں نے سرکاری تو کیا نجی سیکورٹی گارڈز کے حصار میں بھی سفر کرنے سے گریز کیا کہ کل کلاں یہ سیکورٹی گارڈز بھی ان کی زندگی نہ لے لیں۔ والدہ کے گھر گئے تو پولیس کا حفاظتی دستہ نہ تھا اور گاڑی پر سے جھنڈا بھی اتارا ہوا تھا کہ کہیں دہشت گرد اور وطن دشمن کو خبر نہ ہو جائے لیکن جنہوں نے قتل کرنا ہوتا ہے وہ بھی انتہائی چالاک اور مکار ہوتے ہیں ایک ایک پل کی خبر رکھتے ہیں اتنی ”خبر“ کہ انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ دنیا کی توجہ ہٹانے کے لئے وہ تحریک طالبان پنجاب کے نام سے جو رقعہ چھوڑے جا رہے ہیں اس پر پیارے نبی کا نام کئی بار لکھا ہے اور یہ کاغذ انہوں نے کہاں پھینکا۔ کیا یہ توہین نبی نہیں؟

اس امر پر تو اب کسی کو اختلاف نہیں کہ یہ دہشت گرد طالبان کی آڑ میں اسلام اور انسانیت کے دشمن ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران آخر ’بلٹ پروف‘ میں ہی اپنی زندگی کیوں محفوظ خیال کرتے ہیں کیا انہیں ضیاءالحق کے طیارے کے ’کریش‘ ہونے کا علم نہیں کہ سی 130 جیسا طاقت ور بلٹ کیا میزائل پروف جہاز کے کیسے پرخچے اڑا دئیے گئے ،جنرل(ر) پرویز مشرف کی ’بلٹ پروف‘ گاڑی کو کس طرح وفاقی دارالحکومت کے احاطے میں اڑانے کی کوشش کی گئی ،بے نظیر بھٹو آخر کیوں نہیں بچ سکی اور سلمان تاثیر اس فولادی گاڑی کے ہونے کے باوجود آخر کیوں زندگی کے بازی ہار گئے اگر مذکورہ واقعات کو پیش نظر رکھیں تو اس تناظر میں شہباز بھٹی کو ’ بلٹ پروف‘ گاڑی کتنا عرصہ تک بچا سکتی تھی آخر انہیں کبھی نہ کبھی دانستہ و غیر دانستہ ہوا خوری کے لئے ہی سہی کھلی فضاء میں آنا پڑتا اور دھاک لگائے قاتل اپنا مقصد حاصل کر لیتے لہٰذا گولی روکنے والی گاڑی ہیلی کاپٹر،جہاز وغیرہ کا ہونا نہ ہونا برابر ہے مارنے والے کہیں آگے تک سوچ لیتے ہیں ،اب اس ’بلٹ پروف ٹیکنالوجی‘ کا کوئی یقین نہیں کرتا۔

جہاں تک 2 مارچ کے اس واقعہ کا تعلق ہے تو یہ ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ ہماری ریاست میں بھی کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کے خلاف قانون کو ہاتھ میں لے اور پاکستان کے کسی بھی صائب رائے رکھنے والے شخص سے اس واقعہ کے متعلق بات کریں تو وہ یہی کہے گا کہ اس کا سر ندامت سے جھک گیا ہے کہ2 دن قبل ہم گودھرا ٹرین حادثہ میں بھارت کے 31 مسلمانوں کو سزائے موت اور عمر قید کی سزائیں دینے پر بھارت کی مذمت کر رہے ہوتے ہیں تو آج اقلیتی امور کے وزیر کو دن دیہاڑے قتل کر کے ہم دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں ۔ہمیں کسی دوسری ریاست سے اس حوالے سے تقابلہ کرنے کی ویسی بھی ضرورت نہیں کہ ہمیں تو اپنی ریاست میں اقلیتوں کو وہ حقوق دینے چاہیے تھے کہ جو آقا نامدار حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ذمیوں کو دئیے تھے مگر افسوس کہ ہم نے ایک ہم وطن غیر مسلم وزیر کو قتل ہونے دیا اور افسوس یہ بھی کہ اب اس قتل پر سیاست بھی کر رہے ہیں۔
Shehzad Iqbal
About the Author: Shehzad Iqbal Read More Articles by Shehzad Iqbal: 65 Articles with 48271 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.