مصور و مفکر پاکستان شاعر مشرق حکیم الامت ڈاکٹر علامہ
اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے برصغیر میں ہندونواز انگریز حکومت میں اپنی شاعری
سے مسلمانوں میں جذبہ ایمانی پیدا کیا ان میں سوئی ہوئی خودی کو جگایا اور
انہیں متحد کر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت کے قیام کے لیے تحریک
چلانے پر مائل کیا اس کا ثمر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں آج ہمارے
سامنے ہیں.
شاعر فلسفی بیرسٹر دانشور اور سیاستدان ڈاکٹر علامہ اقبال 9 نومبر 1877 کو
سیالکوٹ کے کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے ان کے والد شیخ نور محمد عالم دین
تھے جبکہ والدہ امام بیبی کا تعلق سیالکوٹ کے مسلمان پنجابی گھرانے سے تھا
اقبال کی اقبال منڈی میں ان کی والدہ کا اہم کردار تھا جو بہت شائستہ اور
ہمدرد خاتون تھیں جب ان کی والدہ رحلت فرماگئیں اقبال کی گویا جیسے دنیا ہی
اجڑ گئی.
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
علامہ اقبال نے مختلف مواقع اور ضرورتوں کے پیش نظر تین شادیاں کیں تیسری
شادی سردار بیگم سیکی جن سے لخت جگرجاویداقبال پیدا ہوئے.
علامہ اقبال جب چار برس کے تھے تو انہیں قرآن حفظ کرنے کے لیے مدرسے میں
داخل کروادیا گیا مدرسے کے مہتمم اور سیالکوٹ کے اسکاٹش مشن کالج میں عربی
کے پروفیسر سید میر حسن سے انہوں نے عربی زبان سیکھیں 1893 میں میٹرک
اور1895 میں فیکلٹی آف آرٹس میں ڈپلومہ کے ساتھ انٹرمیڈیٹ کیا انہوں نے
گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا جہاں سے1897 فلسفی انگریزی ادب اور عربی میں
بیچلر اف آرٹس کی ڈگری حاصل کی عربی میں شاندار کارکردگی دکھانے پر پنجاب
یونیورسٹی نے انہیں خانبہادر ایف ایس جلال الدین میڈل سے نوازا 1899 میں وہ
فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرکے پنجاب یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن پر
آئے ساتھ ہی عربی شاعری شروع کی اور معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم
اٹھایا-
علامہ اقبال کی شخصیت پر ان کے گورنمنٹ کالج لاہور میں فلسفے کے استاد سر
ایڈ ون آرنلڈ کی تعلیمات کا بہت اثر رہا انہی کے اصرار پر وہ1905 میں سکالر
شپ پر ٹرینٹی کالج یونیورسٹی آف کیمبرج انگلستان گئے.علامہ اقبال نے ایران
میں روحانی ترقی کے موضوع پر ایک مقالہ لکھ کر فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری
حاصل کی 1908 انگلستان میں لنکن ان کے مقام پر آنے کی دعوت دی گئی اسپرس ہو
وکیل اور فلسفی بن کر ہندوستان واپس آئے اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں
فلسفہ پڑھانے لگے تاہم انہیں ہندوستانیوں کی غلامی کا احساس بہت زیادہ تھا.
انیس سو 22 میں انہیں سر کے خطاب سے نوازا گیا اسی دور میں علامہ اقبال کا
شکوہ مسلمانوں کے دل کی پکار ثابت ہوا شکوہ لکھنے پر انہیں شدید تنقید کا
سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے جواب شکوہ لکھ کر تمام نقادوں کو لاجواب کر دیا
کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے . 1993 میں اسپین اور افغانستان کے
دورے سے واپسی کے بعد علامہ اقبال حلق کی پر سرار تکلیف میں مبتلا ہوئے
آخری ایام پٹھان کوٹ کے نزدیک ریاست جمالپور میں دارالاسلام ٹرسٹ کے قیام
کے لئے چودھری نیاز علی خان کے ہاں گزارے یہاں وہ کلاسک اسلام پر کام کرتے
رہے وہ اکثر روحانی رہنمائی کے لیے داتا گنج بخش کے مزار پر جاتے تھے
بالآخر طویل علالت کے بعد 21 اپریل 1939 کو لاہور میں ساٹھ برس کی عمر میں
داعی اجل کو لبیک کہا ان کا مزار بادشاہی مسجد اور قلعہ لاہور کے درمیان
حضوری باغ میں واقع ہے آج بھی ہزاروں عقیدت مند روزانہ فاتحہ پڑھنے اور
خراج عقیدت پیش کرنے آتے ہیں- انہوں نے بہت سی کتابیں لکھیں اور اپنے علم
سے آنے والی نسلوں کو روشناس کیا جن میں سے کچھ کتابیں یہ ہیں-فارسی شاعری
کی کتاب اسرار خودی, رموز بے خودی پیام عشق زبور عجم جاوید نامہ ارمغان
حجاز بانگ درا بال جبریل ضرب کلیم وغیرہ شامل ہیں . |